نامورمسلمان جغرافیہ داں جنہوںنے علم جغرافیہ کوبام عروج تک پہنچایا ابوریحان محمد بن احمدالبیرونی متوفی1048عیسوی نے اپنی وقیع یادداشتوں کے مجموعہ آثار الباقیہ میںاور مغل بادشاہ نور الدین جہانگیرنے تزک جہانگیری میں خطہ کشمیر کی جمال آرائیوں اور قدرت کی دل آویز صناعیوں کومنفرداورنمایاں مقام عطا کیا اورساتھ ہی ساتھ اس تاریخی امتیازکو بھی قلم بند کیا کہ یہاںعلم وحکمت اور سائنس وفلسفہ کی نہ صرف یہ کہ بڑی درسگاہیں رہی ہیں بلکہ علم وحکمت اور شعور اور آگہی کی گرم بازاری یہاں کے ماضی تابناک کااہم حصہ رہی ہے۔ علاوہ ازیں لاتعداد شاعروں ادیبوں اور مؤرخین نے بھی کشمیر کوخطہ جنت نشاں سے تعبیر کیا ہے کہساروں مرغزاروں لالہ زاروں آبشاروں اور گلزاروں کی یہ سرزمین جمال فطرت کی بے نقاب جلوہ سامانیوں کیساتھ آ ج بھی ہمہ وقت دعوت نظارہ دے رہی ہے۔ یہاں کے قابل اور ذہین دماغ لوگوں نے تقسیم ہندو پاک کے بعد سے اب تک دن رات کی گردشوں کے ہزارہا صدمے سہہ کر بھی اپنی انفرادیت کوقائم رکھاہر دور میں کشمیریت کی پہچان اور اپنے ملی تشخص کی جنگ میں یہاں کے باشندگان بے تیغ وسپر حالات جنگ میں رہے کشمیر کی خوبصورتی اس کے لیے وبال جان بھی بنی رہی اور باعث صدافتخار بھی تاریخ کے صفحات کی ورق گر دانی کریں تو معلوم ہوگا کہ مغلوں پٹھانوں سکھوں اور پھر آگے جوںجوں وقت گذرتا گیاایک خاص ذہنیت کا سیاسی طبقہ مذہبی ونسلی تشدد کے جذبہ تعصب سے سرشار ہوکراس خطہ جنت نشاں کو اپنی ہوس کا شکار بناکر اس کی انفرادیت کوپامال کرتا رہا جس کے نتیجے میں یہاں کے باشندگان صدیوں سے عتاب سہہ رہے ہیں ،برصغیر پر آزادی کا کیا سورج طلوع ہواکہ کشمیر گھٹاٹوپ اندھیروں اور تاریکیوں میں ڈوب گیا،تقسیم کی خونی لکیر کشمیر کے سینے پرسے کچھ اس طرح سے کھینچی گئی کہ جوکشمیر کے وجود کودولخت کر گئی ۔خاندانوں کے خاندان بچھڑ گئے حقیقی رشتہ دار ایک دوسرے کوایک نظر دیکھنے کو ترس گئے۔ گذشتہ 75برس کی تاریخ پریشانیوں دکھوںاورغموں سے اَٹی ہوئی تاریخ ہے جس میں جوروجفا ظلم وستم طاقت کا بے تحاشہ استعمال جبروتشدد ہوازیادتیاں ہوئیں اور یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے بلکہ اب تو کشمیر کی تیسری نسل سفاکیت وبربریت کی زدمیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر کشمیریوں کا ہے، اس لئے کشمیری قوم کی سیاسی آرزو کی تکمیل ہونا لازمی ہے۔ ان کاقانونی واخلاقی حق ہے نہ کہ وہ کوئی کاسہ گدائی لئے بھیک مانگ رہے ہیں۔ کشمیر جیسے سیدھے سادھے مسئلے کوسیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے یواین او کے ایجنڈے پر لے جاکر بین الاقوامی پلیٹ فارم مہیا کردیا ،پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے لے کردہلی کے ایوانوں تک اور پھر لال چوک سری نگر تک جواہر لال نہرو نے رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کی مرضی کے مطابق اقدام کے وعدوں کے انبار لگا دئے۔ اے کاش! پنڈت جواہر لال نہرواوران کے سیاسی جانشین ایک وعدہ وفائی کر پاتے ۔ کشمیر میں 27اکتوبر کو ہر سال یوم سیاہ کے طور پر منانے سے کچھ نہیں ہوا لیکن تاریخ کے ایک زندہ حوالے کا درد ہوتا رہاہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی یقین دہانیوں کا کیا ہوا جوانہوں کشمیریوں کو دیں ؟ انہوںنے یہ بات کئی بار دہرائی تھیOUR FORCES WILL STAY IN KASHMIR FOR AS LING AS A TIME AS LAW AND ORDER IS RESTORED .ONCE THIS IS DONE WE WILL WITHDRAW FORCESپنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ’’ہماری فورسز اس وقت تک وارد کشمیر رہیں گی تاوقتیکہ یہاں امن و قانون بحال نہیں ہوتا۔ جب یہ اہداف ایک مرتبہ حاصل ہوگئے تواس وقت ہم اپنی فورسز کاانخلاء کرلیں گے ‘‘یہ حقیقت ہے کہ تاریخ اقوام عالم ایسی مثالوں سے لبریز ہے کہ تاریخی وعدے اور معاہدے کبھی اپنی افادیت نہیں کھویا کرتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قوموں کی تاریخ میں سال وسن اہمیت کے حامل نہیں بلکہ کبھی لمحے نئی تاریخ رقم کردیا کرتے ہیں جس کی ایک روشن مثال تاریخ میں ویت نام کی ہے۔ ویت نام نے امریکہ کی وہ پٹائی لگادی تھی کہ جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اس سے معلوم ہوا کہ ظلم ستم اور بے جا طاقت کے استعمال سے نہ کبھی کوئی نظام چلا ہے اور نہ چلے گا ۔یہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے، اس لیے آج بھی جیو اور جینے دو کی پالیسی ہی کام کرسکتی ہے۔ چونکہ اب نیا دور چل رہا ہے ، یہ جمہوری دور ہے، اب گولی کے بجائے بولی سے بات بننے کا فارمولہ ہی کارگر ثابت ہوسکتا ہے، جنگ وجدل اور انسانی حقوق کی پامالیاں سیاسی اُمنگوں کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتیں اورغلامی کی بیمار نفسیات کا آزادی کی دوا سے علاج ڈھونڈنے میں ہی عافیت ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان ، پاکستان ا ور کشمیر کی مسلمہ سیاسی قیادت کشمیر کا دائمی وپُرامن حل ڈھونڈیں، اس سے پہلے کہ یہ آتش فشاں برصغیر کو جلاکر راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کر دے یانئی نسلوں تک اس کے مضر اثرات پھیلیں ۔یہ کتنا بڑاظلم ہے کہ اس خطہ کے میدانون سے لے کر سرحدی علاقوں تک مسلسل شلنگ کی وجہ سے لمحہ لمحہ یہ خطہ قبرستان میں تبدیل ہو تاجاررہا ہے ۔ آخر یہ سب کچھ کب تک یو نہی چلتا رہے گا؟ اور کب تک نہتے عوام ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے؟ ہماری سیاسی قیادت خواہ وہ ریاستی ہو یاملکی کو مثبت سوچ سے کام لیتے ہوئے نوشتہ ٔدیوار کو پڑھ لینا چاہیے اور انہیںفوری طورتاریخ سازو مثبت فیصلے لینے کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے ۔ ایک بارکشمیر میں انصاف ، امن اور قابل قبول تصفیہ ا ورصلح سمجھوتہ کا عصری تاریخ کا زریںباب لکھ دیا جائے تو اس کے بطن سے ریاست کے سیاسی ، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی مسائل کا حل نکلے آئے گا اور لوگ بلاتمیز مذہب وملت ، زبان و تمدن شیر وشکر ہو جائیں گے ، تعمیر وترقی کا دوردورہ ہوگا ، اخوت محبت کی مشعلیں فروزاں ہوں گی اورریاست جموں وکشمیر کی تاریخ کے وہ اَن گنت مناظر قدرت چشم ِتصورکے سامنے جھلملانے لگیں گے اور جگمگاتی رونقوں کا وہ گہوارہ معرض وجود میں آئے گا اوراس فارسی شعرکی معنویت ایک حقیقت بن کر اُبھرے گی ؎
فردوس بر روئے زمیںاست
ہمیں است وہمیں است ہمیںاست
ا س میں کوئی دورائے نہیں کہ وہ خطہ کہ جس کو شاعر نے فردوس برروئے زمیں است سے تعبیر کیا تھا، آج وہ خزاں زدہ تیوروں اور بدلتے آسماں کی بے تاب بجلیوں کی زد میں ہے۔ شوپیان اور کنگن کشمیر کی حالیہ ہلاکتیں اور نہتے مرد وزن اور بچوں کے خون آلود ہ جسم، رستے زخم اورالمناک واقعات کی تصویریں دیکھ کر ہر انسان کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ، آنکھیں خون کے آنسو ر روہی ہیں۔ یہ حال ہے اس مشقِ ستم خطہ ارضی کا کہ جس کی آغوش میں بے مثال رونقوں، یادگاروں اور قدرتی حسن وجمال کی جمال آرائیوں وزیبائیوں کی اَن گنت محفلوں کا خزینہ دفن ہے۔ یہی وہ خطہ ارضی ہے کہ جس نے ایسے جید باوقار اولیاء ،باکمال علماء اور تاریخ سازصلحاء پیدا کئے جن کی مثال تاریخ عالم میں خال خال ہی نظر آتی ہے ،غرض یہ کہ خطہ کشمیر اَن گنت نابغہ روزگار ہستیوں کامرکز رہا ہے جن کی روحانی وعرفانی توجہات کامرکز ومحور ہونے کی مناسبت سے وادی ٔ کشمیر سرزمین بہشت کہلائی۔ بالخصوص امیر کبیر سیدعلی ہمدانی علیہ الرحمہ جیسی قلندرانہ ومبلغانہ شخصیت کی روحانی وعرفانی تو جہات اور معاشی منصوبہ کاری کے حوالے سے یہ خطہ ارضی تاقیامت آپ ؒ کے احسانات کامرہون منت رہے گا۔ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ اس خطہ میں تین بار تشریف لائے، پہلی بار یہاں کے حالات ومسائل پر اجمالی نگاہ ڈالی، دوسری بار کشمیر کے لئے دنیاوآخرت کی کامیابی کے لئے ایک بہترین نقش ِراہ ترتیب دے کر یہاں جلوہ افروز ہوئے اور تیسری بار ہر فرد اور ہرگھر کو مرکز توجہ بنایا۔ اس لئے یہ کہنا بجاہوگا کہ ریاست جموں وکشمیر کے رہنمایانِ قوم وملت میں شاہ ہمدان امیر کبیر سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ اپنے کنٹری بیوشن، احسانات ، کردارو اخلاق ، خوئے دلنوازی اور بلند نگاہی کی بناء پر مثالی کرداروں والے صف اول کے قائدین ومعمارانِ کشمیرمیں سر فہر ست شامل ہیں۔ یہ لفظوں کی فسوں کاری نہیں بلکہ تاریخ میں ثبت بزمِ رفتہ کی سچی اور انمٹ حقیقت ہے جس سے نہ ہی کسی کومجال انکار ہے اور نہ ہی مجال فرار۔ یہ اسی مرد قلندر کی مبلغانہ محنت شاقہ اور جہدمسلسل اور ذاتی ایثار کا ثمرہ ہے کہ آج ریاست میں 98فیصد آبادی اہل ایمان کی ہے اور کلی کلی گلستانِ اسلام کی مہک سے معطر دِکھ رہی ہے اور بادِصبا کے دوش پر فصل بہار ہے۔
بات صاف ہے کہ خطہ ٔ کشمیرکی یہ انفرادیت وتشخص جس کی پشت پر حضرت شاہ ہمدان ؒ کی بے پناہ تبلیغی ، دعوتی، علمی ، تصنیفی ، معاشی محنتیں ، دعائیں اور اللہ کی تائیدیں کارفر ما ہیں اور جو ریاست میں نہ صرف مسلمانوں کو اکثریت کا مقام ومنزلت دے گئی ہیں بلکہ جن سے غیر مسلم بھائیوںکو بھی میثاقِ مدینہ کے طرز پرایک ہی خطہ ٔ زمین کی آغوش میں بھائی چارے اور محبت واعتماد سے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے ، انہیں تحفظ فراہم کیا ،اس تشخص اور انفرادیت کو گزشتہ سترسال سے ایک لمحہ کے لئے بھی ذہنی افلاس کے روگ میں مبتلا مخصوص طبقے نے گوارا نہیں کیا،اس لئے یہ طبقہ نہ صرف ریاست کو مسئلہ کشمیر کے نام سے ایک رِ ستا ہو اناسور ورثے میں دے گیا بلکہ اس خالص سیاسی مسئلہ کو متعلقین کے مابین افہام وتفہیم اور سینہ صفائی کی راہ سے سلجھا نے کے بجائے یہ عناصر اسے الجھا تے ہی رہے ہیں اور اب بھی اسی برے کام میں سرگرم عمل ہیں۔ اس کے لئے یہ لوگ طاقت کا بے تحاشہ اور بلاجواز استعمال بھی کرتے جا رہے ہیں ، فرقہ وارانہ بھائی چارے کو زک پہنچانے کی سازشیں بھی رچارہے ہیں اور غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کی بھٹیاں بھی سلگارہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ایک جانب برصغیر امن اورآشتی سے محروم ہے اور دوسری جانب نفرتوں اور کدورتوں کابازار گرم ہے ۔ چنانچہ اس عاجز نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ذہنی طور سے بانجھ اس متعصب حلقے کی ریشہ دوانیوں کے سبب ریاست میں برادرکشی کے کریہہ الصورت مناظر ہی دیکھے اور سنے ہیں۔ جموں میں نومبر سنتالیس میں مسلم آبادی کی بدترین ماراماری اور انسانیت کی دھجیاں اُڑانے والی ناقابل بیان داستان بھی انہی لوگوں کے سیاہ کرتوت کی کہانی سنا تی ہے ۔ اب ا س منفی سوچ نے اتنے برگ وبار لائے کہ ا س وقت کشمیر میں روز خون خرابے ، مظالم ، آتش زنیاں ، جھڑپیں ، مظاہرے ،سنگ باریاں ، ہڑتالیں، کرفیو اور گولہ بارود کی بارشیں، قتل وغارت، معصوم بچوں کی آہیں سسکیاں ہچکیاں اور ماؤں بیٹیوں بہنوں کی عصمتیں نوچنے جیسے اندوہناک مظالم معمولات زندگی میں داخل ہوچکے ہیں ۔ شوپیان کی آسیہ سے لے کر کھٹوعہ کی آصفہ تک پھیلی ناگفتہ بہ سرگزشت اسی اندھیر نگری کے ذیلی ابواب ہیں جن سے ہر باہوش مسلم و غیر مسلم کے ضمیر کو کچوکے لگتے ہیں۔ وادی ٔ کشمیر میں انسان کی مظلومیت اور بربادی ٔ چمن کی جو تاریخ گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل رقم ہو رہی ہے اور قتل وخون کے جو المیے بلا ناغہ رونما ہوتے چلے آرہے ہیں ،انہیں عروج کی انتہاء کو چھوتے ہوئے دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے اور جذبات زخم خم ہوجاتے ہیں ۔ بلاشہ گزشتہ اٹھائیس ال سے یہ درد وکرب سہہ سہہ کر اب کشمیر کا ہر باسی رنج و غم کا گویا عادی ہوچکا ہے، وہ لرزہ خیز مظالم اور قتل عام کے مناظر دیکھ دیکھ کر اتنا اشک بہا چکا ہے کہ اب آنکھوں کے سمند سوکھ چکے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ عام کشمیری کی بے بسی اور بے کسی کی یہ اندوہ ناک تصویریں دیکھ کر بھی عالمی برادری، عالمی ادارے ، عالمی میڈیا کی بے حسی کے تالاب میں کوئی جنبش پیدا نہیں ہوتی ۔ان کی دلچسپیاں اتنی گھٹیا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا عالمی سطح پر جمہوریت اور انسانیت کے دعوے دار ہوسکتے ہیں ۔ ان کو چاہیے تھا کہ برصغیر میں بھائی چارے اور بقائے باہم کے اصول کے تحت اس سیاسی مسئلہ کے تینوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پرلاتے اور انہیںکچھ لو کچھ دو کے اصول پر کسی منصفانہ ، پائیدار ا ور قابل قبول حل کے لئے آمادہ کراتے تاکہ کشمیر کے میدانوں سے لے کر کنٹرول لائین کے دشت وبیابان تک میں امن لوٹ آتا اور ریاست ہی نہیں بلکہ پورا برصغیر جیو اور جینے دو کے زریں فارمولے پر عمل پیراہوکر تعمیروترقی کے آسمان چھوجاتا مگر گوروں کو چونکہ اپنا اسلحہ دونوں ملکوں کو بیچنے کی مجبوری ہے ،اس لئے وہ دونوں کو لڑوانے کے لئے کشمیر کو آتش زیر پا دیکھنے میں اپنی تاجرانہ کامیابی دیکھتے ہیں ۔ بہر حال کشمیر کے غم زدہ مسلمانوں کو کوئی حرف ِ تسلی دے نہ دے، ان کی روتی آنکھوں کے آنسو کوئی پونچھے یا نہ پونچھ ، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اہل کشمیر کے غم زدہ نوحوں سے آج وہ برگذیدہ روحیں ضرور تڑپتی ہوں گی کہ جن کی محنتیں اور کاوشیں ہزارہا خرابیوں کے باوجود اس خطہ جنت کی سیرابی وشادابی میں شامل ہیں۔ دعا ہے کہ خدائے تعالیٰ انہی سعید روحوںا ور پاک نفسوس کے طفیل اس خطہ پر اپنا خصوصی فضل نازل فرمائے ، اور نہتے عوام کے ساتھ جو ظلم وجبر ہورہا ہے کہ ان دلگداز واقعات سے پوراخطہ جہنم زار بنا ہوا ہے، اللہ اُسے اہل کشمیر کی دنیوی واُخروی کامیابی میں بدل دے ، اس مظلوم قوم کو جورنج وغم پیہم پہنچ رہے ہیں ،دو جہاں کا مالک ان کا وہ نعم البدل کشمیر یوں کو عطا کرے جو ان کی صدیوں سے مچلتی آرزوؤں کی لاج رکھے اور جو لوگ تازہ واقعات میں جان بحق ہوئے اللہ انہیں جنت نشین کرکے اورزخمی ہوئے وہ صحت یاب ہوجائیں۔آمین
رابطہ نمبر 9596664228
E-mail.- [email protected]