دنیا کے کئی ممالک میں کوویڈ کی ایک اور لہر کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک بھارت میں بھی اس ممکنہ لہر سے نمٹنے کیلئے پیشگی اقدامات کئے جارہے ہیں۔اس ضمن میں جہاں وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس منعقد ہوا وہیں ریاستوں اور یونین ٹریٹریز کی سطح پر بھی اجلاس منعقد کئے جارہے ہیںا ور مرکزی وزارت صحت بھی خاصی متحرک ہوچکی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں کوویڈ کے گرتے معاملات کے تناظر میں خوش فہمی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کوویڈ ابھی ختم نہیں ہوا ہے اور حکام کو خاص طور پر بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر چل رہے نگرانی اقدامات کو مضبوط کرنی چاہئے ۔وزیر اعظم نے یہ یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا کہ تمام سطحوں پر مکمل کووڈ بنیادی ڈھانچہ آلات ، عمل اور انسانی وسائل کے پس منظر میں تیاریوں کو اعلیٰ سطح پر بنائے رکھا جائے گا۔انہوں نے ریاستوں کو آکسیجن سیلنڈر ، پی ایس اے پلانٹ، وینٹی لیٹر اور انسانی وسائل سمیت اسپتال کے بنیادی ڈھانچے کی آپریشنل تیاری کو یقینی بنانے کے لئے کووڈ کی مخصوص سہولتوں کا آڈٹ کرنے کی بھی صلاح دی۔وزیر اعظم نے حکام کو جانچ اور جینومک تربیت کی کوششوں کو تیز کرنے کی ہدایت دی۔ریاستوں کو کہا گیا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر جینوم سیکوینسنگ کے لیے نامزد کردہ آئی این ایس اے سی او جی جینوم سیکوینسنگ لیبارٹریز (آئی جی ایس ایل) کے ساتھ بڑی تعداد میں نمونے شیئر کریں،اس سے ملک میں گردش کرنے والی نئی قسموں کی بروقت پتہ لگانے میں مدد ملے گی اور صحت عامہ کے لیے ضروری اقدامات کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ وزیر اعظم نے آنے والے تہواروں کے سیزن کو دیکھتے ہوئے عوام سے کوویڈ سے متعلق مناسب رویے پر ہمہ وقت عمل کرنے پر زور دیا جس میں بھیڑ بھاڑ والے عوامی مقامات پر ماسک پہننا بھی شامل ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ احتیاطی خوراک کے تعلق سے خاص طور سے کمزور اور بزرگ گروپوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ چونکہ مستقبل کے حوالے سے اشارے کچھ اچھے نہیں مل رہے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میںکووِڈ کی نئی شکل اور معاملات میں اضافہ کے پیش نظر تمام ہسپتالوں میں آکسیجن پلانٹس ، مطلوبہ اَدویات کی دستیابی ، آئی سی یو اور آکسیجن سپورٹیڈ بستروں کے آڈِٹ کو یقینی بنانے کے لئے ہدایات جاری کیں۔اْنہوں نے ضلع ترقیاتی کمشنروں اور صحت حکام کو ہدایت دی کہ وہ پنچایتی سطح سے شروع ہونے والے صحت بنیادی ڈھانچے کو مضبوط اور بہترین طریقے سے اِستعمال کرنے کو یقینی بنائیں۔ اضلاع میں صحت ٹیموں کو ہدایت دی گئی کہ وہ فوری طور پر رابطے کا پتہ لگانے ، آکسیجن سلنڈروں اور کنسنٹریٹروں کے آڈِٹ کے ساتھ ساتھ وینٹی لیٹروں کی دستیابی اور کام کرنے پر توجہ دیں۔ وزیراعظم اور اس کے بعد لیفٹیننٹ گورنر کی ہدایات اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حکومت کو بھی تشویش لاحق ہے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ معاملہ برا ہ راست انسانی زندگیو ں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے جان ومال کی سلامتی یقینی بنائے ۔گوکہ ریاست اپنی طرف سے اس نظر نہ آنے والے دشمن سے اپنی رعایا کو بچانے کی کوششوںمیں لگی ہوئی ہے اور اس ضمن میں نہ صرف طبی ڈھانچہ کو مسلسل اپ گریڈ کیاجارہا ہے بلکہ ٹیکہ کاری کا دنیا کا سب سے بڑا مشن بھی چلایاجارہا ہے تاہم حکومت کے یہ تمام اقدات جبھی کارگر ثابت ہوسکتے ہیں جب عوام کا تعاون شامل حال رہے ۔فی الوقت عوام کے تعاون کے حوالہ سے صورتحال افسوسناک ہی ہے۔جب اس طرح کی صورتحال ہو تو حکومت کیا کرسکتی ہے ۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب ہم اُس طرح اپنے معمولات نہیں چلاسکتے ہیںجس طرح2020سے قبل چلاتے تھے ۔تب کورونا نہیں تھا ،لیکن آج کورونا ہر جگہ موجود ہے اور مسلسل ہمارا پیچھا کررہاہے ۔مانا کہ3 سال قبل ہمیں ماسک کی ضرورت نہیں تھی اور ہی بھیڑ بھاڑ میں کوئی پریشانی تھی لیکن آج ماسک نہ پہن کر اور بھیڑ بھاڑ جمع کرکے ہم نہ صرف اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ ہمار ی لاپرواہی کی وجہ سے دوسری انسانی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ رہی ہیں جو قطعی دانشمندی قرار نہیں دی جاسکتی ہے ۔اگر علاج اتنا سستا ہے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم اس پر عمل کیوں نہیں کرتے ۔فیس ماسک کا استعمال ہو یا سماجی دوریوں کے پاس و لحاظ کا معاملہ ،دونوں احتیاطی تدابیر اتنی سستی اور آسان ہیں کہ ان پر ہمہ وقت عمل کیاجاسکتا ہے جبکہ ہاتھ منہ صابن سے دھونا بھی کوئی بڑا کام نہیں ہے اور وہ ویسے بھی ہمارا معمول ہی ہے ۔اگر احتیاط اور علا ج اتنا سستا اور آسان ہے تو پھر ہم پر بھی واجب آتا ہے کہ ہم احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوکر حکومت کا کام آسان بنائیں ورنہ آنے والے دنوںمیں صورتحال انتہائی گھمبیر ہوسکتی ہے جس کے شاید ہی ہم متحمل ہوسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
! کورونا طوفان … اشارے کچھ اچھے نہیںہیں
