غلام قادر جیلانی
چند روز قبل میرے والد صاحب نے انتہائی مایوسی اور کرب کی حالت میں مجھ سے کہا کہ ’’ میری بھی یہ خواہش تھی کہ مارکیٹ میں قیمتیں گرنے کے باعث، میں اپنی محنت سے تیار کردہ سیب کی پیداوار کا کچھ حصہ کولڈ سٹور میں محفوظ کر لوں، تاکہ آف سیزن میں کم ازکم مناسب قیمت حاصل ہو سکے۔‘‘مگر کولڈ سٹورز میں جگہ کی شدید قلت کے باعث ان کی یہ خواہش ادھوری رہ گئی نتیجہ یہ کہ وہ سیب جنہیں تیار کرنے میں کئی ماہ کی محنت اور بڑی رقم صرف کرنی پڑی کو مجبوراً نہایت ہی کم قیمت پر بیجنا پڑا۔ اس صورتِ حال سے نہ صرف شدید مالی خسارہ پہنچا ہےبلکہ کاشتکاروں کو گہری مایوسی بھی ہوئی ہے یہ صرف ایک کاشتکار کی کہانی نہیں بلکہ ہر کشمیری سیب کاشتکار کا مشترکہ درد ہے۔
کشمیر میں گزشتہ کئی سالوں سے سیب کی پیداوار میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سیبوں کی پیداوار بڑھتے ہوئے اب 25 لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ چکی ہے، اس کے مقابلے میں ذخیرہ اندوزی کی سہولیات انتہائی نا کافی ہے ۔اس وقت کشمیر میں سیب کے کولڈ سٹورز کی مجموعی گنجائش بمشکل 4 لاکھ میٹرک ٹن ہے، یہ بڑا فرق پیداوار اور سٹوریج کی دستیابی کے درمیان ایک خوفناک عدم توازن پیدا کرتا ہے ۔
کشمیر وادی میں دستیاب کل 85 کولڈ سٹورز میں سے زیادہ تر صرف پلوامہ، شوپیاں انت ناگ اور سرینگر کے اضلاع تک محدود ہیں ،۔نتیجتاً کولگام، بارہ مولہ،بانڈی پورہ، بڈگام اور دیگر سیب اُگانے والے اضلاع میں ذخیرہ اندوزی کی سہولیات بہت کم یا نا ہونے کے برابر دستیاب ہیں، جس سے یہاں سیب کاشتکاروں کو ہر سال شدید مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس سال، سیب کی فصل کی قبل از وقت کٹائی اور فوری ذخیرہ اندوزی کے رجحان کے ساتھ ساتھ قومی شاہراہ پر نقل و حمل میں تعطل نے دستیاب سٹوریج کو بھرنے کے لیے غیر معمولی ہجوم پیدا کر دیا۔ نتیجتاً کولڈ سٹوریج کی گنجائش کا تقریباً 60 سے 90 فیصد حصہ، جو عام طور پر کئی ہفتوں میں بھرا جاتا تھا، چند ہی دنوں کے اندر مکمل ہو گیا۔علاقہ چاڈورہ کے سیب کاشتکار جاوید احمد شیخ کے مطابق، کولڈ سٹوریج میں ذخیرہ اندوزی کا عمل عام طور پر ستمبر کے آخری دنوں سے لے کر پورے اکتوبر تک جاری رہتا ہے، تاہم اس سال کسانوں نے ستمبر کے ابتدائی دنوں میں ہی سیب کی ذخیرہ اندوزی کا عمل شروع کر دیا، جس کی وجہ سے کولڈ سٹوریج میں زبردست دباؤ دیکھنے کو ملا۔سیبوں کے ایک تاجر، فیاض احمد نینگرو نے بتایا کہ لاسی پورہ میں واقع کولڈ سٹوریج پر گاڑیوں کی شدید بھیڑ کی وجہ سے انہیں اپنی گاڑی میں سے سیب اتارنے میں 24 گھنٹے کا طویل وقت لگا۔کولڈ سٹور مالکان کے لئے بھی بڑھتا دباؤ درد سر بن گیا۔ لاسی پورہ پلوامہ کے ایک کولڈ سٹور مالک نے کہا کہ اس سال کا شدید دباؤ ان کے لئے بڑا چیلنچ بن گیا ،انہوں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم نے زیادہ سے زیادہ کاشتکاروں اور تاجروں کو جگہ فراہم کرنے کی خاطر نہ صرف کولڈ سٹوریج کی دستیاب جگہ کو بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ کام کے اوقات بھی بڑھا دیے لیکن ہم اپنی مقررہ صلاحیت سے تجاوز نہیں کرسکتے ،کیوں کہ زیادہ بوجھ ڈالنے سے سٹوریج میں درجہ حرارت کنٹرول کرنے کا نظام ناکام ہو جائے گا جس سے ذخیرہ شدہ تمام پیداوار کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
کولڈ سٹوریج کی قلت سے پیدا شدہ سنگین صورتحال پر سیاسی حلقوں میں بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا، متعدد سیاسی رہنماؤں نے حکومت سے پرزر اپیل کی کہ وہ اس بحران کے حل کے لئے فوری اقدامات کرے۔حلقہ بانڈی پورہ کے موجودہ رکن اسمبلی نظام الدین بانڈی نے وادی کے سیب کاشتکاروں کے تحافظ کے لئے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ پیداوار کو بیرونی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے موثر اور پائیدار انتظامات کے ساتھ ساتھ کولڈ سٹوریج کی صلاحیت میں فوری اضافہ کیا جائے۔
پی ڈی ایف کے صدر اور سابقہ رکن اسمبلی خانصاحب حکیم محمد یاسین نے حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کولڈ سٹوریج کی قلت نے کاشتکاروں کو شدید مشکلات اور مالی نقصانات سے دوچار کیا ہے انہوں نے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ کاشتکاروں کی محنت سے تیار کردہ فصل کو مزید نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لئے مزید کولڈ سٹورز کی تعمیر کا عمل بغیر کسی تاخیر کے شروع کیا جائے۔
حکومت کے ساتھ ساتھ محکمہ باغبانی نے کشمیر میں سیب کے پیداوار سے جڑے کاشتکاروں کو راحت پہنچانے کے لئے اہم اقدامات کئے ہیں۔جن میں کولڈ سٹوریج کی گنجائش میں نمایاں اضافہ بھی شامل ہیں تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق صرف تین سال میں (2022 سے 2025 تک) ذخیرہ اندوزی کی گنجائش 2.06 لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھ کر 4 لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ گئ ہے اسی مدت میں کولڈ سٹورز کی کل تعداد 42 یونٹس سے بڑھ کر 85 یونٹس تک پہنچ گئ ہے
جب میں نے فون پر محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر شری وکاس آند سے وادی میں کولڈ سٹوریج کی گنجائش بڑھانے کے اقدامات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ’’حکومت کے ساتھ ہمارا محکمہ بھی ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے بھرپور کوشاں ہے۔ مرکزی اور جموں و کشمیر یو ٹی کی مختلف اسکیمیں، جیسے MIDH، PMDP، اور JKCIP، کاروباری افراد کو بڑی سبسیڈی فراہم کر رہی ہیں تاکہ مزید کولڈ سٹورز قائم کیے جا سکیں۔‘‘تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اس عمل میں کئی اہم رکاوٹیں حائل ہیں، جن میں بجلی کی مستحکم سپلائی، کولڈ سٹورز کے قیام کے لیے درکار موزوں زمین، اور سڑکوں کا بہتر رابطہ (Road Connectivity)قابل ذکر ہیں۔
شری وکاس آنند نے علاقے میں عدم توازن کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ضلع بارہمولہ، جہاں سالانہ 4.5 لاکھ میٹرک ٹن سیب کی پیداوار ہوتی ہے، میں صرف 6 سے 7 کولڈ سٹورز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کولگام میں نئے کولڈ سٹورز عنقریب تعمیر کئے جائیں گے۔ان کے مطابق بڈگام میں رنگ روڈ (Ring Road) کی تعمیر سے وہاں بھی کولڈ سٹورز کے قیام کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔انہوں نے کاشتکاروں کو ہدایت دی کہ وہ صرف اےگریڈ (A-Grade) سیب ہی سی اے (CA) سٹورز میں لائیں تاکہ معیار برقرار رہے۔آخر میںانہوں نے امید ظاہر کی کہ بہت جلد سیب ذخیرہ کرنے کی مجموعی گنجائش 6 لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ جائے گی۔تاہم جس رفتار سے کشمیر میں سیب کی پیداوار بڑھ رہی ہے، اس کے پیش نظر ان کوششوں میں مزید سرت اور توسیع لانے کی اشد ضرورت ہے۔ فوری اقدامات سے نہ صرف کاشتکاروں بلکہ اس صنعت سے منسلک مزدوروں، تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور دوکانداروں کو بھی مستحکم روزگار ملے گا اور یوں وادی کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی سیبوں کی صنعت کو مزید تقویت ملے گی۔
(مدرس گورنمنٹ ماڈل ہائیر سیکنڈری سکول زوہامہ)
[email protected]