حکومت ِ جموں و کشمیر کی طرف سے کشمیر کی روایتی دستکاریوں کو محفوظ بنانے اور اس سے وابستہ کاریگروں کا روزگار برقرار رکھنے کے لئے وقفہ وقفہ کے بعدجس طرح کے عندیے مل رہے ہیں اور کچھ اقدام اُٹھائے بھی جارہے ہیں،عوامی حلقوں میں اُن کی سراہنا ہورہی ہے جبکہ کشمیری دستکاریوں سے وابستہ کاروباری لوگ خصوصاً کاریگر طبقہ حکومت کے ان اقدام کا خیر مقدم کررہا ہے۔چنانچہ حال ہی میںکشمیر میں تانبے کی روایتی صنعت کو بچانے اور اس صنعت سے وابستہ کاریگروں کا روز گار بحال رکھنے کے لئے مشین کے استعمال پر پابندی کو سختی سے لاگو کرنےکا فیصلہ لیاہے اوراس سلسلے میں محکمہ ہینڈی کرافٹس و ہینڈلوم کو اختیارات تفویض بھی کر دیئے گئے ہیں۔ کشمیر کی دیگر روایتی گھریلوصنعتوں اوردستکاریوں سے وابستہ لاکھوں لوگوں نے اُمید ظاہر کی ہے کہ کشمیر کی زوال پذیر روایتی گھریلو صنعتوں کی شانِ رفتہ بحال کرنے کے لئے ہروہ اقدام اٹھائے جائیں،جن کی بدولت یہاں کی دستکاریوں کو فروغ حاصل ہوسکے۔بلاشبہ کشمیر کی روایتی اور قدیم گھریلو صنعتوں بالخصوص قالین بافی،شال بافی،پشمینہ سازی،ریشم سازی،نمدہ بافی ،ووڈ کارونگ اور پیپر ماشی وغیرہ سے نہ صرف کشمیریوں کو روز گار مہیا ہوا کرتا تھا بلکہ ان صنعتوں کی بیرونِ ریاستوںمیں برآمدگی سے بھاری آمدن اور شہرت بھی حاصل ہوتی تھی۔لیکن اب کشمیر کی یہ قدیم صنعتیں زوال پذیر ہوگئی ہیں۔ان کی زوال پذیری میں جہاں یہاں کی حکومتوں کا غیر ذمہ دارانہ رول کار فرما رہا وہیں یہاں کے لوگوں کا بھی بڑا رول رہاہے۔ جو لوگ ان صنعتوں کو زندہ رکھنا چاہتے تھے،وہ حکومتوں کی چشم پوشی اورعدم توجہی کا شکار بن کر دوسرے کام دھندوں سے وابستہ ہوگئےہیں۔ چنانچہ کشمیری دستکاریوں کے نام پر امرتسر،جودھپور،اُتر پردیش اور کچھ دوسری ریاستوں میں قالین بافی ،شال بافی ،ووڈ کارونگ ا ور پیپر ماشی کو جس انداز سے فروغ ملا ،وہ کشمیری دستکاریوں کی زوال پذیری کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا،کیونکہ ان ریاستوںمیںجو چیزیں تیار کی گئیں یا کی جارہی ہیں،وہ پورے ملک کے علاوہ بیرونِ ممالک میں کشمیری دستکاریوں کے نام پرمارکیٹ میں لائی جارہی ہیں۔در حقیقت ہر شعبہ کی طرح ان صنعتی شعبوں کو بھی ناپاک اور ناصاف بنانے میں یہاں کے لوگوں نےکوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، جہاں دستکاریوں سے وابستہ بڑے بڑے تاجر اور کارخانہ داراِن دستکاریوں کی کوالٹی اور معیار گھٹاتے رہے،وہیں یہ کاروباری حلقے ان گھریلودستکاریوں سے منسلک محنت کش کاریگروںاور ہتھکڑوں کا بُری طرح استحصال کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں محنت کش کاریگر طبقے نے دوسرے کام دھندے شروع کردیئے ۔گویا عالمی شہرت یافتہ کشمیری دستکاریوں کو کشمیریوں نے ہی اپنی خود غرضی ،لالچ اور فریب کاریوں سے داغدار بناکر روبۂ زوال بنا کر رکھ دیا۔اسی طرح وادی کی زعفران صنعت کو بھی بے ضمیر تاجروں اور کاروباری حلقوں نے ریا کاری کے تحت ایرانی زعفران کے علاوہ نقلی زعفران کو کشمیری زعفران کے طور پر فروخت کرکے داغدار کردیا۔وادیٔ کشمیر کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اِسے ہر معاملے میں تباہ کرنے اور پسماندہ بنانے میںغیروں کا اُتنا رول نہیں رہا ،جتنا کہ اپنوں کا ہاتھ رہا ہے۔آج بھی صورت حال یہی ہے،سرکاری محکمہ ہو یا غیر سرکاری،ان اداروں میں کام کرنے والے بیشتر لوگ خود ہی ان اداروں کی بنیادیں کھوکھلی کررہے ہیںاور نجی مقاصد کے تحت ہر وہ شیطانی چال چل رہےہیں جو ان اداروں کے زوال پذیری کی وجہ بن رہے ہیں۔یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ محکمہ ایمپوریم اور ہینڈی کرافٹس سے وابستہ بعض حکام اور افسران نے بھی وہ طرزِ عمل اپنایاتھا ،جس سےبیرون ریاستوں اور بیرون ممالک میں وادی کی بچی کچھی قدیم صنعتوںکی کوالٹی پر ایساٹھپہ لگ گیا ہےکہ اب وادی میں پیدا شدہ یا تیار کردہ کسی بھی اصلی چیز کو نقل کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ملک کی کسی بھی ریاست میں جب کوئی تجارتی نمائش ہوتی ہے تو وہاں پر قائم کشمیری اِسٹالوں پر زیادہ تر مال دوسری ریاستوں میں تیار شدہ ہوتا ہے، جنہیں کشمیر برانڈ کے نام پر بیچا جاتا ہے۔لوگ چونکہ لالچ میں گرفتار ہیں اور نام نہاد ترقی کے لئے سب کچھ کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن اس بے ایمانہ اور دھوکہ دہی کے طرزِ عمل سے کاروباری زندگی میں جو گندگی و غلاظت پھیل گئی ہے ،اس نے پورے معاشرے کو داغدار بنا دیا ہے۔اب جبکہ جموں و کشمیر کی موجودہ انتظامیہ نے کشمیر کی دستکاریوں کو زوال پذیری سے نکالنے اور انہیں اپنے اصل مقام پرلانے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں اور مزید اقدامات اٹھانے کا مَن بنالیا ہے۔عوامی حلقے ان حکومتی اقدامات کا خیر مقدم کررہے ہیںاور خوش آئند قرار دے رہے ہیںاور امید کررہے ہیں کہ ان اقدامات کی بدولت کشمیری دستکاری صنعت کی شان رفتہ بحال ہوپائے گی۔