مقتولہ ہم شرمندہ ہیں ، تیرے قاتل زندہ ہیں ، یہاں یہ فلک شگاف نعرہ میرے گوش ِسماعت سے ٹکرایا اور وہاں کھٹوعہ میں زعفرانی بٹوہ میں قید کالے کوٹ والے بابو در ویوار ہلارہے تھے: دیپک تیرے پیپ سے انقلاب آئے گا۔ میں ہکابکا رہ گیا ،اس نعرے پر خون کے آنسو روؤں یا اُس وکیلانہ بددماغی پر جگر کو پیٹوں۔ ویسے کئی کالے کوٹ والے ہمارے بھی جان ِ جگر ہیں ، کئی ایک ہمارے ہم جماعت رہے ہیں ۔مانا روزی روٹی کمانے کے لئے کوٹ کالے پہنتے ہیں لیکن دل ان کے اُجلے ہیںجیسے سپررِن سے دُھلے ہوں کہ داغ نظر آتا ہے نہ دھبہ ۔ نہ جانے ہم کیوں یہ سوچ کر اپنے دماغ کا تیل نچوڑتے کہ آخر کسی شاعر طنز و ظرافت نے کس بنا پر یہ طنزیہ شعر کہہ ڈالا ہے کہ پورے سماج میں کالا کوٹ کچھ اتنا زیادہ کالا نظر آتا ہے کہ خود کوئلہ بھی شرما جائے؟ کیوں وکیلوں کے تئیں شاعر نے شکوک پیدا کر دئے ہیں ؎
پیداہوا وکیل تو شیطان نے یہ کہا
لو آج ہم بھی صاحب ِاولاد ہوگئے
اس شعر کے ساتھ ہم اپنے من کے اُُجلے اور تن کے ملائم وکیل دوستوں کو بہت چڑاتے اور ہنسی مذاق کا نشانہ بھی بناتے،مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ شاعر گرامی بڑے مردم شناس گزرے ہیں ، ہو نہ ہو اُس کا پالا کھٹوعہ جیسے وکیلوں سے پالا پڑا ہو گا ،اُن کے دل کا حال اور کنولی سیاست کا مایاجال سے واسطہ پڑا ہو گا، ان کے کرم کنڈلی کاراز جان گیا ہوگا، اسی لئے ہم جیسے سیدھے سادھے شہزادوں کو سالہا سال پہلے خبردار کیا : ہوشیار خبردار! اگر قانون سے نابلد ، انصاف سے لاولد اگر کوئی وکیل کالے کوٹ کے اند ر بے درد سنگھ کی د وردی پہنے ہو تو وہ ضرور قاتل کو مسیحا ، مقتول کو مجرم، رات کو روشن ، دن کو اندھیرا ، چوہدری لال سنگھ کو دیوتا، چندر پرکاش گنگا کو گنگا جل جیسا پوتر بتادے گا۔ اُس بندہ ٔ خدا نے شاید سنگھی وکلاء کے اندر باہر کالا پن ، باہر میلا پن بھانپ لیا ہوگا جبھی تو ان کا کچا چٹھا بیچ بازار میں بس ایک شعر سے بکھیر دیا،یعنی ان کے کالے جسم کے ساتھ ان کا دل و روح کا کالا پن ہمارے سامنے آگیا۔آٹھ سال کی معصوم بچی آصفہ کا درد بھی انہیں نہ رُلا سکا ، اس کی آہ کا اثر بھی ان کی آنکھوں میں تری پیدا نہ کرسکا بلکہ قاتل ومجرموں کی طرف داری میں سڑکوں پر نکل آئے جیسے عدالتی افسران نہ ہوں گلی محلوں کے غنڈے ہوں۔اسی پولیس فورس کا راستہ روکا جس کی واہ واہ تب کرتے جب وہ بانہال کے اِس پار گولیاں پیلٹ چلاتے ہیں، اتنا ہی نہیں زیر حراست بد کرداروں بد قماشوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکل کر کی واہ واہی کرتے رہے، شاید یہ بھی نعرہ لگایا ہو کہ سانجی رام آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سانجی اپنا گھنائونا کام اکیلے نہیں کرتا بلکہ سانجھے انداز میں کرتا ہے ۔ ہے تو وہ سانجی رام پر رام کا یہ بھکت رام مندر میں سب کچھ انجام دیتا ہے۔جس مندر کی قسمیں کھاتا ہے ،اسی کی آستھا کو گندا کردیتا ہے ۔عجب نہیں کہ سیتا میا بھگوان رام سے کہہ دے ،اچھا ہوا راون نے ہی اغواء کیا ، آج کے رام بھکت ہوتے تو نہ جانے کیا حشرسامانی ہوتی۔ بوڑھے کھوسٹ سانجی نے بیٹے کو،بھتیجے کو، یومیہ مزدوری پر پولیس والے کو بربریت کا ٹھیکہ دیا۔ جب اس کا پول کھل گیا تو ہیرانگر پولیس تھانے کو مال وزر سے منہ بولے داموں خرید لیا۔پیسہ بولتا ہے جبھی تو عادت سے مجبور ان پولیس والوں نے قتل کی سنگین واردات کے اوپر اپنی من گھڑت کہانی کا کفن اوڑھنے کی ناکام کوششیں کیں ۔ موقع ٔوارادت پرجو تفتیش کرنے گئے وہ مجرموں کے اعانت کار بنے ، جوجرم کی پرتیں کھولنے گئے ، وہیں سنگ دل قاتلوں کو قانون کی نگاہ سے چھپانے میں لگ گئے لیکن اسے کیا کہیے کہ سو لوہار کی ایک سنار کے مصداق آصفہ کے کفن نے بہت جلد اپنے قاتلوں کانام پتہ اسی طرح بتایا جیسے آسیہ اور نیلوفر نے ان کی نشاندہی کی تھی ، حق وصداقت سامنے آگئی، آصفہ کی مظلومیت کا فسانہ زبان زدِ عام ہوا ، حریت نے ہڑتال کرائی ، بکروالوں نے وردی والوں سے ٹکرلی، آہستہ آہستہ اقوام غیر متھڈہ کے باس سے لے کر نیو یارک ٹائمز تک کے کان میں بھنک پڑی کہ خستہ جگر آصفہ کشمیر میں صنف نازک کی مظلومیت کا استعارہ ہے ، اس نے دنیا کو اس خبر سے اتنا ہلاکر رکھ دیا کہ بالی وڈ کے گلیمر سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک ، مودی سے لے کر مفتی تصدق تک، ثانیہ سے لے کر راہل گاندھی تک سب اپنے اپنے چپ کاروزہ توڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس سے بوکھلا کر کالا کوٹ پہنے جموںبار کا سپہ سالار اسی غنڈہ گردانہ انداز میں بھڑک اُٹھاجیسے لال سنگھ نے سنہ سولہ میں جموں کے گوجروں کو دھمکی دی تھی کہ سن سینتالیس یاد کرو۔ ویسے اس نے بانوئے کشمیر اور ہل والے قائد ثانی کو یاد دلایا کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے تمہیں ائر پورٹ سے باہر نہیں نکلنے دیا۔اب تو فوج پولیس سب کو چیتاؤنی دے ڈالی کہ ہم سامان حرب و ضرب لے کر میدان میں آئیں گے، اپنے گروگھنٹال سانجی رام کو جیل سے نکالیں گے،کہ وہی ان کا پیر و مرشد ہے۔ادھر جانے کیا بات ہوئی کہ دیر ہی سہی راہل بابا نیند سے جاگا۔اور وہ جو کہتے ہیں جہاں کانگریس کی چاچی بھتیجے نے منہ کردیا ادھر سے واہ واہی وصول ہوتی ہے جبھی تو مقامی صدر کو بھی آٹھ سالہ بچی یاد آئی۔اور ہم نے یاد کیا کہ ایسی ہی کشتی میں وہ بھی کبھی سفر کئے تھے۔سوچتے ہیں کہ ایسا کیا ہوا کہ دل، جسم، روح اور پوشاک کے یہ کالے دیو گلی کے غنڈے کیسے بنے ۔ہو نہ ہو کنول بردار سیاست کے یہاں سے چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا کی شاباشی ملی ہو ۔ان کے اپنے دو وزیر ہجومی سیاست کا حصہ بن کر سانجی رام کی جے بولے تھے اور بانوئے کشمیر اپنی کرسی کی حفاظت کرتے کرتے ان کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھا سکی کہ اس کے ہر قدم کے لئے دلی دربار کا تخلیہ درکار ہے۔ کنول برداروں کا ایک اور ساتھی انائو یو پی میں اسی ضمن میں زیر تفتیش ہے ۔کنول سیاست بھی عجیب ہے کہ جو باپ بیٹی کے حق میں آواز اٹھائے اسے پولیس تھانے میں لے کر خاموش کردو ۔یعنی کبھی مسلم اقلیت کی جان کے لاے پڑے تھے اب تو ان کے اپنے حمایتی بھی ان کی لوٹ پاٹ کا شکار ہیں۔معصوم لڑکی کے آنسو پونچھ کر نوکری دلانے کا وعدہ کیا ۔ہو نہ ہو یہ بھی میک ان انڈیا کا نیا پلان ہو جس میں وکاس کی نئی راہیں کھل جاتی ہیں۔ ایسا وکاس ان کو ہی مبارک۔ ایک اور تو یوگی راج میں اپنے پرانے گناہ دھلنے کے لئے ہاتھ پیر ہی نہیں مارتا بلکہ یوگی راج کے تلوے چاٹ رہا ہے۔یعنی کنول بردار سیاست کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بیٹی بچائو پر کس سے ۔۔۔۔۔بھاجپا سے کنول برداروں سے۔مطلب صاف ہے بیٹی بچائو نعرہ نہیںتھا بلکہ دھمکی تھی کہ اپنی بیٹیوں کو کنول ککڑیوں سے بچاتے رہو نہیں تو خیر نہیں۔یا یوں کہیے کہ بیٹی بچائو تو نعرہ ہے بلتکاری بچائو تو مینی فیسٹو ہے۔ جب کنول بردار شیطان کی طرف داری کرنی ہو تو بھاجپا کے لئے مملکت خداداد والا ہتھیا ر کافی مضبوط دکھتا ہے جبھی تو بی جے پی ایم پی کھنڈوا(مدھیہ پردیش) نند کمار چوہان نے سیدھا نشانہ سرحد پار داغا کہ آصفہ کا ریپ پاکستان کی سازش ہے ۔ظاہر ہے جب ملیریا کے مچھر، ہیضے کے چوہے ، جاسوسی کبوتر سرحد پار سے آسکتے ہیں پھر بھلا ریپ کی سازش کیوں نہیں؟؟؟؟ خوش رہو زعفرانی بھکتو!
یہ بڑا پردیش ہی نہیں یوگی راج نے اسے انکاؤنٹر پردیش بنا دیا ہے۔ہمارا تو دفعہ ۳۷۰ زخمی ہے اور ہم اس کی مرہم پٹی کروانے میں مشغول ہیں لیکن یوگی راج میں دھڑا دھڑ انکاونٹر ہو رہے ہیں اور ۳۷۰ لوگ مار ڈالے گئے ۔ابھی تک اسکور ایک ہزار واقعات تک پہنچ گیا ۔مودی کا گجرات ریکارڈ ٹوٹنے کو تیار ہے۔وہ دو ہزار کٹوا کے وزیر اعظم بنا ۔اگلی باری یوگی کی ہے کہ مارتے جائو اور ایک ایک پائیدان اوپر چڑھتے جائو۔سناہے بدمعاش بھی اس قدر گھبرائے ہیں کہ رات کو پولیس اسٹیشن آکر سوتے ہیں ۔وہاں نہ انکاونٹر کا خوف نہ گرفتاری کا۔یعنی چھوٹے چھوٹے سانبہ خود گبر سنگھ کی پناہ میں آکر چین کی سانس لیتے ہیں۔
سیاست کی ملی جلی کھچڑی، جس میں قطبین ملانے کا کام مرد مومن کی سربراہی میں حسیب مادھو نے کردیا ، میں وہ دوسرے نمبر پر ہے کہ کنول بردار ہے اور ترشول برداروں کی ٹولی اس کے پیچھے چھپن انچ کی چھاتی تانے کھڑی ہے کہ کب اشارہ ہو تو وہ میدان جنگ میں کود پڑیں۔مانا کہ وہ نرمل ہے اور کبھی کبھار اس کا دل کومل بھی بن جاتا ہے لیکن جنگ کا بگل وہ ہمیشہ منہ کے پاس رکھتا ہے اور اس کے ذریعے کہیں مملکت خدادا کی فوج کو کوستا ہے کبھی ملک کشمیر میں عسکری کمانداروں کو آنکھیں دکھاتا ہے ۔ جبھی تو یہاں اسے جنگ آخری مرحلے میں داخل ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اعلان کردیتا ہے کہ ہمارا پلڑا بھاری ہے۔بندوق کے مقابلے میں جب توپ اور گن شپ ہیلی کاپٹر ہو ، پتھر کے بدلے میں جب گولی ہو ، نعرہ بازی کے سامنے جو پیلٹ ہو تو کسے نہیں معلوم پلڑا کونسا بھاری ہوگا۔ پر سمجھنے والے سمجھتے ہیں جو نا سمجھیں وہ اناڑی ہیں کہ جو پلڑا ہلکا ہوتا ہے وہ عام خام لوگوں کا نہیں جمہور کا ہوتا ہے جس کی قسمیں رات دن کنول بردار کھاتے رہتے ہیں۔ان کا کیا ہے وہ تو جمہور کا دفاع اپنے انداز سے کرتے ہیں ۔نہتوں کو گئو ماتا کے نام پر مار ڈالنا اور عصمت دری و قتل کے ملزمین کو قومی ترنگا کی آڑ میں بچائو کرنا ان کی نظر میں جمہور کی آبیاری ہے یا راست الفاظ میں کہدیں کہ خونیاری ہے۔یعنی وہ خون سے جمہور کو سیراب کرتے ہیں البتہ خون ان کا نہیں بیگناہوں کا ہوتا ہے۔ویسے ملک کشمیر ہے ہی ایسا کھیل کہ کبھی اقوام متحدہ میں ڈپلومیسی سے کھیلا گیا، پھر سیاست سے من تو شدم تو من شدی کے ذریعے کھیلا گیا ، کچھ دیر میدان جنگ میں بھی کھیلا گیا لیکن اب کی بار میدان کرکٹ میں کھیلا جا رہا ہے۔ادھر مملکت خداداد سے شاہد آفریدی اپنی دیرینہ عادت کے مطابق بلا ہوا میں گھما کر چھکے پر چھکے اُڑا رہا ہے ۔بیانات کی اسپن گیندیں پھینک رہا ہے کہ گھمبیر اور ویرو کا سر چکرا جاتا ہے ۔پھر وہ بھی بیانات کا اناپ شناپ بکتے ہیں۔ایسے میں ہی گیند بازی کا اسپیڈ اسٹار بیانات کے باؤنسر پھینکتا ہے۔نپی تلی رفتار میں ایک خواب کی بات کرتا ہے کہ کب وہ ملک کشمیر کی مکمل آزادی کی خبر سن پائے۔اسپیڈ اسٹار کو کیا پتہ اپنے ملک کشمیر میں کتنے ہی لوگ یہ تمنا لئے ملک عدم سدھارے اور زمین جائیداد کی وصیت کے بدلے یہ تاکید کی کہ ان کی قبر پر زور سے چیخا جائے کہ یہ ملک ہمارا ہے او ر اس کا فیصلہ ہم ہی نے کر ڈالا۔
جنگ تو پچھلے سال بھی جاری تھی اور بقول نرمل سنگھ اس جنگ میں بھی نہتے لوگ ہار گئے ۔کچھ زندگی کی جنگ ہارے کچھ عزت نفس کی۔جیتا تو بس بندوق اور کرسی کے بل پر بلوان ۔یا یوں کہیے طاقت کے نشے میں (گلوان)۔بندوق بردار فوجی کئی ایک کو در گور کرگیا۔سیاسی کرسی کی تمنا لئے ہل والا قائد ثانی اقتدار حاصل کرگیا۔بیچارہ غریب کاریگر فاروق ڈار دن بھر جان ہتھیلی پر لئے بانٹ سے بندھا گائوں گائوں گھمایا گیا۔ایک طرف ووٹ اس کو شرمسار کرگیا کہ اپنے پاس پڑوسی منہ لگانے کو تیار نہیں۔دوسری طرف سرکار کوئی معاوضہ نہیں دیتی۔کہ اگر دیدیا تو خود میجر صاحب کی بے عزتی ہوگی بھلا میجر کا غصہ بڑا بھیانک ہوتا ہے ۔وہ تو کہتا ہے کہ دنیا کا سب سے مہلک ہتھیار افسپا میرے کاندھے پر ہے کوئی مائی کا لال ہاتھ نہیں لگا سکتا اور یہ کہ میرے ہی دم سے سیاسی کرسی کی چاروں ٹانگیں مضبوط ہیں۔اگر میں ہل گیا تو سیاسی دنیا ایسے لڑکھڑائے گی جیسے بھونچال کے بیل کے سینگ ہلانے سے دنیا ہلتی ہے ۔بھلا سیاسی بھونچال برداشت کرنے کی سکت اپنے سیاسی ساہوکاروں میں ہے کہاں؟اور سیاسی دوکاندار تو اس تصویر کا فائدہ اٹھارہے ہیں کہ اس کی چھاپ لگی ٹی شرٹ بیچ کر بھاجپا لیڈر خوب کمائی کر رہا ہے،مگر فلمی ساہوکار بھی کوئی پیچھے نہیں کہ باغی ۲ فلم میں ایسا سین استعمال کر سو کروڑ زمرے میں داخل کروانے میں کامیاب ہوگیایعنی فاروق ڈار کو منظور شدی رقم نہ دے کربانوئے کشمیر اس ٹی شرٹ اور فلم کی برانڈ ایمبیسیڈر بن گئی ہے۔سیاست بھی زبردست چیز ہے کہ الیکشن ٹایم میں سبھوں کو ووٹر یاد آتے ہیں جبھی تو دلت سماج کو سب پچکارنے لگے ہیں ۔ان کے حق میں بیانات، حمایت میں ریلیاں حتیٰ کہ بھوک ہڑتال بھی ہوئی۔شی۔۔۔شی کسی کو بتانا نہیں کانگریس والوں نے بھوک کے ڈر سے پہلے چھولے بٹورے کھائے تب کہیں جاکر منچ پر بیٹھنے کی ہمت جٹائی اور دلت سماج کی حمایت میں کچھ گھنٹے چھولے والی بھوک ہڑتال کردی۔
آخر میں یہ دلچسپ بات کہ بھاجپا کی آمد نی نوٹ بندی سال میں اکاسی فیصد بڑھی اور ایک ہزار اڑتیس کروڑ پہنچی۔۔۔یعنی دیش کا پیسہ بھاجپا کی تھیلی میں!
(رابط[email protected]/9419009169 )