بلال فرقانی
سرینگر//نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال معمول سے بہت دور ہے اور اگر حکومت کی طرف سے وادی میں حالات معمول پر لانے کے دعوے حقیقت پر مبنی ہیں، تو تاریخی جامع مسجد میں شب قدر اور جمعتہ الوداع کی تقاریب پر پابندی کیوں عائد کی گئی ہے؟۔ عمر عبداللہ نے نوائے صبح کمپلیکس میں نامہ نگاروں کو بتایا، ایک طرف، حکومت کا دعویٰ ہے کہ حالات معمول پر ہیں، پھر تاریخی جامع مسجد میں جمعتہ الوداع اور شب قدر کی تقریبات کی اجازت نہیں کیوں دی گئی۔انہوں نے کہا کہ سیاحوں کی آمد کو معمول سے جوڑنے سے کام نہیں چلے گا اورسیاحت کو حالات معمول کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا’’ یہ تو یہ ایک مصنوعی امن ہے یا جسے خود حکومت نے پیش کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ صورتحال معمول سے بہت دور ہے، ۔‘‘عمر نے کہا’’حکومت اگر اپنے الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے ثابت کر رہی ہے کہ حالات معمول سے بہت دور ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ سحری اور افطار کے وقت بجلی کی پریشان کن کمی یا تو حکومت کی جانب سے دانستہ کوشش ہے یا صرف اس کی نااہلی ہے ،یہ حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ یہ کیا ہے۔ عمر عبداللہ نے جموں وکشمیر اور بیرونِ ریاست جیلوں میں نظربند کشمیری قیدیوں کو عیدالفطر کے موقعے پر خیر سگالی کے تحت رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ سینکڑوں ایسے افراد مقامی اور بیرونی ریاستوں میں اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں، جن کیخلاف سخت نوعیت کے کیس درج نہیں ہیں اور ایسے افراد کی رہائی میں حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ آئین ہندمیں ہر کسی شہری کو مذہبی آزادی کا حق ہے اور جموں و کشمیر نے اسی لئے ہندوستان کیساتھ الحاق کیا تھا کہ یہاں ہر کسی کو مذہب، کلچر اور زبان سے تعلق رکھنے والے طبقوں کو اپنی زندگی آزادی کیساتھ جینے کاحق تھا، اگر اُس وقت ہم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ آپ کی مسجدوں کے سامنے نماز کے وقت ڈول اور باجے بجائے جائیںگے ، آپ کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت نہیںہوگی اور آپ اپنی مرضی کا کھانا نہیں کھا سکتے تو یہاں کے عوام نے کچھ اور ہی فیصلہ لیا ہوتا۔انہوں نے کہا کہ بھارت ایک کثیر المذاہب اور کثیر طبقات کا ملک ہے، یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہی بھارت کی جمہوریت کا حسن ہے لیکن بھارت کی کیثیر جہتی جمہوریت میں کسی ایک مذہب یا ایک زبان کا رجحان نہیں پنپ سکتا۔