گندو//سب ڈویژن گندو کی چلی پنگل تحصیل کے دور دراز گاﺅں امرت پورہ کو سڑک رابطے سے جوڑنے کے لئے 2008ءمیں چنیاس گاﺅں سے ہوتے ہوئے کنڈ تا امرت پورہ دس کلومیٹر سڑک تعمیر کرنے کو منظوری ملی تھی جس پر چھ کروڑ روپے کی لاگت آنے کا تخمینہ تھا،مگر آٹھ برس گذرنے کے بعد بھی یہ سڑک تعمیر نہ ہو سکی اور لوگ آج بھی پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔تفصیلات فراہم کرتے ہوئے مقامی نمبر دار غلام حسین بٹ اور متعدد دیگر معززین نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ2009ءمیں اس سڑک کے ٹنڈر ہوئے تھے اور تعمیر کام بھی شروع ہوا تھا،مگر پھر نا معلوم وجوہات کی بنا پر ایک بار جو کام روک دیا گیا تو دوبارہ شروع نہ ہو سکا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سڑک کی تعمیر سے اگرچہ کنڈ سے لے کر امرت پورہ تک چھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہزاروں کی آبادی کو فائدہ ہونا تھا ،مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ 130گھروں اور آٹھ سو سے زائد آبادی پر مشتمل امرت پورہ گاﺅں کو ملنے والا تھا جو ایک اونچی پہاڑی کی چوٹی کے قریب واقع ہے۔ سڑک کی منظوری اور پھر تعمیر کام شروع ہونے سے پورے علاقہ کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ،مگر یہ خوشی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور چند کلومیٹر تک کھدائی کرنے کے بعد سڑک کی تعمیر کا کام بند کر دیا گیا جو دوبارہ شروع نہ ہو سکا۔لوگوں کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ کام کیوں بند ہوا اور سڑک کی تعمیر کے لئے جو چھ کروڑ روپے جو رقم منظور ہوئی تھی وہ کس کھاتے میں چلی گئی۔ اُنہوں نے کہا کہ علاقہ چلی پنگل کے سب سے زیادہ اونچائی پر واقع امرت پورہ گاﺅں کے لوگوں کو آج کے اس دور میں بھی دشوار گذار پہاڑی راستوں اور جنگلات سے نہ صرف یہ کہ کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے بلکہ اُنہیں ضرورت کی اشیاءبھی اپنی پیٹھوں پر لاد کر لے جانا پڑتی ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ نزدیک ترین ہائر اسکنڈری اسکول 10کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے اور اس طرح یہاں کے طلباءو طالبات کو روزانہ آتے جاتے20کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔ہائی اسکول جانے کے لئے بھی بچوں کو کئی کلومیٹر سفر کرنا پڑتا ہے۔ علاقہ میں کسی بھی قسم کی طبی سہولت دستیاب نہیں ہے اور مریضوں اور حاملہ خواتین کو اسپتال منتقل کرنے کے لئے چارپائیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ابھی تک یہاں اسپتال منتقلی کے دوران درجنوں اموات واقع ہوئی ہیں جن میں زیادہ تعداد حاملہ خواتین کی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ لوگوں کے پیہم مطالبات کے بعد کُنڈ امرت پورہ دس کلومیٹر سڑک منظور ہوئی تھی اور اُس کے لئے چھ کروڑ روپے بھی آ گیا تھا،مگر اُنہیں آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ سڑک کی تعمیر کا کام کیوں بند ہوا اور جو رقم اس سڑک کے لئے منظور ہوئی تھی وہ کہاں گئی۔اُنہوں نے کہا کہ سڑک کے ٹنڈر ہونے کے بعد کام کس کو تفویض ہوا تھا اس بات کو بھی متعلقہ حکام نے صیغہ¿ راز میں ہی رکھا ۔جب مقامی لوگوں نے آر ٹی آئی کے ذریعہ یہ پوچھا کہ سڑک کی تعمیر کا کام کسے دیا گیا ہے تو متعلقہ حکام نے یہ کہہ کر لوگوں کو بیوقوف بنایا کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر وہ یہ بات ظاہر نہیں کر سکتے۔اُنہوں نے کہا کہ سڑک تعمیر ہونے کا لوگوں کواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا اور گاﺅں کے لوگوں میں تشویش اور مایوسی پیدا ہوئی ہے۔اس سلسلہ میں ایکس ای این گندو عبدالرشید شیخ نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سڑک کی تعمیر کا کام محکمہ یا متعلقہ ٹھیکیداروں کی کسی کمزوری یا لا پرواہی کی وجہ سے بند نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ مقامی لوگ ہی آڑے آ رہے ہیں جن کے مکانات سڑک کی تعمیر کی زد میں آ رہے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اس سڑک کی زد میں کچھ ایسے مکانات آ رہے ہیں جو محکمہ جنگلات کی اراضی میں بنائے گئے ہیں ۔ مکان مالکان معاوضہ طلب کر رہے ہیں جب کہ اصول و ضوابط کے مطابق محکمہ جنگلات کی زمین پر بنائے گئے مکانات کا معاوضہ فراہم نہیں کیا جا سکتا۔اُنہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال سے مقامی ایم ایل اے غلام محمد سروڑی اور ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ بخوبی واقف ہیں اور وہ بھی کوئی ایسی صورت تلاش کر رہے ہیں کہ سڑک بھی تعمیر ہو اور مکان مالکان بھی بے گھر نہ ہوں۔جوں ہی اس معاملے کا
کوئی حل نکلتا ہے تو سڑک کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کر کے پایہ¿ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔