کمینہ خصلت لوگوں کا خا صا ہو تا ہے کہ جب وہ دوسرے کی خوبیاں اور اپنی کمزوریاں صریح طور پر دیکھ لیتے ہیں، اور وہ یہ بھی جان لیتے ہیں کہ اُس کی خوبیاں اُسے بڑھا رہی ہیں اور اُن کی اپنی کمزوریاں انہیں گرا رہی ہیں، تو انہیں یہ فکر لاحق نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریاں دور کریں، بلکہ وہ اس فکر میں لگ جاتے کہ جس طرح بھی ہو سکے اُس کے اندر بھی اپنے جیسی برائیاں پیدا کردیں۔ اور یہ نہ ہو سکے تو کم از کم ا س کے اوپر خوب گندگی اُچھالیں تاکہ دنیا کواس کی خوبیا ں بے داغ نظر نہ آئیں۔ ( تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ ۳۰۸)
سورۃالنور کے تاریخی پس منظر میں مفسر قرآن مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کی تشکیل کے خلاف منافقین عرب کے پھیلائے ہوئے شوشوں اور پروپیگنڈوں کے تناظر میں جس طرح فرمودہ ٔ الہٰی کی حقیقی توجیہ کی ہے، بالکل اُسی انداز میں اس وقت بدنصیب سر زمین بد جموں و کشمیر پر تحریک کشمیر کے خلاف شوشوں، وسوسوں، فتنوں، چہ مہ گوئیوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ گو کہ ا س سے پہلے بھی سرکاری ایجنٹوں کے ذریعے ایسے ہتھکنڈوں کو فروغ دیا جاتارہا لیکن آج ایک منظم اور قوی انداز میں جھوٹ اور کذب وافتراء کو اہالیانِ جموں و کشمیر کے دلوں میں راسخ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہیں۔ تاہم الحمدللہ آج کی دنیا ۹۰ء کی دنیا سے بالکل مختلف ہے، آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، ہر کوئی اپنی جگہ پرصحافی اور تجزیہ کارکا رول ادا کر رہا ہے، حقیقت شناسی سے کسی کو بھی غافل نہیں کہا جا سکتا ، آج ایک گلی میں بیٹھے آدمی کی عکس کردہ تصویر ،آڈیواور ویڈیو منٹوں میں بین الاقوامی نشرواشاعتی ذرائع پر موضوع بحث بن جاتی ہے۔موجودہ دنیا کی عدالت میں بیٹھا جج اپنے ذاتی جذبات و محسوسات پر فیصلہ دینے کا مختار نہیں ،اُسے ثبوت و شواہد کی بنیادوں پر اپنا فیصلہ سنانا ہوتا ہے جو مقدمے کی پارٹیاں عدالتی کاروائی کے دوران پیش کرتی ہیں، قطع نظر اس کے کہ ثبوتوں اور شواہد کی اصل حقیقت کیا ہو۔ اسی اصول کی رُو سے آج کل مسلٔہ جموں و کشمیر کے حوالے سے حریف کی جانب سے بہت سارے خودساختہ بیانیے(narratives ( پیش اور پرموٹ کئے جارہے ہیں، جن کا زمینی صورتحال سے دور کا واسطہ بھی نہیں اور جن کا ہدف صرف تحریک حق خودرادیت کو بدنام کر نا ہوتا ہے۔ مابعدبرہان مظفر جموں و کشمیر میں آج تک مسلسل انتفاضہ کے تناظر میں حریف کیمپ ایسے شکوک اور شبہات کو جنم دینے میں لگا ہے جن سے ایک عام ذہن خاص کر نوجوان کنفیوژن کے شکارہوجاتے ہیں۔ جھوٹ کے ان آزمودہ حربوں کو بروئے کار لا کرریاست کے اندر ایسی جھوٹی باتیںپھیلائی جارہی ہیں جن سے عام لوگوں کا تذبذب کا شکار ہونا قدرتی بات ہے۔ ان میں تذبذب ہی پیدا نہیںہوتا بلکہ جھوٹ کے لئے وقف ایجنسیوں کے نرغے میں آکر یہ اپنے ہی اوپر ظلم تک کر بیٹھتے ہیں۔جموں و کشمیر کے عوام کو جان بوجھ کریہ تاثردیا جارہا ہے کی ان کا کوئی لیڈر ہی نہیںہے۔ اس سے بڑھ کر موجودہ مزاحمتی قیادت پر احمقانہ سوالات اُٹھائے جارہے ہیں، اُن کی نجی زندگیوں کی کھوج کرید کے نام پر جھوٹ کے پلندے تصنیف کئے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان سے بدظن کر کے کاز سے کاٹا جائے۔ اس سے بڑھ کر ریاست کے اندر آزادی کے بعد کی صورتحال کو فتنہ پردازیوں کے طور پر زیر بحث لایا جارہا ہے اور یہ سب کچھ اس طرح کیا جارہا ہے جیسے آزادی ہمارے لئے بربادی کا پیام ہے۔ یہ ہیں وہ زہر یلے پروپگنڈے جن کو سادہ لوح عوامی حلقوں میں باضابطہ طور پھیلایاجارہا ہے۔ میزائل کا توڑ کرنے کے لئے کروز میزائل کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح مخالفانہ بیانیہ(narrative) کا مقابلہ کرنے کے لئے مدافعتی بیانیہ (counter narrative)کوپیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کشمیریوں کو کنفیوژ کر نے کے لئے وسوسہ آرائیوں اورشوشوں کوجس تسلسل سے سٹیٹ مشنری کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے ، ان کا توڑ علمی دلائل اور زمینی حقائق سے کر نے کے لئے اہلِ علم کو سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ تحریک سے خیر خواہی اپنی جگہ ، ذرائع ابلاغ سے غیر جانبدارانہ طور پر سچائی کی بات ایک منضبط مدافعتی بیانیہ کی صورت میں ہی پیش کی جا سکتی ہے۔اس کے لئے ہمیں جدید ذرائع ابلاغ کوبھی استعمال میں لانا ہوگا ۔
موجودہ مزاحمتی قیادت الحمداللہ اس بات پر متفق ہے کہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے پاس کردہ قراردادوں کے مطابق جموں وکشمیر کے عوام کو استصواب رائے کا حق دیا جائے۔ اس کے بعد کی صورتحال میں اختلاف رائے کا کوئی معاملہ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا ہے لیکن فی الحال کے لئے کشمیر کے تمام جسورو غیور عوام کو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پیدائشی حق کے لئے یک جٹ اور یک آواز ہونے کی ضرورت ہے۔باقی ،جموں و کشمیر کی اسلامی تاریخ ، تہذیب و تمدن اور مجموعی طور لوگوں کے اسلامی تشخص کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر مزاحمتی قیادت مستقبل کے سیاسی خاکے پر بھی آج سے ہی ایک مشترکہ موقف پرمجتمع ہو جائے تو یہ تحریک کے لئے ایک بڑا سنگ میل ہو گا۔ اس کے ساتھ اگر تحریک کے بارے میں اسلام کے رول پر بھی تبادلہ ٔ خیال کر نے کی ضرورت ہو تو یہ بھی نور علیٰ نور ہوگا ۔ بے شک موجودہ دور میں استعماری قوتیں اور ہندوستانی میڈیا زہر پھیلانے میں تمام حدیں پار کر رہاہے مگراسلام کا یہ اعجاز ہے کہ یہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری نوعِ انسانی کو انسانوںکی غلامی سے آزادی دلاتا ہے، انسانوں کو اس حدتک ایک صالح عزم اور ولولہ دیتاہے کہ حق کی جستجو اور حق کی حفاظت میں اگر اُس کی جان بھی چلی جائے تو پکا مومن کوئی غم اور خوف نہیں کھاتا مگر حق وانصاف کا بول بالا ہونا چاہیے ۔ اس اصول کو پامال کر تے ہوئے جو کوئی شخص یا ادارہ کشمیر کاز کے بارے میں جتنی زہر افشائی کرے انصاف پسند عوام اُ سے انصاف طلبی کی مناسبت سے رد کر دیں گے۔ پوری دنیا میںحق پسنداورآزادی پسند لوگوں کے لئے یہ فخر کا مقام ہے کہ جہاں بھی وہ حق کا ساتھ دے کر باطل سے صف آرا ہوتے ہیں تو حق فتح پاکر ہی رہ جاتاہے جب کہ باطل اپنی ہاری ہوئی بازی کے لئے جنگ میں بوکھلا کر حق پسندوں کو اپنی جھوٹ کی راجدھانی میںبُرے القاب اور گندے الزمات سے یاد کر تاہے کرتا۔ مبنی برحق کشمیر کاز کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا منہتائے مقصود بھی یہی ہے ۔
ریاست کی جملہ حریت پسند لیڈر شپ ہمیشہ سے کہتی آئی ہے کہ امن کے لئے اصل میں کشمیری قوم کی اولین ضرورت ہے ،لہٰذا وہ بات چیت کے ذریعے مصالحت پسندانہ حل کی متلاشی اور متمنی ہے، مگر دلی کشمیری لیڈرشپ کو سیاسی سپیس دینے کی بجائے اسے ہمیشہ خانہ نظر بند یا پابند سلاسل دیکھنا چاہتی ہے، یئہی وجہ ہے کہ ان کا عوام سے رابطہ منقطع کر د یا جاتا ہے، وہ باہری دنیا سے کشمیر حل کے لئے روابط قائم نہیںکر سکتی مگر ان ساری اڑچنوں کے بعد بھی لیڈرشپ ایک مسلمہ کازکو پلیڈ کر رہی ہے۔جب کہ اپنے شیش محل میںآرام دہ صوفوں پر بیٹھنے والے اقتداری سیاست والے بڑی بڑی باتیں کرنے کے لئے ٹی وی سکرینوںپر آکر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ، یہ بہت آسان کام ہے،لیکن ہمالیائی حوصلہ شکنی ،جھوٹ، مکر وفریب اور قدغنوں کے باوجودحد درجہ استقامت کے ساتھ کشمیر کی تحریک چلانا لوہے کے چنے چبانے کے برابر ہے ۔ہاں، اس بات سے انکار نہیں کہ ہم میں خامیاں اور کو تاہیاں نہ ہوں، یا ہم حالات کے مدو جزر سے متاثر نہ ہوتے ہوں، مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کشمیر کاز ہر طرح کے فوجی ، سیاسی اورتعذیبی دباؤ اور دھونس کے باوجود آگے بڑھ رہاہے ،اس لئے وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام کلی قربانیاں رنگ لائیں گی ۔ اس وقت جس چیز کے اوپر ہم سب کو فوکس(focus) کرنے کی ضرورت ہے وہ حق خودرادیت کی تحریک میں ایک ہی موقف اور ایک ہی لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھنا اور ایک صفحے پر تام آزادی پسندقوتوں کا جمع ہونا۔ نیزعوام کواس بات سے واقف ہونا چاہیے کہ وہ ایک بڑی عسکری وسیاسی طاقت کے حامل ملک کے خلاف اپنے حق کے لئے بر سرِ پیکار ہیں۔ اگرچہ ہمارا حریف ہر محاذ پر اپنی جنگ ہار چکا ہے لیکن وہ صرف افسپا اور فوجی طاقت کے بل پر ہمارے شانوں پر سوار ہے۔
رابطہ :ڈہامہ، کپواڑ کشمیر
فون نمبر9622939998