عظمیٰ نیوز سروس
سری نگر// کشمیر کی عالمگیر شہرت یافتہ دستکاریوں کے ساتھ ساتھ فنِ تعمیر کا شاہکار ‘ختمبند’ بھی اپنی مثال آپ ہے ۔لکڑی کی تراش خراش سے بننے والی ختمبند کی چھتیں نہ صرف مساجد اور خانقاہوں کو زینت بخشتی ہیں بلکہ ہاوس بوٹ اور اب عام گھروں کا بھی لازمی حصہ بن گئی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے کشمیری فنِ تعمیر میں ختمبند کا آغاز مغل دور سے جوڑا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فن وسطی ایشیا اور ایران سے آیا لیکن کشمیر کی فضا اور یہاں کے ہنرمندوں نے اسے اپنی انفرادیت بخشی۔ صدیوں پرانی مساجد، جیسے جامع مسجد سری نگر، خانقاہِ معلی اور شاہ ہمدان کی خانقاہ میں آج بھی ختمبند کی نایاب مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ لکڑی کی جالیوں اور جیومیٹریائی ڈیزائنز پر مشتمل یہ چھتیں نہ صرف جمالیاتی حسن رکھتی ہیں بلکہ موسم کی شدت کو برداشت کرنے میں بھی مددگار ہیں۔ شہر خاص کے نواکدل علاقے سے تعلق رکھنے والے ختمبند کاریگر پرویز احمد نے یو این آئی کو بتایا:’اس وقت ختمبند کا کام پہلے سے بہتر چل رہا ہے ۔ اگر کوئی نیا مکان بنتا ہے تو لوگ لازمی طور پر دو سے تین کمروں میں ختمبند کرواتے ہیں۔ یہ اب ایک شان اور روایت بن گئی ہے ‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس صنعت سے وابستہ افراد دن بھر کی مزدوری سے اپنی روزی روٹی کما سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ نئی نسل اس فمیں دلچسپی نہیں لے رہی۔ ان کا کہنا ہے : ‘ہمارے بچے اور نوجوان آسان کام چاہتے ہیں، محنت اور صبر والا یہ ہنر اب ان کے مزاج کے مطابق نہیں رہا’۔ پرویز احمد کے مطابق ختمبند کی تیاری کے لیے عموماً ‘بدلو لکڑی’ استعمال ہوتی ہے ، جو مضبوط اور پائیدار مانی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا: ‘حکومت ہمیں لکڑی تو دیتی ہے لیکن صرف دو سے تین مہینے تک، اس کے بعد ہمیں مہنگے داموں بازار سے خریدنی پڑتی ہے ۔ اگر سال بھر فراہمی یقینی بنائی جائے تو نہ صرف قیمت کم ہوگی بلکہ یہ صنعت بھی پھل پھول سکے گی’۔ سری نگر کے شہر خاص میں اس وقت دو سے ڈھائی سو کارخانے ہیں، جہاں سینکڑوں لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ پرویز احمد کے مطابق، یہ صرف فن نہیں بلکہ سینکڑوں خاندانوں کا ذریعہ معاش ہے ۔ نوہٹہ کے ایک اور کاریگر، غلام نبی نے کہا:’ختمبند ہماری شناخت ہے ۔ ہاوس بوٹ ہو یا مسجد، جب تک اس میں لکڑی کا یہ فن نہ ہو تو وہ ادھورا لگتا ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ سرکار نے اس فن کی بقا کے لیے کوئی مستقل پالیسی نہیں بنائی’۔ انہوں نے کہا: ‘ میں نے اپنی زندگی کا پچاس سال ختمبند بنانے میں گزار دیے ۔ آج بھی لوگ آتے ہیں اور ہمارے کام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ مگر ہمارے بعد یہ فن سنبھالنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے ، نئی نسل موبائل اور کمپیوٹر میں لگی ہوئی ہے ‘۔ سری نگر کے ایک مقامی تاجر، عرفان احمد، جنہوں نے حال ہی میں اپنے گھر میں ختمبند لگوایا، کہتے ہیں:’یہ صرف آرائش نہیں بلکہ ایک سرمایہ کاری ہے ۔ گھر میں ختمبند لگنے سے اس کی خوبصورتی اور قدر بڑھ جاتی ہے ۔ باہر سے آنے والے مہمان سب سے پہلے چھت کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں’۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر حکومت لکڑی کی مسلسل فراہمی، کاریگروں کے لیے تربیتی مراکز اور جدید مارکیٹنگ پلیٹ فارم فراہم کرے تو ختمبند کی صنعت نہ صرف زندہ رہ سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر کشمیری ثقافت کو نئی پہچان دے سکتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ختمبند کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے ۔ یہ صرف ایک چھت نہیں بلکہ ہماری تاریخ، ہماری روح اور ہمارے جمالیاتی ذوق کی نمائندگی ہے ۔ یو این آئی