اگرچہ مرحوم محمد مقبول بٹ کی جدوجہد ناتمام ہے مگر اس میں کوی شک نہیں کہ اس کے پیرو کاروں میں جو مختلف ٹکڑیوں میں بٹے ہوے ہیں پوری نیک نیتی اور جذبہ کے ساتھ فکر مقبول کو اپنی اپنی سمجھ اور دستیاب معلومات کے مطابق آگے بڑھا رہے ہیں۔ میں پہلی بار یہ بات بتانے میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ شہید مقبول بٹ نے مجھے اپنے دل کے خون کی جلای ہوی ’ شمع ’ سے تعبیر کیا۔ اس کا حوالہ ٓرٹیکل کے آخر میں دونگا۔ مقبول بٹ کا ایک محبوب شاگرد ساتھی ہونے کے ناطے میرا فرض بنتا ہے کہ میں محمد مقبول بٹ مرحوم کے سب ہی پیرو کاروں جو ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے میں دل و جان سے مصروف ہیں ،قربانیاں دے رہے ہیں کا دل کی گہرایوں سے شکریہ ادا کروں ۔ میرا ایمان ہے اور یقین ہے کہ ان کی کوششیں ضرور رنگ لایں گی۔ خدا ہم سب کا اور خصوصی طور مجھ سمیت مقبول بٹ کے سب ہی ساتھیوں اور پیروکاروں خواہ وہ کہیں بھی ہوں کسی بھی جماعت یا گروپ سے وابستہ ہوں کا عزم سفر قایم رکھے تا کہ آنے والے وقت میں ارض کشمیر کا گوشہ گوشہ ’’مرحلہ وار آزادی ‘‘ کے تمام ثمرات سے مستفید ہو سکے۔ جن حالات سے ہم سب اور پوری کشمیری قوم دوچار ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم مقبول بٹ کی تحریروں کا مطالعہ کریں ۔ بحث و مباحثہ سے ان شکوک کو دور کریں جو ہمارے ذہنوں میں بسے ہوے ہیں۔
قرآن میں کہا گیا ہے کہ آپس میں مشورہ کرتے رہو راستہ مل جاے گا۔ آپسیـ مشاورت کے دوران مولانا ابولکلام آزاد کے اس قول کو مدنظر رکھا جاے کہ ’’ سیدھے منہ سے ایک بول اور عفو و در گذر کی کوئی ایک بات اس خیرات سے ہزار درجہ بہتر ہے جس میں خدا کے بندوں کے لیے اذیت ہو ‘‘ ۔ وقت کے جن حالات نے ہمیں یعنی ملک جموں کشمیر اور باشندگان ریاست جموں کشمیر کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے ان میں باشندگان کے لیے زندگی بسر کرنے کے لیے دو ہی راہیں رہ گئی ہیں ۔ بے حسی اور حالات سے لاتعلقی و بے خبری کی زندگی بسر کریں یا احساس حال ،احساس زیاں کریں ، رد عمل کی راہ اپنایں، ہڑتال مظاہرہ کریں اور جیل جایں یا کوئی زیادہ بہتر راہ اپنایں۔ پہلی صورت میں زندگی ہر حال میں اور کہیں بھی بسر کی جاسکتی ہے اور ایسا بہت سے لوگ کر ہی رہے ہیں۔ دوسری صورت میں زندگی کا احساس حال اور احساس زیاں کرتے ہی کچھ لوگوں کو جو خیالات آتے ہیں ان میں سب سے اہم بات یہی آتی ہے کہ ہماری جدوجہد میں کیا کمی ہے ، کیا ہماری سمت اور حکمت عملی درست بھی ہے کہ نہیں؟ کیا ہمیں کچھ کچھ بدلنے اور بدلاو کی ضرورت ہے کہ نہیں ؟ اور جب اس قسم کے سوالات کسی تنظیم کے اندر کوئی فرد اور عام شہریوں میں سے کوئی صاحب الراۓ اٹھاتا ہے تو بجاے اس کے خیالات اور رویہ میں تبدیلی پر بحث کے اسے منحرف دشمن ایجنٹ یا گمراہ کہہ دیا جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اب اس روش ور رویہ کو ترک کیا جانا چاہیے ہر گروپ اور ہر پارٹی میںتاکہ مزید تقسیم کا عمل رک سکے ۔ جو کچھ کھو چکے اس پر ہاتھ ملتے رہنے کی بجاۓ یہ سوچنا شروع کریں کہ جو بچا ہے اسے کھونے سے کیسے بچانا ہے اور کھوئی منزل کو دوبارہ کیسے پانا ہے۔
محمد مقبول بٹ کی تعلیمات سے سب ہی دوست واقف ہیں مجھے کچھ دھرانا نہیں فقط چند ایک ایسے نکات کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا کہ ہمیں مسلٔہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کی بجاے منزل کا واضح اور دو ٹوک تعین کرنا چاہیے۔ چند روز قبل میں نے آر پار ادھر ادھر اپنے ساتھیوں دوستوں کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی اور فیس بک کی وساطت سے بھی لکھا کہ اب ہمیں سیدھے سیدھے اور براہ راست آزادی کی مانگ کرنا چاہیے اور لفظ آزادی اور لفظ کشمیر کے معانی واضح کر کے بیان کرنا چاہیے۔ عام طور جس حق خود ارادیت کی بات ہم کر رہے ہوتے ہیں وہ بھارت کی اقوام متحدہ میں ایک شکایت اور پاکستان کی جانب سے شکایت کے جواب کی شکل میں ہماری دھرتی خاندانوں کو جبری تقسیم کر کے مشروط اور محدود شکل میں دیا گیا ہے۔ ہم از خود نہ تو اس حق خود ارادیت کی شکل معانی اور تعریف بدل سکتے ہیں جو بھارت اور پاکستان نے اپنی اپنی سفارتی جدوجہد کے نتیجہ میں حاصل کی نہ ہی ہماری تقریریں اور نعرے اسے غیر مشروط بنا سکتے ہیں جن کے دایرۂ اختیار میں ہے ان قراردادوں کو کشمیریوں کے حق میں تبدیل کرنے اور مسلٔہ کے پر امن دایمی حل تک پہنچنے کا ہے وہ ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ ہندوستان تو اب یہ حق سرے سے دینے سے انکاری ہے اور پاکستان کا سرکاری موقف ہے کہ کشمیری پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کر لیں ۔آزادی کا راستہ ان قراردادوں میں نہیں مگر ہم کشمیری لوگ ان ہی قراردادں پر اصرار کرتے پھر رہے ہیں۔ ہاں ان قراردادوں میں صرف حکومت پاکستان ہمارے لیے غیر مشروط حق خوداردیت کا راستہ کھول سکتی ہے۔ بھارت کی حکومت ایسا نہیں کرے گی۔ میں نے اقوام متحدہ میں کچھ عرصہ قبل سفیر پاکستان محترمہ ملیحہ لودھی صاحبہ کو تجویز کے طور لکھا تھا کہ آپ اپنی حکومت کی جانب سے سلامتی کونسل کے صدر یا جنرل اسمبلی کے ارکان کو سیکرٹری جنرل کی وساطت ایک حکومت کی جانب سے خط کے ذریعے آگاہ فرمایں کہ حکومت پاکستان جنوبی ایشیا کے علاقہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور امن کو درپیش خطرات کے پیش نظر اور عالمی و علاقائی سلامتی کے بہترین مفاد میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے ہوۓ ۱۳ اگست ۱۹۴۸ کی اقوام متحدہ کے کمیشن براۓ پاک و ہند کی سفارشات اور قرارداد اور اس سے منسلکہ پاک بھارت معاہدہ کی تمام تر شرایط بشمول جموں کشمیر سے اپنی افواج کے انخلا ٔکے لیے تیار ہے۔ آپ یعنی اقوام متحدہ کا سیکرٹریٹ بھارت کو حکومت پاکستان کے اس موقف سے سرکاری طور آگا کریں اور انہیں یہ بھی بتایں کہ حکومت پاکستان کو ریاست جموںو کشمیر کے عوام کو خود مختاری کا حق دینے میں کوئی اعتراض نہ ہو گا اور بھارتی حکومت سے کہیں کہ وہ اس سلسلہ میں آپ ہی کی وساطت سے حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرےاور اقوام متحدہ کو بتایا جاۓ کہ ان ستر سالوں میں بھارت و پاکستان کے درمیان دو بڑی جنگیں ہو چکی ہیں کرگل کا واقعہ امریکی مداخلت سے کسی بڑے سانحہ میں بدلنے سے بچااور سیز فایر لاین پرجھڑپوں کی شدت میں اضافہ کی اطلاعات ہیں اور یہ کہ خود جموں کشمیر کے عوام کی سوچیں بدل چکی۔ ‘‘ مجھے ابھی تک اس مکتوب کا جواب تو نہیں ملا ۔
دوستو ! میں کوئی پچیس تیس سال سے مختلف ممالک کے سفارت کاروں سے ملتا رہا، مختلف کانفرنسوں میں شرکت کے مواقع ملے اور گذشتہ بیس سال سے تو امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہا ہوں ۔ میں نے بہت کچھ سیکھا اور اپنے خیالات کو حاصل ہونے والے علم کی بنیاد پر اپنی سوچ میں تبدیلیاں بھی لایں ۔ یہاں امریکہ میں ، میں نے تحریک و تنظیم کے لیے کیا کیا اس کا تذکرہ ہر گز نہیں کروں گا ۔ بلا شبہ مجھے یہاں کے سیاست دانوں ، دانش وروں سفارت کاروں، مختلف یونیورسٹیوں ، سینیٹ ، کانگریس، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، وایٹ ہاؤس، نشریاتی اداروں تک جانے اور اپنا موقف بیان کرنے کا موقع ملا اور ملتا رہتا ہے ۔( کچھ دوستوں نے لکھا کہ میں امریکی شہری بن گیا اور تحریک کو بھول گیا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ان کی اطلاع کے لیے فقط اتنا عرض ہے کہ امریکی شہریت تو دور کی بات میرے پاس گرین کارڈ بھی نہیں،اس لیے وہ دوست جو امریکی شہری ہونے یا امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام مجھے دیتے رہے ،ان کے لیے یہ مختصر تذکرہ کافی ہے ) مجھے نہ صلے کی پرواہ ہے نہ داد تحسین چاہیے۔ بقول شاعر ؎
مرد قلندر کو کیا تمغہ زر چاہیے
یا کسی گلزار میں شیشے کا گھر چاہیے
اس کو فقط صحبت اہل نظر چاہیے
اور اگر یہ نہ ہو تو عزم سفر چاہیے
اقوام متحدہ کی قراردادیں تنازعہ کا ثبوت تو فراہم کرتی ہیں ذکر کی حد تک مگر ان قراردادوں میں کشمیری فریق نہیں اور نہ ہی کشمیریوں کی آزادی کا کوئی راستہ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ۳۷ سال قبل مرحوم مقبول بٹ نے اپنی زندگی میں ہی لفظ آزادی کی اپنی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ آزادی سے ہمارا مطلب جموں کشمیر کی مقدس دھرتی سے غیر ملکی تسلط کا خاتمہ ہی نہیں بلکہ بھوک افلاس جہالت بیماری ، معاشی، سماجی نا ہمواری کو شکست دینا بھی ہے اور ایک دن ہم آزادی حاصل کر کے رہیںگے۔
میری گزارش ہے کہ سر دست چند باتوں پر اتفاق راے پیدا کر کے ان پر فوکس کیا جاے اور غیر مبہم پیغام دیا جاۓ کہ :
۱۔ ریاست جموں کشمیر کے عوام مکمل آزاد جمہوری خود مختار مملکت کا قیام چاہتے ہیں ۔ یہی ایک حل ہے اور ایک منزل۔
۲۔ بھارت اور پاکستان اپنی اپنی افواج کے نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کی ۱۳ اگست ۱۹۴۸ کی قرارداد اور اس سے منسلکہ معاہدہ کی روشنی میں عمل درآمد کر کے جموں کشمیر کے عوام پر مسلط خوف و دہشت کی فضا ختم کریں تاکہ عام شہری زندگی بحال ہو، بچے سکولوں میں جا سکیں۔جب کسی علاقہ میں فوج ہو گی تو امن نہیں بد امنی آئے گی۔ ستر سال قبل جموں کشمیر میں بھارت اور پاکستان کی فوجیں آ دھمکیں، نکلنے کا وعدہ کر کے نکلیں نہیں۔ ان ستر سالوں میں حساب لگایں کہ جموں کشمیر میں کتنے شہری مارے گے ۔ غیر مصدقہ اور عام اندازے کہتے ہیں ۹۰ ہزار ۔
۳۔ طرز فکر و عمل میں بنیادی تبدیلی لانا ہو گی۔ ابہام دور کرنا ہوں گے۔ ایک دوسرے کے لیے شکوک شبہات ختم کرنا ہوں گے اور دنیا کو اور اپنے عوام کو صاف صاف بتانا ہو گا کہ ہم اصل میں چاہتے کیا ہیں ۔ مبہم نعرے ؟ کشمیر اَٹوٹ انگ، کشمیر شہَ رگ، حق خود ارادیت دو کہ ہم کسی ایک ملک کے غلام بنیں ، اب یہ سب فرسودہ کہانیاں بن چکی ہیں۔ ان نعروں اور ان کا پرچار کرنے والوں پر عوام کا اعتبار نہیں اور یہ سب حضرات اور پارٹیاں جموں کشمیر کے مختلف حل تجویز کرتے ہیں مگر اپنی منزل اور مقاصد بیان نہیں کرتے اور کشمیر کی خود مختاری کا آپشن پسند کرنے کے باوجود اس کا اظہار کرتے ہوے احتراز برتتے ہیں، شرم محسوس کرتے ہیں ، وجوہات سب جانتے ہیں۔
۴۔ کشمیری سیاسی جماعتوں کی مجبوریاں اور مساہل اپنی جگہ مگر انہیں رہنمائی کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ نہیں کہ کوئی باہر سے ان کو یہ کہہ رہا ہو کہ آج آپ کو یہ کرنا ہے اور کل یہ۔ ہمیں آزادی بھارت اور پاکستان سے لینی ہے تو ہمارے لیڈران ، دانش وروں کو دہلی اور اسلام آباد کے حکومتی وزیروں مشیروں اور ریاستی اداروں کی بجاۓ وہاں کے عوام اور عوام کے رہنماؤں اور راۓ ساز اداروں اور شخصیات سے روابط پیدا کرنے ہوں گے۔
آرٹیکل بہت طویل ہو گیا سب خیالات سموے نہیں جاسکتے۔ میں اس آرٹیکل کے ساتھ مرحوم مقبول بٹ کے اپنے نام دو خطوط شامل کروں گا، ان سے آپ کو میرے اور بٹ صاحب کے ساتھ قربتِ باہم اور تعلق کا اندازہ ہو جائے گا، ایک اور خط کا حوالہ میں اس جگہ دینا چاہوں گا اور فخریہ آپ کو بتانا چاہوں گا کہ مجھے بٹ صاحب نے اپنے خون دل سے جلائی ہوئی ایک’’ شمع ‘‘ قرار دیا۔ یہ ایک اعزاز ہے جو بٹ نے ۳۷ ؍سال قبل پھانسی کی کوٹھڑی سے میرے ہی ایک دوست اور ساتھی خواجہ رشید ظفر صاحب مرحوم کو اپنے جوابی خط میں لکھتے ہوے عنایت کیا تھا ۔
خواجہ رشید ظفر صاحب کو میری بابت لکھا کہ ۔۔۔’’ میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام کیا ہو سکتا ہے کہ حالات کی نامساعدگی اور وقت کا جبر نہ صرف یہ کہ وفا کی ان ’’ شمعوں ‘‘ کو بجھانے میں ناکام رہے ہیں جنہیں ہم نے خون دل سے روشن کیا ہے بلکہ ان جلتی شمعوں سے اور بھی کتنے ہی چراغ روشن ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو انشاللہ وہ دن دور نہیں جب ان چراغوں کی روشنی سارے وطن کو منور کرے گی اور نتیجہ کے طور وہ کیفیت برپا ہو گی جسے ہم بجا طور پر آزادی کا چراغاں کہہ سکیں گے۔‘‘ مقبول بٹ ۱۵ ؍اگست ۱۹۸۱