سرینگر //سینئر کانگریس لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے مرکزی وزیر خزانہ ارول جیٹلی کی جموں میں کی گئی تقریر کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہاکہ جیٹلی نے دانستہ طور کشمیر کی تشویش ناک صورت حال سے صرف نظر کر کے ایک ایسا بیان دیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کو نظم و نسق (Law and Order) کی صورت حال سمجھتے ہیں اور اس طرح حقیقت کو سمجھنے سے آنکھ چراکر مودی گورنمنٹ کی کوئی مدد نہیں کر رہے ہیں۔ اُن کو صرف یہ نظر آیا کہ جموںوکشمیر میں حکومت چلانا بڑا مشکل کام ہے۔پروفیسر سوز کے مطابق مرکزی وزیر خزانہ کیلئے لازم تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو عوامی سطح پر تسلیم کریں اور یہ مسئلہ سیاسی طور حل کرنے کیلئے مودی حکومت کو مدد کریں۔انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ارون جیٹلی نے کٹھوعہ میں جاری انتہاء پسندی کے بارے میں کچھ کانا پھوسی کی ہوگی مگر ایسے بھیانک مسئلے پر اُن کو عوام کے سامنے کوئی پوزیشن اختیار کرنی چاہئے تھی۔ کبھی کبھار ایسے مواقع آتے ہیں جب سینئر سیاسی شخصیتوں کو دو ٹوک طریقے سے مسائل پر بولنے کا موقع ملتا ہے اور اس طرح جیٹلی نے کھٹوعہ میں ہوئی انتہا ء پسندی پر کچھ نہ بولنے سے اپنی حکومت کی عوامی ساکھ کو ہی نقصان پہنچایا ہے۔ ایک طرف بی جے پی مخلوط حکومت میں ساجھے دار ہے اور دوسری طرف بی جے پی خود کھٹوعہ میں انتہاء پسندی کو ہوا دے رہی ہے۔ کیوں کہ پارٹی سطح پر بی جے پی کچھ کہہ رہی ہے اور اس کے وزراء کھلم کھلا کھٹوعہ میں انتہاء پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ادھر دوسری طرف سینئر فوجی افسروں نے کشمیر کی تشویش ناک صورت حال پر قابو پانے کے لئے مذاکرات کی خوب وکالت کی ہے۔ کیونکہ فوج کو نظر آتا ہے کہ گولیاں چلانے کی ایک حد ہوتی ہے!میں سمجھتا ہوں کہ مرکزی حکومت کیلئے جموںوکشمیر میں سب سے اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ کشمیر کی تشویش ناک صورت حال کو سیاسی مسئلہ قرار دے دیں اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا سیاسی حل نکلانے کی کوشش کریں۔ ـ‘