نجیب الرحمان، آصف شکاری،
عاشق حسین، عابد حسین، فیاض محی الدین
وادی کشمیر کی سر سبز زمین صدیوں سے چاول کی ایک سوسے زائد اقسام لہلہاتی رہی ہے۔ یہ دیسی اقسام کبھی قدیم تجارتی راستوںسے چین، وسطی ایشیا اور ایران سے یہاںپہنچی اور وقت کے ساتھ کشمیر کی آب و ہوا میںرچ بس گئیں۔ ان میں ایک نام ایسا تھاجو محض چاول نہیں بلکہ کشمیری تہذیب کی پہچان بن گیا ہے یعنی’’ مشک بدجی‘‘۔
فارسی میں مشک کستوری کی خوشبو کو کہتے ہیں اور بدجی کا مطلب چاول ہے۔ یہ نام ہی اسکی خوبی بیان کردیتا ہے۔وہ چاول جس کی خوشبوکستوری جیسی ہوتی ہے۔ چھوٹے مگر بھاری دانے، دل کو چھو لینے مہک اور بے مثال ذائقہ۔ کشمیری شادیوں میں، تہواروں پر اور خاص طور پر وازوان کے دسترخوانوں میں یہ محض کھانا نہیں بلکہ عزت و وقار کی علامت ہوتی تھی۔
1980 کی دہائی میں کشمیر کے کھیتوں پرایک آفت ٹوٹی جب بلاسٹ نامی فنگل مرض نے مشک بدجی کی فصلوں کو جلاکر رکھ دیا۔ پتوں پر بیماری کے نشان پڑے، بالیں سُوکھ پڑیں اور پیداوار تباہ ہو گئی۔ کاشتکاروں کو بہت نُقصان اُٹھانا پڑا اور آہستہ آہستہ یہ فصل کھیتوں سے غائب ہونے لگی۔ بیماری اکیلے مصیبت نہیں تھی ، بیجوں میں بھی ملاوٹ ہوچکی تھی، خالص بیج نایاب ہو گئے تھے اور پیداوار بھی کم ہوگئی تھی۔ دوسری طرف سبز انقلاب کے دور میں نئی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام آچکی تھی پھر زیادہ منافع کا وعدہ لے کر سیب کے باغوں نے دستک دی۔ محدود زمین سے زیادہ سے زیادہ کمانے کی خواہش میں کاشتکاروں نے مجبوراً مشک بدجی کو الوداع کہنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2007 تک پوری وادی کشمیر میں مشک بدجی کی کاشت صرف دس ہیکٹیر سے بھی کم رہ گئی۔ ایک ایسا خزانہ جو صدیوں سے کشمیر کا حصہ تھا اور اب معدوم ہونے کے قریب تھا۔
سائنس اور کاشتکاروں کا مشترکہ پروگرام:
2007میںماوٗٹین ریسرچ سینٹر کھڈونی، سکاسٹ کشمیر نے ایک مشن شروع کیا، جسکا ساتھ محکمہ زراعت نے دیا اور مشک بدجی کو بچانے کے لئے ایک منظم مہم شروع ہوئی۔ سائنس دانوں نے پہلے تو وادی کے مختلف علاقوں سے باقی ماندہ نمونے جمع کئے ۔ اننت ناگ، بڈگام، کولگام، جہاںکہیں بھی تھوڈی بہت کاشت باقی تھی، وہاں سے سینکڑوں نمونے لائے گئے، پھر انکا گہرائی سے مطالعہ کیا گیا۔ خوشبو کتنی تیز ہے، دانے کیسے ہیں، پودے کی ساخت کیا ہے، بیماری سے کیسے لڑتے ہیں۔ سال 2009 تک محنت طلب عمل چلا۔ Ear to Row Selectionنامی طریقہ اپنایا گیا، جس سے ہر بالی سے نکلنے والے دانوں کو الگ قطار میں اُگایا جاتا ہے۔ خالص اور یکساں اقسام تیار کی گئیں۔ نتیجہ ا ـ’’بہتر مشک بدجی ‘‘کی صورت میں سامنے آیا ۔ جینیاتی طور پر خالص، زیادہ خوشبودار اور بیماریوں کے خلاف زیادہ مضبوط۔ ساتھ ہی ماہرین نے کاشت کا مکمل طریقہ کا ر بھی تیار کیا۔ کھادیں کب اور کتنی دیں، پانی کیسے دیں، Blast Disease سے بچائو کے لئے کیا کریں، کٹائی کے بعد دانوں کو کیسے سنبھالیں۔ ہر چیز کو سائنسی بنیادوں پر مرتب کیا گیا۔
ساگم گاوئں: احیا کا مرکز
پھر کوکرناگ تحصیل کے ساگم گائوں پر توجہ مرکوز ہوئی۔ یہاں کی آب و ہواموزوں تھی اور کچھ کسان ابھی بھی روایتی طور پر مشک بدجی اُگا رہے تھے۔ یونیورسٹی نے یہاں کے کسانوں کو جمع کیا، خود مددگار گروپس(Self Help Groups)بنائے اور انھیں خالص بیج تیار کرنے کی تربیت دی۔سال 2012 میں کچھ کسانوں نے یہ بیج آزمائے، نتیجہ حیران کُن تھا۔ اگر چہ پیداوار جدید اقسام سے تھوڑی کم تھی لیکن بازار میں قیمت دیکھا تو سب حیران زدہ رہ گئے۔
برانڈ کی اہمیت:۔
سائنس دانوں کی رہنمائی میں ساگم کے کسانوں نے اور ایک قدم اُٹھایا اور اپنا برانڈـ’’ساگم مشک بدجی ‘‘کے نام سے بنادیا۔ گاوٗں کا نام اس لیے رکھا تاکہ اصلیت اور ساکھ قایم رہے۔مارچ 2013سُکاسٹ کشمیر کے کسان میلے میں جب یہ برانڈ لانچ ہُوا تو دھوم مچ گئی۔ کسان اب بیچوانوں(Brokers)کو نظر انداز کرکے براہ راست بازار میں جانے لگے۔ قیمت چار سے پانچ گنا بڑھ گئی۔ یہ احساس ہوا کہ اگر ٹھیک طریقے سے ورثے کی حفاظت کی جائےتو بڑا کاروباربن سکتی ہے۔ NABARD کی مدد سے کامیابی نے حوصلہ پکڑااور 2019 میں (Sagam Mushkbudji Farmer Producer Coy Ltd)ساگم مشک بدجی فارمر پروڈوسر کمپنی لمیٹڈرجسٹر ہوئی اور کسانوں نے منظم انداز میں کام شروع کیا۔ پھر 2023 میں ایک بڑی خوش خبری آئی۔ یہ کمپنی جموں و کشمیر کی پہلی تنظیم بنی، جسے درآمد و برآمد کا لائسنس مـلا۔اب راستہ بین الاقوامی بازاروں تک کھل چکا ہے۔ آج اس کمپنی میں 700سے زائد کسان شامل ہیں۔
قومی اعزازات اور عالمی پہچان:۔
ساگم کے کسانوں کی محنت اور لگن کو 2017 میں قومی سطح پر پہچان ملی۔ حکومت ہند نے انہیں ـ”Plant Genome Community Saviour Award”سے نوازا ۔ دس لاکھ روپے نقد، سند اور یادگار کے ساتھ۔ لیکن سب سے بڑی کامیابی 31جولائی 2023کو آئی ،جب مشک بدجی کو جغرافیائی شناخت (GI Tag)حاصل ہوئی۔اب یہ قانونی طور پر محفوظ ہے اور اسکے حقوق براہ راست ساگم کے کسانوں کی کمپنی کے پاس ہیں۔مشک بدجی چاول کو حال ہی میں نئی دہلی میں منعقدہ ایک بین الاقوامی چاول کی تجارت کی تقریب میں بھی پیش کیا گیا جس میں ملک کے اعلیٰ میعار کی روایتی خوشبودار چاول کے اقسام شامل تھیں۔
آج کی کہانی: خوشبو دوبارہ مہک اُٹھی:۔
اعداد و شمار خود بولتے ہیں ۔2007 میں صرف دس ہیکٹیر پر مشک بدجی کی کاشت تھی اور آج 450 ہیکٹیر پر مشک بدجی کی کاشت ہے۔ 2007میں سو روپے فی کلو اور آج 200روپے فی کلو ہے۔ ساگم علاقہ اکیلے سالانہ کروڑوں روپے کماتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشک بدجی اب سیب(Apple) کا متبادل بن گیا ہے۔ ساگم کی تصویر بدل گئی ہے۔ جو گاوئں کبھی روایتی اور پسماندہ تھا ،آج خوشحال ہے۔ نوجوان کھیتوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ کیونکہ اب یہاں کمائی اور عزت بھی ہے۔ حکومت نے 2017 میں ساگم کو (Model Village)قرار دیا۔95کنال پر بیج کا گاوں(Seed Village)بنا،جہاں کسانوں سے بیج خریدے جاتے ہیں اور نئے کسانوں کو بانٹے جاتے ہیں۔ سُکاسٹ کشمیر کے سائنسداں رُکے نہیں، اُنھوںنےSR-6 تیار کیا۔ ایک ایسی قسم جو Blast Diseaseسے لڑنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور مشک بدجی کو خوشبو اور زائقہ بھی قایم رہتا ہے۔ یہ مستقبل کے لئے اہم قدم ہے تاکہ بغیر کسی بیماری کے اس کی کاشت مزید بڑھ سکے ۔
ایک پیغام ایک اُمید:۔
یقیناً چلینجز باقی ہیں۔ بیجوں کی خالصیت بر قرار رکھناہوگی، بیماریوں پر مسلسل نظر رکھنی ہوگی، قیمتوں کو مستحکم رکھنا ہوگا ۔ لیکن مشک بدجی کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ جب سائنس، ادارے، اور کسان مل کر کام کریںتو معجزے ہو سکتے ہیں۔ یہ کہانی صرف کشمیر کی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے لئے سبق ہے ۔ ہر صوبے میں ایسے دیسی اقسام ہیں جو معدوم ہو رہے ہیں۔ مشک بدجی کا سفر بتاتا ہے کہ انکو بچایا جا سکتا ہے اور بچاتے ہوئے کسانوں کو خوشحال بھی کیا جا سکتا ہے۔مشک بدجی کی خوشبو آج ایک پیغام لے کر آتی ہے کہ جب علم اور روایت ساتھ چلیں، جب عزم اور محنت جُڑجائے، تو وہ خوشبوئیں جو کھو چکی تھی، دوبارہ مہک اُٹھتی ہیں۔
[email protected]