کشمیر سے متعلق زمینی سطح کی حقیقت ابھی تک یہی ہے کہ یہاں ہر دن ایک نیا کربلا بن کر طلوع ہوتا ہے اور ہر شام ایک اور شامِ غریباں میں ڈھل کرتاریکیوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے ۔ اس بیچ سیاسی اقتدار کے بھوکے لیڈروں اور کشمیر حل کے لئے محو جدوجہد قائدین پر تنقیدیں ہورہی ہیں کیونکہ پہلے طبقے کے پاس صرف کرسی کا قصہ اور استحصالی ہتھکنڈوں کا گیم پلان ہے اور دوسرا طبقہ حالات کا رونا رونے کے سوا کوئی اور لائحہ ٔ عمل نہیں رکھتا ۔ اُدھر ہم سب سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ہندوستان ہر سال جنرل ڈائر کے ایک جلیانوالہ باغ قتل عام کی یاد یں سینے سے چمٹا کر ساری دنیا کو اس خونین واقعے کی سرگزشت سناتا ہے لیکن خودافسپا کے شانوں پر سوار وردی پوش کشمیر میں قریہ قریہ، گاؤں گاؤں ، شہر شہر ہر روز ایک نئے انداز کا جلیانوالہ باغ تخلیق کرکے افسپاکی جنونی تسکین کا سامان کس دھڑلے سے کررہے ہیں، وہ اس کو سننے سنانے سے کنی کتراتے ہیں ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ نوے سے لے کر آج تک کشمیر مسلسل کشت وخوں کا میدان بناہوا ہے ، ہم نے اب تک کتنی انسانی لاشیں شہر خموشاںمیں مٹی کے گھروندے میں جابسائیں،اُن کا کوئی شمار وحساب نہیں،ہمارے دس ہزار سے زیادہ نوجوان ابھی تک زیر حراست لاپتہ افرادکی لسٹ میں موجود ہیں ، اس فہرست میں اب تک کوئی کمی واقع نہ ہوئی،ہزاروں نوجوان بے نام اجتماعی قبروں میں دفن ہیں ، بستیاں اُجڑ گئی ہیں ، بیواؤں ، یتیموں، معذوروں اور محبوسین کی داستانِ غم الگ ہے ، یعنی کشمیر میںانسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں جتنا کہا اور جتنا سنا جائے کم ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی ایک چشم کشا رپورٹ میں پہلی بار اپنے دُکھ اور افسوس کا اظہار کر کے کشمیر یوں کی درد بھری کہانی کوعالم ِ انسانیت کے سامنے منظر عام پر لایا ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی حال ہی میں پلوامہ میں فورسز کے ہاتھوں شہر ی ہلاکتوں کا ایک اور نم ناک واقعہ ہے ۔اس میں کئی انسانی جانیں تلف ہوئیں ۔ قتل عام کے اس المیہ پر اور تو اور سپریم کورٹ کے سابق جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے سابق سر براہ جسٹس کاٹجو نے اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا : ’’جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ اور لیفٹنٹ کیلی مائے لائے نے جو ویت نام میںکیا ہے ،وہی عمل بھارتی فوج نے کشمیر( مراد سرنو پلوامہ) میں دوہرایا ہے ‘‘اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر نے بھی اپنی ایک بریفنگ کے دوران بھارتی فوجی جنرل کو مشور ہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں فرق نہ کر کے بھات معاملات کو پیچیدہ بنا رہا ہے ۔ مارکٹائی کا یہ ناگفتہ بہ آپریشن آج کا نہیں بلکہ پچھلے ستھر برسوں سے یہ کشمیر میں بلا روک ٹوک ایک منصوبہ بند طریقے سے جاری و ساری ہے۔اس کی رفتار حالیہ مہینوں میں تیز تر کی جاچکی ہے اور کون جانے مستقبل میں یہ کس درجے پر آجائے کیونکہ بھاجپا کو اُدھر پارلیمانی الیکشن کا سامنا ہے اور اپنی ساڑھے چارہ سالہ عدم کارکردگی چھپا نے کے لئے رام مندر اور کشمیر میں خون ریزیاں بہت کام آرہی ہیں ۔ سوا ل یہ ہے کہ آخر وہ کون سا قصور ہے جس کی پاداش میں کشمیر میں جا بجا مارا ماری ،پکڑ دھکڑ ،پیلٹ گن اور دوسرے جنگی ہتھیاروں کاا ستعمال نہتے نوجوانوں ،بچوں بوڑھوں ،عورتوں پر یکساں طور پر جائز وحلال قرار دیا جاچکا ہے۔ اس کرب و اَلم کی فضا اور ان روح فرسا مناظرکی وجہ سے کشمیر کی جنت میںرنج و غم کا دُھواں اُٹھنا قابل فہم امرہے ۔ غموں اور صدموں کا یہ کالا دھواں اہل کشمیر کو ہی نہیں بلکہ ارون دھتی رائے، گوتم نولکھا اور جسٹس کاٹجو اور ہیومن رائٹس کمیشن جیسے نرم دل اور وسیع النظر لوگوں کو دنیا بھر میں نظر آتا ہے مگر ہمارے ان کرم فرماؤں کو اس کی کوئی فکرو غم نہیں جو اپنے رنگ محلوں اور عیش کدوں میں پچھلے ستھر برس سے دادِ عیش دے رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنا ہر غم غلط کرنے کے لئے لہو اور آگ کے بیچوں بیچ اپنے طرب خانے اور ناؤونوش کی مجلسیں آباد کررکھی ہیں ۔ ان سب لوگوں کو عام فہم زبان میں مین ا سٹریم کا نام دیا جاتا ہے ۔ ریاست کے نئے گورنر ستیہ پال کی سوچ اور اپروچ سے کسی کو لاکھ اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن جموں میں آرمڈ فورسز فلیگ ڈے کی تقریبات پر اُن کا بیان نہ صرف زبردست اہمیت کا حامل ہے بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت کی گرہ کشائی بھی ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔ انہوں نے صاف لفظوں میں خلاصہ کیا کہ ’’کشمیر میں سیاست دان اور بیرو کریٹس بہت امیر ہیںمگر بقول اُن کے وہ سماج کے تئیں کوئی حساسیت نہیں رکھتے ، اس لئے وہ سڑے ہوئے آلو کے مترادف ہیں ۔‘‘ بے شک ہماری تباہی اور بر بادی کی بنیادی جڑ میں یہی شہنشاہی طبقہ دخیل ہے۔ کشمیر کے یہ خود غرض سیاست کار اقتداری منزل کے سوا کسی اور منزل کو نہ جانتے ہیںنہ پہچانتے ہیں۔ حریت سے متعلق یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ سیاست دان بقول ناقدین کے عام خام ذہن کو پراگندہ کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہتے ہیں اور یہ کہ قائدین کے پاس ہڑتالی سیاست اور شہداء کے نام تعزیتی پیغاما ت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
لاریب زبان کی چٹکیوں میں یہ کہنا نہ صرف آسان ہے بلکہ کسی حد تک یہ مبنی بر صداقت ہے لیکن عوام الناس سے پوچھا جاسکتا ہے کہ عوام حریت کی ہڑتالی کالوں اور جنازوں میں شرکت کے سوا حریت کے کس پروگرام کو تن من دھن سے آگے بڑھاتے رہے ہویا قبول کرتے ہو ؟چار مہینوں کی جان لیوا ہڑتال کے فوراً بعد ۷۰؍ فیصد پولنگ کا ریکارڈ بھی کیا عوام نے خود ہی نہ بنایا ؟ نوجوانوں کی لاشوں کو کندھا دینے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں اورپھر ہر قتل عام پر ناراضی دکھانے کے بعد ہم لوگ ہی این سی ،پی ڈی پی اور دوسرے بھارت نواز وں پر جبہ سائی کرتے ہیں ، شہداء کا لہو سڑکوں پر سوکھنے سے پہلے ہی ہم جوق در جوق پی ڈی پی ۔ این سی اور دوسری ہند نواز پارٹیوں سے بھی دوستی کی پینگیںبڑھاتے ہیں اور بی جے پی کو براہِ راست واردِ کشمیر کرنے والوں کو بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیںاور ان کے ساتھ ہاتھ ملانے والوں کو بھی اپنا خیرخواہ سمجھتے ہیں۔ اغیار کی طرف سے قتل عام کو جائز قرار دینے والی ان پارٹیوں کا ہر طرح سے سواگت بھی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اپنے حقیر مفادات سے منسوب کرتے ہیں ، کھلے عام ہڑتال کی کال پر دوکان بھی بند کرتے ہیں اور اسی روز چوری چھپے بی جے پی کی بندکمرے والی میٹنگ میں حصہ بھی لیتے ہیں ۔ حریت قائدین کے پاس واقعی کوئی اور راہ نظر نہیں آتی اور یہ حضرات عوامی موڈ اور عوام کی مایوسی کو ملحوظ نظر رکھ کر اپنے آپ کو ایک محدود سے دائر ہ روایات میں مقید کر رکھا ہے ۔ یہ عوام کی نبض سے پوری طرح واقف ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حریت کانفرنس بار بار عوامی نمائندوں ، دانش وروں ،قلم کاروں اور سماج کے معزز افراد سے کشمیر اسٹرٹیجی کے بارے میں تجاویز اور نئی رائیں طلب کرنے کے لئے سمینارز بلاتی رہی ہے لیکن افسوس کہ جن اندھیروں میں ہم بھٹک رہے ہیں وہ اتنے گہرے اور سنگین ہیں کہ کوئی راہ نہیں پنڈ چھڑانے کی کسی کو نہیں سوجھتی اور نہ کسی کے پاس کوئی نئی راہ یا سجھاؤ ہے، ذہن بنجر اور خیالات بھانجھ ہوں تو کیا کر یئے، پھر تو نوٹنکی بازی پر ہی گزارا کرنا پڑے گا یا دائرے کا سفر جاری رکھنا پڑے گا۔ ا س لئے حریت کی مشکلات میں قیادت کا اتنا عمل دخل نہیں جتنا خود عوام کی اپنی بے حسی ۔ حق یہ ہے کہ مسئلہ جموں وکشمیر ایک پیچیدہ انسانی مسلٔہ ہے۔اس کا مدوجزر مکمل طور پر بھارت کے کنٹرول میں ہے ، اس کا ایک اہم فریق اگرچہ پاکستان بھی ہے لیکن فی الوقت عالمی سیاست کے پس منظر میں اسلام آباد کی بے بسی کشمیر کی محکومیت اور مظلومیت سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔
فلسطین اور کشمیر مسئلے پر مختصر اًدنیا کی ساری قوتیں ایک جیسی سوچ رکھتی ہیں اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کو جوں کاتوں رکھنے کے حوالے سے اسرائیل ، امریکہ ،روس اور لگ بھگ تمام یورپی ممالک کا سپورٹ حاصل ہے کیونکہ یہ مسلٔہ مسلم اکثریتی خطے سے تعلق رکھتا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ حریت کے پاس نہ تو بڑی سیاسی اسپیس ہے اور نہ ہی وہ خود اپنے بل بوتے پر کوئی ایسی قوت ہے جو بھارت کو میز پر لانے میں کوئی اہم رول ادا کرسکے ۔ ان تلخ حقیقتوں کے باوجود اس مزاحمتی پلیٹ فارم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ یہ لاکھوں مظلوموں ، محکوموں اور بے بسوں کی سیاسی اُمنگوں اور آرزوؤں کا ترجمان اور نقیب ہے ، اس کے متحرک وفعال کارکن قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ا ور طرح طرح کی تکلیفیںاٹھاتے جا رہے ہیں۔اس پلیٹ فارم کے مقابلے میں مین سٹریم سیاست کے پاس کیا ہے جس کی بنیاد پر وہ سادہ لوح عوام سے ووٹ مانگتے رہے ہیں اور سرکاریں بنا کر راج تاج کرتے رہے ہیں ۔ این سی کے پاس لے دے کے آٹو نومی کا جادو تھا ، ماضی میں یہ جادو تماشہ بینوں کی ایک بھیڑ جمع کرنے میں کامیاب رہتا لیکن واجپائی کی حکمرانی میں فاروق عبداللہ نے اس قرارد داد کو پتہ نہیں کیوں اسمبلی میں پاس کرایا تھا اور ،رکز میں اپنے سیاسی حلیف این ڈی اے کے دربار میں بھیج دی ۔ بھاجپا چونکہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کی روزاول سے دشمن رہی ہے ،اس لئے ا س قرارداد کا جوانجام ہونا طے تھا، وہی ہوا کہ اسے پڑھے بنا ہی وقت کے وزیراعظم واجپائی نے ڈسٹ بِن میں ڈالا۔آج تک این سی نے کبھی یہ ہمت بھی نہ کی کہ اس ڈسٹ بن کا اتہ پتہ ہی پوچھ لیتی ۔این سی آتی اور جاتی رہی ہے لیکن آٹونومی کاجادو اسے کشمیر میں محض اس سمئے یاد آتا ہے جب اقتدار اس سے روٹھا ہوتا ہے ۔ کشمیر کا ہر کس وناکس جانتا ہے این سی کے دور اقتدار میں ’’ رگڑو تحریک‘‘ کے دوران کشمیر کے ۱۶۶؍ نوعمروں اور نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا ، جب کہ نیلوفر و آسیہ کا سفاکانہ قتل تو بہر حال این سی کی تاریخ کاسیاہ ترین داغ بنا ر ہے گا۔ این سی کی کتاب سے بھی وہی لہو ٹپک رہا ہے جو پی ڈی پی کے کتاب میں چھلک رہا ہے۔اس نے سیلف رول کا سپنا سجایا لیکن اپنے زمانہ ٔ اقتدار میں اس نے جون ۲۰۱۶ء کی ہلاکتیں اور تباہیاں معصوموں اور نہتو ں کے مقدر کیں اور محبوبہ مفتی آج بھلے ہی نا مساعد حالات کے متاثرہ گھرانوں میںحاضریاں دیتی پھریں مگر تاریخ اس جملے کو قیامت تک نہیں بھولے گی جو انہوں نے بہ حیثیت وزیراعلیٰ بھارت کے وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کے روبرو کہے کہ ’’مارے جانے والے بچے گھر سے ٹافی اور دودھ خریدنے نہیں نکلے تھے ۔‘‘یہ تیکھا جملہ یا کشمیریوں کے ہرے زخموں پر نمک پاشی اُن شہری ہلاکتوں کو جوازیت دے رہاتھا اور مارنے والوں کے دفاع میں بولا گیا تھا جو برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے موقع پر سوگواری کے عالم میں جلسے جلوسوں میں نکلے تھے ۔ بہر کیف کرسی سے محرومی ان پارٹیوں سے زیادہ دیر برداشت نہیں ہوسکتی ،اس لئے ا ن دنوں دونوں علاقائی پارٹیاں اپنا سیاسی وجود زندہ رکھنے کے لئے اہل ِکشمیر کے جذبات کا استحصال کر نے کی پھر سے ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔یہ لوگ بار بار حریت پر چوٹ کرتے رہے ہیں کہ ہڑتالی سیاست اب چلنے والی نہیں لیکن اپنے بارے میں یہ کیا کہیں کہ جس آٹونومی اور سیلف رول پر یہ اپنا سیاسی محل بنا تے رہے ہیں، نہ بی جے پی سرکار اس کو گھاس ڈالنے والی ہے اور نہ کشمیری عوام کادل ان بہلاؤں سے بہلے گا ، جب کہ بی جے پی دونوں پارٹیوں کو پاکستان نواز کہہ کر ان کا سائز کاٹتے ہوئے تیسری پارٹی یعنی پیپلز کانفرنس کو پروجیکٹ کررہی ہے تاکہ ا سی کو آگے اپنے سیاسی گیم پلان کے پیچ وخم میں اپنا مہرہ بناسکے۔ این سی اور پی ڈی پی حالات کی یہ نہج دیکھ کر خوف زدہ ہیں، خاص کر پی ڈی پی کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔ اس پارٹی سے تادم تحریر کئی ابن الوقت سیاست کار ، کئی سابق ممبر ان ا سمبلی اور ممبران کونسل اپنا رشتہ توڑ چکے ہیں۔ ان حقائق کی موجودمیں اگر یہ سیاسی کھلاڑ ی بقول گورنر ستیہ پال ملک کے ’’سڑے ہوئے آلو ‘‘ ثابت ہوتے ہیں تو کوئی حیرت کا مقام نہ ہوگا ۔ کئی بھگوڑوں کو اپنی منسٹریاں این سی میں اور کئی ایک کو پی سی میں نظر آرہی ہیں اس لئے گرہ گٹوں کی طرح رنگ بدل کر ادھر ادھر طالع آزمائی کر نے جا رہے ہیں۔ کشمیر کی مین اسٹریم پارٹیاں کشمیر نام کا سودا سلف بیچ کھاکرکبھی کانگریس کے ساتھ اتحاد کر تی رہی ہیں اور کبھی بی جے پی کے ساتھ اقتدار کی شراکت داری میں قطبین کو ملانے کا تماشہ دکھاتی رہی ہیں۔ ان کی سیاست کا خلاصہ ستھر برس سے یہی چلاآ رہا ہے اور آگے بھی ان سے یہی طرز سیاست متوقع ہے ۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے موجودہ زمانے میں بھی کشمیر میں ایک بات ، جموں میں دوسری بولی، دلی میں تیسری زبان اور ملک سے باہر چوتھے طرز کلام سے کام چلاتی ہیں، یہ جانے بغیر کہ یہ جو پبلک ہے سب جانتی ہے ۔ان کے مقابلے میں حریت اپنی تمام کوتاہیوں اور کمیوں کے باوجود کشمیر کے درد کو اُجاگر کر تی ہے ،کشمیر حل پر زور دیتی ہے ، حقوق ا لبشر کی ابتر صورت حال پر واویلا کر تی ہے ۔اس سے اہل ِکشمیر کا فوری طور کوئی بھلا نہ بھی ہو لیکن تاریخ کم ازکم یہ تو نہ لکھے گی کہ کشمیر کی قسمت پر جب بن آئی تھی تب بھی اس کادرد گونگا تھا، اندھا تھا، بہرا تھا، دل سے بھی محروم تھا اور دماغ سے بھی فارغ تھا ۔
فون نمبر9419514537