کشمیر کے مایہ ناز مورخ اور وقائع نگار کلہن پنڈت نے صدیوں قبل یہ اَٹل اور ناقابل تردید تاریخی سچ اپنی ’’راج ترنگنی ‘ ‘میںدرج کیا تھا کہ کشمیری قوم شمشیر وسنسان سے مغلوب ہوسکتی ہے نہ زورِ بازو سے زیر کی جاسکتی ہے ،اسے صرف روحانی قوت ہی مائل بہ کرم کرسکتی ہے ۔ کلہن کا یہ دعویٰ کہ کشمیری قوم ناقابل تسخیر ہے کوئی شاعرانہ تعلی نہیں، نہ کوئی جذباتیت کی ترنگ بلکہ یہ ایک امر واقع ہے جسے سفر تاریخ کے ہر پڑاؤ اور ہر منزل پر ہم ایک حقیقت کے رُوپ میں دیکھتے رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ سنسکرت زبان میں لکھی گئی کلہن کی قدیم تاریخ ِکشمیر کوہمارے وطن کی پہلی تحریری تواریخ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔یہ چونکہ صنف ِنظم میں لکھی ہوئی تاریخ ہے، جس میں محققین تاریخی واقعات کو بڑی حد تک دیو مالائی اثرات سے خلط ملط پاتے ہیں۔ ان چیزوں کو چھوڑ کر’’ راج تر نگنی‘‘ کے ثقہ ہو نے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔کلہن نے اپنی تاریخ ستی سر کی دیومالائی کہانی سے شروع کی ہے اور جو کچھ بھی اس سلسلے میں بیان کیا ہے آج عقل کی کسوٹی پر دیوی دیوتاؤںاور عفریتوں کا قصہ کھرا نہیں اُتر سکتا ہے ،نہ ہی ان میں سے کوئی معانی ومفاہیم تلاشے جاسکتے ہیںلیکن اس کے باوجود تاریخ دانوں کو یہ کہانیاں چارو ناچار سہنا پڑتی ہیں ۔
بہر صورت یہ تو ماننا پڑے گا کہ اَندھ وشواسی کہانیوں کو منظوم پیرائے میں بیان کرکے مورخ کلہن نے اپنی قلم کاریوں کے جوہر بھی دکھا ئے ہیں ۔ اس کی تاریخ نویسی میں تسامحات سے صرف نظر کر کے جب ہم کلہن کے متذکرہ بالا دعوے کہ اہل ِکشمیر پر تلوار وتفنگ سے غلبہ پا یا نہیں جاسکتاکی پرکھ عملی حقائق کی کسوٹی پر کر تے ہیں تو تواریخِ کشمیر کی اس لازوال حقیقت کی کارفرمائی ہم تاریخ کے ہر موڑ پر من وعن سچائی کی صورت میں لا محالہ دیکھتے ہیں۔
آج بھی خرابی ٔ بسیار کے باوجود ساری دنیا دیکھ ر ہی ہے کہ عجیب و غریب خمیر سے اُٹھنے والی کشمیری قوم سے مماثل کوئی اور قوم دنیا کے نقشے میںکہیں نظر نہیں آتی ۔ حالانکہ کئی نئے اور پرانے مورخین اور ماہرین اس بات پر متفق علیہ ہیں کہ کشمیری عوام ایک ریوڈ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے، اور ہم صدیوں ریوڑ ی نفسیات میں بہک کر اپنا عمل اور ردعمل د کھاتے آئے ہیں۔ بنا بریں بعض وقائع نگاروں کا خیال یہ ہے کہ اہل کشمیر بنی اسرائیل کا کھویا ہوا بارہواں قبیلہ ہیں ۔ بایںہمہ جہاںایک تاریخ دان کشمیری قوم کو خود رو گھاس سے تشبیہ دیتا ہے ،و ہاں دوسرا مورخ اس قوم کی خوئے غلامی پر چوٹ پر کر تا ہے ،کوئی ہمارے بار ے میں ایسی مضحکہ خیز کہانیاں گھڑلیتا ہے جن سے کشمیری قوم کی تحقیر وتذلیل مطلوب ہوتی ہے ۔ مہاراجی دور کے ایک انگریز ماہربندوبست استمراری سر والٹر لارنس تک نے’’ ویلی آف کشمیر ‘‘میں کشمیری مزاج کی ایک خود ساختہ غلط جھلک پیش کر کے ہماری تذلیل وتضحیک اور کردار کشی کا شوق پورا کردیا ہے۔اس کے برعکس کلہن نے کشمیری قوم کو غیور وجسور اور ناقابل تسخیر قراردے کر اپنے قومی مزاج اور شناخت کی بخوبی نشاندہی کی ہے ۔ اس ابدی حقیقت کی جھلکیاں آج بھی ہم کشمیر کے چپے چپے میں موجود پاتے ہیں ۔
تواریخ کا مطالعہ سب سے پہلے ہماری توجہ وادی کے جغرافیائی حدوخال کی طرف مبذول کراتا ہے۔ جغرافیائی طور پر کشمیر کا ناقابل تسخیرہونا قابل فہم ہے کیونکہ یہاں کے اونچے پہاڑ ، دشوار گزار درے ، بالائی اور نشیبی علاقوں کی مخصوص ٹاپو گرافی ، فلک بوس برف پوش چوٹیاں، بلندوبالا پہاڑ وں کے بیچ رینگتے سانپ کے مانند بل کھاتے لہراتے ندی نالے، جھیل جھرنے وادی کو بے مثال حسن ہی عطا نہیں کر تے بلکہ زمانہ اسبق میں ا س سر زمین کو اغیار کی فوجی مہم جوئی سے باز رکھنے کے لئے یہ انہیں کافی مضبوط اشارے دیتے تھے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہاں پل پل بدلنے والے موسمی حالات بھی انہیں چتاؤنی دیتے تھے کہ یہاں کا رُخ نہ کرو۔ تسلیم کہ بہا روں کی رونقیں اور خوشگوار یاں زمانہ ٔ قدیم میں اغیار کو وادی میں قدم رنجہ ہونے کی ترغیب وتشویق دلاتے تھے مگر کڑاکے کی سردی بھی انہیں ڈراتی تھی کہ جان پیاری ہے تو یہاں بھول سے نہ گھس آنا۔ قدرت کایہ نظم ِدفاع صدیوں تک کسی بھی بڑے لشکری مہم باز کو وادی ٔ کشمیر پر یلغار کر نے کے ضمن میں سو بار خطرات پر سنجیدہ غور وخوض کا سندیسہ دیتے تھے ۔ یوں ہزاروں برس اس قدرتی پہرے داری اور پاسبانی کے اہتمام سے اور خود کشمیری قوم کی سپاہیانہ جرأت اور فوجی مہارت سے کشمیر جیساland locked خطہ بیرونی در اندازوں کی ریشہ دوانیوں بچتا رہا ۔اس تناظر میں جب ہم تاریخِ کشمیر کا بغور مطالعہ کرتے ہیں توکچھ اور ناقابل یقین حقائق سامنے آتے ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کیا جاتا رہاہے ۔مثال کے طور پر وادی ٔ کشمیر کے ماضی کے بارے میں سب لوگ شاید نہیں جانتے ہوں گے کہ کشمیر کے راجاؤں نے کبھی بلند و بالا پہاڑوں کا سینہ چیر کر اپنی آزاد وخود مختار سلطنت وسطی بھارت تا افغان سرحد پھیلائی تھی اور یہ سار اوسیع رقبہ ٔ ارض عملاً راجگان ِ کشمیر کی قلمرو میں شامل تھا ۔ ماضی کے ایسے کئی کشمیر ی راجاؤں کے تذکرے ہماری تاریخ میں زریں حروف میں ملتا ہے۔ اس تعلق س للتا دت مکتا پیڈ کی کہانی قابل ذکر ہے ۔ یہ ایک عجیب مخمصہ ہے کہ سکندر اعظم کی فتوحات ضرب المثل بنیں جب کہ للتا دت کی فتوحات سکندر سے کئی گنا زیادہ بڑی تھیں ۔اس کی فتوحات کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روایات کے مطابق اس نے جہاںکنیا کماری اور لنکا تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑدئے ، وہیں لاہور سے آگے افغانستان سے متجاوزروسی سرحدوں تک بھی اپنی سلطنت کی دستک سنائی ، بلکہ تاشقند ، بخارا ، سمر قند ، و سطی ایشاء سے آگے اپنی فتوحات کو اُن اقوام و ممالک تک توسیع دی کہ اُسے خود اپنے وطن مالوف کشمیر تک واپسی کاسفر محال نظر آیا ۔ تاریخ میںآیا ہے کہ للتا دت کے دبدبے کا حال یہ تھا کہ وقت کے بڑے بڑے بادشاہوں نے اس کی قوت کا لوہامان کربغیر کسی لڑائی اور جنگ کے اس کی ہیبت کے سامنے سرنڈر کیا ۔ یہ حکمرانی سارے ویدک بھارت ورش سے ہوتی ہوئی دوسرے ممالک پر محیط رہی ۔یہ اعزاز بھی اکیلے اس کشمیری راجہ کو جاتا ہے کہ اس نے کئی راجاؤں کو اپنا باج گزار بنایا اور بھارت کے اتہاس میں اتنی بڑی سلطنت کسی اور بادشاہ کو نصیب نہ ہوئی ، نہ مہابھارت کے زمانے میںاور نہ اکبر اعظم کے دور میں۔کیا یہ حیرت انگیز حقیقت کلہن کے بیانیے پر مہر تصدیق ثبت نہیں کر تی ؟ تاریخ کا آئینہ ہمیں یہ بھی دکھاتا ہے کہ کئی راجاؤں نے کشمیر فتح کرنے کا خواب دیکھا جس کی تکمیل میں انہیںسوائے تباہیوں اور بر بادیوں کے کچھ بھی حاصل نہ ہوا ۔ وجہ نہ جز اس کے کچھ نہ تھی کہ یہ قدرت کا اہتمام تھا کہ سرزمین کشمیر اغیار کی رسائی سے ہی نہیں بلکہ حکمرانی سے بھی بالاتر رہے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ وقتاً فوقتاً کشمیر کے کئی راجاؤں نے مختلف مقاصد کے تحت اپنی فوجیں لے کر شمالی بھارت کو نہ صرف تسخیر کیا بلکہ اس خطے کو مدتوں اپنا باج گزاربنا ئے رکھا ۔آج کی تاریخ میں ذکی الحس آدمی حیرت زدہ ہو کر رہتا ہے کہ وہ قوم جسے کلہن نے ناقابل تسخیر کہا تھا، آج بھی یہ قوم اپنی تمام کمزوریوں،ناتوانیوں اور بیماریوں کے باوجود نامساعد حالات میں بھی اپنی بقاء کی لڑائی بیش قیمت قربانیوں کے بل پر نہتی ہوکر بھی لڑتی جا رہی ہے ۔
کسی زمانے میں کشمیر علم و ادب کا شاندار گہوارہ رہا ، خصو صاً یہاں بُدھ مت کی شہرہ ٔ آفاق درس گاہیں واقع تھیں۔ اس علمی شان وشوکت کے کھنڈرات اورآثار قدیمہ آج بھی ہمارے آبا ء واجداد اور ہمارے تاب ناک ماضی کی عظمت و بر تری کا احساس ہمیںدلا تے ہیں ۔ ہماری تاریخ کا ایک نامی گرامی بادشاہ سلطان زین العابدین (بڈ شاہ ) بھی ہے ۔ بڈشاہ کا زمانہ نہ صرف تاریخی طور کشمیر کا سنہرا دور کہلاتا ہے اور یہ کہ آج بھی بڈ شاہ کی شخصی بڑائی ،رعایا پروری، دست کاریوں کی سر پرستی ،علم دوستی، عدل گستری اسے کشمیر یوں میں زندہ رکھے ہوئی ہیں ۔ تاریخ کے پنوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مغل بادشاہ اکبر نے بھی بزورِ بازو کشمیر فتح کرنا چاہا لیکن اکبر عساکر ِ کشمیر کے ہاتھوں کئی بار شکست کھاگیا ۔ باوجود یکہ یہاں کا بادشاہ یوسف شاہ چک آرام طلب اور عیش و عشرت کا دلدادہ تھا ، تب بھی اس میں اتنی دم خم تھا کہ اکبر جیسے بڑے بادشاہ کو میدان ِ جنگ میں ہرایا۔ میدان کار زار میں جب مغل شہنشاہ یوسف شاہ چک سے شکست کھا گیا تو اپنی للچاہٹ کا بھرم رکھنے کے لئے وہ فریب کاری پر اُتر آیا اور سلطان کشمیر کو دلی دربار میں بلایا،پھر دھوکہ دہی کا جال بچھا کر یوسف شاہ چک کو قید کر ڈال کر اپنے مشن کشمیر کی راہ ہموار کر لی ۔ یوسف چک کے بعد اس کا بیٹایعقوب شاہ چک مملکت کشمیر کا آخری خود مختار بادشاہ تھا ۔مغل لشکروں نے دوسری بار مرزا قاسم میر بحرکی کمان میں یعقوب شاہ کو شکست دی اور ۱۷؍ ذیقعد ۹۹۴ ھ کو سرینگر میں داخل ہوئے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ایران کے فر ماں رؤاوں میں بھی یوسف ترکماں کے بیٹے سلطان یعقوب بیگ ترکماںکا انجام بھی بالکل ایسا ہی ہواتھا۔ ایران کے کسی شاعر کا یہ شعر یہاں کے آخری چک حکمرانوں پر بھی صادق آتا ہے ؎
نہ از یوسف نشان دیدم نہ از یعقوب آثارے
عزیزان ِ یوسف را گم شد چہ شد یعقوب رابارے
تاریخ شاہد عادل ہے کہ ناقابل تسخیرکشمیری قوم اغیار کے لاؤ لشکر سے کبھی نہ ہاری بلکہ بار بار فریب اور فراڈ سے ہی شکست کھاتی رہی ہے ۔ مغلیہ دور سے آج تک بار بار تاریخ یہی حزنیہ کہانی مختلف رنگ وآہنگ کے ساتھ دہرائی جاتی رہی مگر یاد رکھئے ہم نے تاریخ کی ہر ڈگر پر اغیار کی چال بازیوں اور دست آزمائیوں سے نہیں بلکہ صرف دَجل وفریب سے ہارا۔ تاریخ کے اس مسلسل تکرارسے ہم یہ اخذ کر نے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ہماری قومی المیہ ہے کہ ہم بلا سوچے سمجھے ہر کسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اجتماعی طور ہمارا حال یہ ہے ؎
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہراِ ک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا ہوں نہیں ابھی راہ بر کومیں
افسوس کہ یہ تاریخ کا سونپا ہوا وہ مشترکہ ورثہ ہے جو عصر رواں میں بھی ہمیں فہم وتدبر ، معاملہ فہمی اور دوراندیشی کے میدان اتنا کمزور ثابت کررہا ہے کہ چرپ دست اور تردماغ ہو نے کے باوجود ہم باربار زمینی حقائق کا فہم وادراک کر نے سے قاصر ر ہے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم آنکھ بند کر کے اپنی تقدیر کی باگ آستین کے سانپوں کو سونپ نہ دیتے ، ’’ اَلہ کرے گا وانگن کر ے گا‘‘ جیسے خود فریبانہ نعرے بلند نہ کر تے اور اٹانومی کے سنہرے سپنے اور سیلف رول جیسی بے وقت کی راگنی کا وِرد نہ کر تے پھرتے ۔ یہ انہی خیالی سیاستوں کی کرم فرمائی ہے کہ کشمیر اس وقت بھی مر مٹ رہاہے ، ریاست کرپشن میں پہلا نمبر پاگئی ہے ، نفسا نفسی اوربے خودی کے عالم میںہم ایک تکریم والے حال اورمحفوظ مستقبل سے محروم ہیں ، ہمارا قومی تشخص، سماجی انفرادیت، ثقافتی ورثہ،تعلیمی نظام زندگی کی رعنائیوں سے تہی دامن ہو چکا ہے۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیراہے اور کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس اندھیری رات کا کوئی سحر نہیں لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے ٹھوس حقائق بے نقاب ہیں جو بتارہے ہیں ؎
غم نہ کر گر ہے بادل گھنیرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
یہ ایک جگ ظاہر حقیقت ہے کہ کشمیرکی غلامی کا دور مغلوں سے شروع ہواجو ابھی تک رواں دواں ہے ، مہاراجہ گلاب سنگھ نے پورے کشمیر کو انگریزوں سے پچھتر ہزار نانک شاہی کے عوض خریدا ، بہت ہی سستے داموں بیچی گئی یہ قوم اور پھر یہ شخصی راج کا دور ایک انسانی المیہ تھا جو ظلم و جبر سے بیگار تک اور ہزاروں انسانی جانوں کے قتل عام سے بدترین وحشیانہ پن تک کی کہانی ایک سوال ہمارے سامنے لاکھڑا کرتی ہے کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں کشمیری قوم زندہ کیسے رہی ؟یہ آج بھی اس وادی میں کیسے رہ بس رہی ہے؟ طویل غلامی اور ظلم وجبر اور قہر ساما نیوں کے باوجود ہم لوگوں میں یہ قوتِ مدافت کہاں سے آتی رہی ہے کہ ہم نے ہر دور میں اغیار کے ظلم و جبر اور تخریب و تشدد کے خلاف آواز اٹھائی ؟ ہم نے اپنی جانوں کا نذرانے پیش کر تے رہنے کے باوجود اپنے تشخص اور انفرادیت کی جنگ کس امید اور یقین کیس سہارے لڑرہے ہیں ؟ پچھلے تیس برس کی خون آشیامیوں کے باوجود کشمیری قوم روز انسانی المیوں کے بیچ زندگی کی گہماگہمی کا سفر کیسے طے کر تی ہے ؟ یہاں چہار جانب موت کے تانڈو ناچ میں کر ب وبلا اور شام غریباں کے المیوں کا اختتام گزشتہ تین دہائیوں سے کہیں نظر نہیں آتا پھر بھی یہ کون سی طاقت ہے جو ہمیں جینے کی راہ سجھاتی ہے ؟ ا س کاجواب یہی ہے کہ کلہن نے ا س قوم کے بارے میںجو تجزیہ پیش کیا ہے وہ پتھر کی لکیر ہے ،جسے نہ کوئی ہتھیار جھٹلا سکتا ہے، نہ کسی سیاسی سوداگری اور دھوکہ دہی سے ا س پر خط ِ تنسیخ پھیری جاسکتی ہے۔ واللہ کشمیری قوم ناقابل تسخیر ہے جسے زور زبردستی ، ظلم و ستم ،نسل کشی، پرائیوں کے قہر اور اپنوں کے فریب کے باوجود زیر نہیں کیا جاسکتا۔ مودی نے جب یہ بات لال قلعے کی فصیل سے کہی کہ کشمیر کو گولی نہ گالی سے بلکہ کشمیریوں کو گلے لگانے سے حل کیا جاسکتا ہے ، تو اس جملے میں معناًکلہن کے بیانیے کی روح چھلکتی محسوس ہوتی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس جملے کو نئی دلی نے بھولے سے بھی اپنی کشمیر پالیسی میں لمحہ بھر کے لئے بھی عمل کے سانچے میںنہ برڈھالا۔
فون نمبر 9419514537