سرینگر// ریاستی حکومت نے ہتھیاروں کے لائسنس سکینڈل کی تحقیقات مرکزی تفتیشی ایجنسی’سی بی آئی‘کے سپرد کرنے کی سفارش کی ہے ۔ راجستھان کے ’’انسداد دہشت دستے‘‘ کی تحقیقات میں جموں کشمیر کے کچھ آئی اے ایس افسران کے نام سامنے آنے کے بعد ریاستی سرکار نے یہ فیصلہ لیا ہے۔حکام کے مطابق یہ سفارشات سابق گورنر این این ووہرا کی سربراہی والی ریاستی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ کی تھی،جبکہ ریاست کی ویجی لنس آرگنائزیشن کو ہدایت دی گئی تھی کہ جب تک سی بی آئی کو یہ کیس سپرد کیا جاتا ہے ، تب تک وہ راجستھان کے ’’ انسداد دہشت دستے‘‘ کے جانچ کی بنیادوں پر چھان بین کریں۔حکام کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کی طرف سے سی بی آئی کو دستاویزات سونپنے کے بعد،مرکزی تفتیشی ایجنسی نے کچھ اور سوالات اٹھائے ہیں اور اس کے جواب کا منتظر ہے۔ حکام نے مزید بتایا کہ سی بی آئی نے گزشتہ ایک دہائی میں جموں کشمیر میں4لاکھ29ہزار بندوق لائسنسوں کی اجرائی سے متعلق کیس کی تحقیقات سے قبل سرکار کو کچھ متعلقہ دستاویزات مرتب کرنے کیلئے رجوع کیا تھا۔ راجستھان پولیس کی ’’ انسداد دہشت گردی دستے‘‘ نے گزشتہ برس بیروکریٹوں،درمیانہ داروں اور ہتھیاروں کے کاروباریوں کے درمیان ساز باز کا پردہ فاش کیا تھا۔اس کیس میں اب تک ایک آئی اے ایس افسر کے بھائی سمیت50افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے،جبکہ اجراء کی گئی بندوق کی لائسنسوں میں اکثر لائسنیس غیر ریاستی باشندوں کو جعلی دستاویزات کی بنیاد پر دی گئی ہیں۔ سی بی آئی نے ریاستی حکومت کو جموں کشمیر انتظامیہ کے افسران کی طرف سے راجستھان پولیس کے ’’ انسداد دہشت گردی دستے‘‘ کو تعاون نہ دینے کی بھی نشاندہی کی ہے،جبکہ اس بات کا بھی اشارہ دیا ہے کہ کچھ سنیئر بیروکریٹوںسے بھی پوچھ تاچھ کی جاسکتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر حکومت کو اس گروہ کے بارے میں گزشتہ برس اطلاع دی گئی اور اس حوالے سے اس وقت کے چیف سیکریٹری بی بی ویاس کے نام کئی مکتوب روانہ بھی کئے گئے تاہم’’ کسی بھی معلومات کا اشتراک نہیں کیا گیا‘‘۔ جموں کشمیر حکومت نے سابق سپیشل سیکریٹریوں،ڈپٹی سیکریٹریوں اور اندر سیکریٹریوں کی فہرست دینے میں ناکام ہوگیا،اوریہ کہا گیا’’ تمام ریکارڑ2014کے سیلاب کے دوران تباہ ہوا ہے۔ محکمہ داخلہ کے آرمز سیکشن میں سال2001 سے تعینات افسران کی فہرست پر یہ کہا گیا تمام ریکارڑ2014کی سیلاب کے دوران ریکارڑ بہہ گیا ہے‘‘۔ راجستھان پولیس کے’’ انسداد دہشت گردی اسکارڈ‘‘ کے افسران کے مطابق جموں کے ڈوڈہ،رام بن،ادھمپور اضلاع سے ایک لاکھ43ہزار13اجراء کی گئی لائسنوں میں سے ایک لاکھ32ہزار321لائسنسیں غیر ریاستی باشندوں کو اجرا کی گئیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پوری ریاست میں اعدادو شمار کے مطابق4لاکھ29ہزار301ہے،جس میں سے10فیصد ریاستی باشندوںکو لائسنس اجرا کی گئی ہیں۔ راجستھان پولیس کے’’ انسداد دہشت گردی اسکارڈ‘‘ کا کہنا ہے کہ ہمیں اس آدمی کی شدت سے تلاش ہے جو جموں کشمیر کے محکمہ داخلہ میں کام کرتا رہا،تاہم ریاست کی طرف سے تعاون نہیں مل رہا ہے، اور وہ ہماری نوٹسوں پر عمل نہیں کر رہے ہیں حالانکہ انہیں تعزیرات ہند کے تحت نوٹسز اجراء کی گئی ہیں،اور جموں کشمیر میں آر پی سی رائج ہے۔راجستھان پولیس افسران کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس آپریشن کو شروع کر کے’’آپریشن زبیدہ‘‘ کا نام دیا،اس وقت انہیں اس کی شدت اور سنگین اثرات کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔سرحدی ضلع کپوارہ میں نمونہ کے طور پر کئے گئے جائزے کے دوران معلوم ہوا کہ ضلع انتظامیہ نے اس حوالے سے رجسٹر اور فائلیں تیار نہیں کی ہیں۔جبکہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر بیشتر لائسنس غیر ریاستی شہریوں کو اجراء کی گئیں۔ راجستھان کے ڈائریکٹر جنرل پولیس ائو پی گلہوترا نے بھی بندوقوں کی لائسنسوں کی اجرائی میں سی بی آئی تفتیش کی سفارش کی تھی اور’’بالا تاخیر سی بی آئی کو کیس منتقل کرنے‘‘ کی تجویز دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ساز باز اور جموں کشمیر کے عوامی نمائندوں کے ملوث ہونے کے علاوہ قومی سلامتی کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے،پولیس ہیڈ کوارٹر نے دسمبر2017میں اس بات کی سفارش کی تھی کہ کیس کی مکمل چھان بین کیلئے اس کو سی بی آئی کے سپرد کیا جانا چاہے۔ اجرا شدہ لائسنسوں میں3ہزار367لائسنیس فوجی اہلکاروں کو اجراء کی گئی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں فوج،ائر فورس،بحریہ، کوسٹ گارڈ کے علاوہ سرحدی حفاظتی فورس،سی آر پی ایف،این ڈی آر ایف کو مکتوب روانہ کئے گئے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ بیشتر ایجنسیوں نے مکتوب کا جواب دیا،تاہم فوج کے جواب کا مسلسل انتظار ہے۔