اکز اقبال
جموں وکشمیر کی نئی حکومت نے ایک اہم پیش رفت کے تحت نویں جماعت تک تعلیمی سال کو مارچ سیشن کی جگہ دوبارہ نومبر۔ دسمبر سیشن میں منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔
والدین ، طلباء ، اساتذہ اور دانشوروں کی جانب سے کافی بحث و مباحثے اور احتجاج کے بعد جموں و کشمیر حکومت بالآخر اپنے روایتی سرمائی تعلیمی سیشن کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے ۔ یہ نئی حکومت کا بہتر تعلیمی نظام کی طرف پہلا قدم ہے۔
حال ہی میں وزیر اعلی عمر عبداللہ نے جموں وکشمیر کے طلباء کے لیے امتحانات کے کیلنڈر میں تبدیلی کا اعلان کیا ۔ نویں جماعت تک کی کلاسوں کے طلباء کے لیے ، اس سال نومبر میں امتحانات ہوں گے جبکہ دسویں سے بارہویں جماعت کے طلباء کے لیے سرمائی سیشن اگلے سال بحال کیا جائیگا۔
تعلیمی سال میں یہ تبدیلی اساتذہ ‘ طلباء اور والدین کے لیے راحت اور مسرت کی نوید لے کر آئی۔ جو خطے کے منفرد موسمی حالات اور سماجی و ثقافتی حقائق کے احترام کے لیے ضروری تھا ۔ یہ فیصلہ اتنا اہم کیوں ہے ؟ اور کیا یہ جموں و کشمیر میں طلبا کے لیے زیادہ موثر اور جامع تعلیمی تجربے کا باعث بنے گا ؟
کشمیر میں موسم سرما روایتی طور پر طلباء کے لیے تعلیمی تشخیص کی مدت کو متاثر کرتا ہے ۔ خطے میں سخت سردیوں اور شدید برف باری کی وجہ سے طلباء کے لئے نومبر یا دسمبر میں امتحانات مکمل کرنا زیادہ موزوں ہے۔ جس سے بچوں کو نئے تعلیمی سال کے لیے سرمائی تعطیلات میں از سرِ نو تیاریاں کرنے کا موقع ملتا ہے۔کئی دہائیوں سے جاری سرمائی تعلیمی سال تمام طلباء خاص طور پر دور دراز کے علاقوں میں رہنے والوں کو شدید سردیوں سے بچنے کے لیے زیادہ موزوں رہا ہے۔ والدین اور طلباء موسم سرما کے سخت موسم کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں ‘ کیونکہ سردیوں میں طلباء کے لئے نقل و حمل اور رسائی مشکل ہو جاتی ہے اور طلباء کو برفیلی سڑکوں اور بند شاہراہوں کی وجہ سے اسکول جانے کے خطرات سے محفوظ رکھنا پڑتا ہے ۔لیکن 2022 میں جموں وکشمیر انتظامیہ نے ایک نئے یکساں تعلیمی کیلنڈر کا اعلان کیا ،جس نے جموں و کشمیر کو باقی ہندوستان کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔ اگرچہ اس تبدیلی کے پیچھے ارادہ ایک معیاری تعلیمی ڈھانچہ فراہم کرنا تھا ، لیکن یہ کشمیر کی آب و ہوا ، جغرافیہ اور سماجی و ثقافتی عوامل کی مقامی حقیقتوں سے متصادم تھا ۔
موسم گرما کے تعلیمی سیشن پر زور دینے سے کشمیر میں طلباء کو درپیش کچھ بنیادی چیلنجوں کو نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔ سردیوں میں شدید برف باری اور درجہ حرارت جو منجمد سے نیچے گر جاتا ہے،جس کی وجہ سے اکثر وادی میں روزمرہ کی زندگی میں خلل پڑتا ہے ۔ یہ سردیوں کا موسم دیہی اور شہری دونوں علاقوں کو متاثر کرتا ہے اور بچوں کی اسکول کی حاضری اور امتحانات کے لیے لاجسٹکس میں نمایاں طور پر رکاوٹ ڈال سکتا ہے ۔ طلباء اکثر اپنے اسکولوں یا امتحانی مراکز کا سفر کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ، خاص طور پر دیہی یا پہاڑی علاقوں میں جہاں سردیوں کے مہینوں میں سڑکوں تک رسائی کم ہوتی ہے ۔
مزید برآں جموں کشمیر میں بہت سے اسکولوں کی عمارتیں خاص کر سرکاری اسکول موسم سرما کے شدید درجہ حرارت کو سنبھالنے کے لیے مناسب طور پر موصلیت یا لیس نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ جب سردیوں میں کلاسیں چلائی جاتی ہیں ، طلباء کو سرد کلاس روموں میں اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، جس سے ان کی مجموعی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے ۔جب 2022 میں تعلیمی کیلنڈر کو باقی ملک کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا تو بچوں کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس سیشن کی تبدیلی کے ساتھ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ سردیوں کے مہینوں کے دوران اسکول پھر بھی بند رہتے تھے اور کلاسز نہیں ہوتے تھے۔ جس کے نتیجے میں طلباء کو پڑھائی کے لیے قلیل دن ملتے تھے۔ نصاب عام طور پر ادھورا ره جاتا تھا ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ زیادہ تر طلباء موسم سرما کے توسیعی تعطیلات کے دوران اپنی کتابوں سے الگ رہتے ہیں ۔ طلباء موسم سرما کے تعطیلات کے دوران تیاریوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو طلباء کے لیے ان کی تعلیمی مصروفیات میں ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے ۔ مارچ میں امتحانات کے انعقاد سے طلباء پر طویل وقفے کے بعد نصاب پر نظر ثانی کا بوجھ پڑتا ہے ۔ جو کہ طلباء کے لئے ذہنی دباؤ کا باعث ہیں اور پھر سرمائی تعطیلات کے فوراً بعد امتحانات شروع ہوتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ طلباء کا باقاعدہ کلاس کا کام شروع کرنے سے پہلے ان کے پچھلے گریڈ کے نصاب پر جائزہ لیا جاتا تھا ۔ اس کی وجہ سے طلباء اور اساتذہ پر یکساں طور پر اضافی دباؤ پڑتا تھا، جو کہ طلباء کی تعلیمی ترقی کے لیے نقصان دہ تھا ۔
نویں جماعت تک کے کلاسوں کے لیے نومبر۔دسمبر سیشن کی واپسی کے ساتھ ، طلباء اور والدین راحت کی سانس لے سکتے ہیں ۔ یہ اقدام نہ صرف کشمیر کی موسمی آب و ہوا کی حقیقتوں کے مطابق ہے بلکہ یہ طلباء کو تعلیمی سال کے آغاز میں امتحانات میں جانے کے بجائے باقاعدہ تعلیم پر توجہ دینے کے لیے مزید وقت بھی فراہم کرتا ہے ۔
وزیر اعلی کے اعلان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اس میں ایک باقاعدہ تبدیلی کا امکان ہے ۔ اگر مناسب طریقے سے لاگو کیا جائے تو یہ ایڈجسٹمنٹ طلباء ، والدین اور اساتذہ کے لیے کئی اہم فوائد لا سکتی ہے ۔
حالانکہ مارچ تعلیمی کیلنڈر کے حامیوں کا ماننا تھا کہ یہ یکسانیت کو فروغ دیتا ہے اور تمام ریاستوں کے طلباء کو یکساں تعلیمی سنگ میل کے ساتھ تیار کرتا ہے ۔ اگرچہ یہ یکساں موسمی حالات والے علاقوں میں درست ہو سکتا ہے ، لیکن کشمیر کی سخت سردیوں والا موسم مارچ سیشن کے لئے کسی بھی حالت میں موزوں نہیں تھا۔ ایک موثر اور جامع تعلیمی نظام کے لیے پالیسیاں موافقت پذیر ہونی چاہئیں ، اور ’’سب کے لیے یکساں‘‘نقطہ نظر جموں و کشمیر جیسے جغرافیائی اور آب و ہوا کے لحاظ سے منفرد کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ یہاں نومبر دسمبر سیشن ہی مناسب ہے ۔
تعلیمی پالیسیاں مقامی خصوصیات کو خاطر میں رکھ کر مرتب کرنا ناگزیر ہے، جیسے موسم ، ثقافت اور معاشی حقائق ۔ اس طرح ہم اپنے بچوں کو بہترین طریقے سے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرسکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں ہر طالب علم کو ان کی منفرد ضروریات کے مطابق معیاری تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم ہورہے ہیں ۔ جموں و کشمیر پھر سے سرمائی تعلیمی سیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکومت اور تعلیمی حکام کو اس تبدیلی کو ہموار اور پائیدار بنانے کے لیے اضافی اقدامات کرنے چاہئیں ۔ یہاں چند تجاویز ہیں:
موسم سرما کے لیے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا :۔
کشمیر کے اسکولوں میں اب بھی سردیوں کے لیے مواقف بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے۔ موسم سرما کے لیے اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے پر فوری طور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہیں تاکہ سردیوں کے مہینوں کے دوران بھی اسکولوں کو کھلا رکھا جاسکتا ہے۔
مسلسل تشخیص :۔حکومت کو ضرورت کے مطابق تعلیمی شیڈول کا جائزہ لینے اور اسے ایڈجسٹ کرنے پر غور کرنا چاہیے ۔ طلباء ، والدین اور اساتذہ کے ساتھ مشاورت کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ مستقبل کی تعلیمی پالیسیاں اچھی طرح سے مرتب ہوں اور مقامی ضروریات کے عين مطابق ہوں ۔
اساتذہ اور منتظمین کے ساتھ تعاون:۔تعلیمی کیلنڈر میں تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے اساتذہ اور اسکول کے منتظمین کو بھی موافقت کی ضرورت ہوگی ۔ انتظامیہ کو چاہئے کہ اساتذہ اور اسکول کے منتظمین کو اضافی تربیت اور وسائل فراہم کرکے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جائے ۔
کشمیر میں طلبا کے لیے سرمائی تعلیمی سیشن کی واپسی ایک رحم دلی اور عملی تعلیمی نظام کی تشکیل کی طرف ایک اہم قدم ہے ۔ مقامی چیلنجوں کو تسلیم کرکے اور ان کے مطابق ڈھال کر انتظامیہ نے طلباء کی ضروریات کو سب سے آگے رکھ کر تعلیم کی ترقی کے لئے ایک اہم قدم اٹھایا۔ ایسا کرنا گویا کشمیر کی منفرد روایات اور ماحولیاتی حقائق کا احترام کرنا ہے اور ایک ایسا تعلیمی ڈھانچہ تشکیل دینا ہے جو نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ افزودہ بھی ہے ۔
سرمائی تعلیمی سیشن کو بحال کرنے کا فیصلہ صرف ایک پالیسی کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ یہ کشمیر میں طلباء کے روشن مستقبل کی طرف ایک اہم قدم ہے ۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو مقامی ضروریات کا احترام کرتا ہے ، طلباء کی خواہشیات کے عین مطابق ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خطے کی ثقافتی اور جغرافیائی حقائق کی قدر کرتا ہے ۔ یہ یقیناً نئی حکومت کی جانب سے بہتر تعلیمی نظام کی طرف پہلا اور اہم قدم ہے۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورہ قاضی آباد میں ایڈمنسٹریٹر ہیں)
(رابطہ۔ 7006857283)
[email protected]