پیرزادہ مسرت شاہ
کشمیری سیب دنیا بھر میں مشہور ہے۔لیکن پچھلے کئی برسوں سے اس کی پیداوار میں اضافہ ہوتے ہوئے بھی اس کی قیمتوں میں کافی گراوٹ واقع ہوئی ہے۔ کئی لوگ اس سلسلے میں مختلف قسم کے خدشے اور اندیشے ظاہر کررہے ہیںاور بعض لوگ کئی طرح کے اندازے لگارہے ہیں۔کچھ لوگ ایران اور کیلی فورنیا کے سیبوں کو کشمیری سیبوں کا دشمن گردانتے ہیں اور کچھ لوگ حکومتی اقدامات کو دشمن قرار دے رہے ہیں۔لیکن کوئی بھی شخص اپنے گریباں میں جھانکنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ جس کشمیری سیب کچھ برسوں قبل تک انسانی زندگی کے لئے صحت بخش اور تندرستی کا ضامن تصور کیا جاتا تھا،وہ آج مختلف بیماریوں کا بھی سبب کیسے بن سکتا ہے۔غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر درختوں سےگرے ہوئے سیب کی ایک پیٹی دیہات میں پچاس روپے اُٹھائی جاتی ہے،وہ کیونکر سرینگر میں پانچ سو روپے میں بکتی ہے۔کیوںمختلف حیلےاور بہانوں سے ایک کثیر جماعت باغبان سے کمیشنوں کے نام پر پیسے اینٹھ کرلوگوں کو لوٹتی ہے۔اسی طرح سیبوں کے بیوپاری جس چالاکی اور عیاری سے تولیہ کے نیچے سے جو خود ساختہ اور نام نہاد حساب کتاب کرتے ہیں،کیا وہ دھوکہ اور فریب کاری نہیں ہے۔سیب کی گرتی ہوئی قیمتیں یقیناً سبھوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے،لیکن کیاباغبان تک اس سے پہلے بھی کم و بیش اُتنے ہی پیسے پہنچتے تھے جتنے آج پہنچ رہے ہیںنیز ہمیں اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ سیب کی تقریباً تمام پیٹیوں پر جو کہ آزاد پور منڈی دہلی تک پہنچ جاتی ہیں،کیونکر شوپیان برانڈ کا نام چسپاں ہوتا ہے،گوکہ ہمیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ سارا مال شوپیان سے دہلی نہیں جاتا ہے۔پیٹیوں کی قیمتوں پر کس نے اضافہ کیا،گھاس جو کہ بھرائی کے دوران استعمال ہوتا ہے ،اس کی نرخ کیوں آسمان چھو رہی ہے،اس کاغذ کو کس نے ہوشربا داموں تک پہنچا دیا ہے۔سب سے بڑی اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر”اے گریڈ”پیٹی جس میں کہ پانچ تہہ ہوتے ہیں،نیچے کے تین تہوں میں کون غیر معیاری مال زبردستی دھکیل دیتا ہے۔کیا ہمیں ہمارا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ رنگ چڑھانے کے فراق میں،سیب کی اُترائی سے قبل ہی اُن پر مختلف کیمیکلز استعمال کریں۔کیا ہم نے کبھی کسی مصدقہ فرد کے ہاتھوں سیبوں کو فروختگی کی ہے یا ہم ہمیشہ دلالوں کے ہتھے ہی چڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ہم نے کتنی بار بہتر قیمت کی خاطر وقت سے پہلے سے سیب اُترائی کی ہے ،حالانکہ فصل ابھی کچھ دیر کے لئے درختوں پر ہی رہنے کی منتظر تھی۔اسی طرح کیا ہم نے delicious کو ختم کرکے kaloo delicious کو متعارف نہیں کروایا ہے کیونکہ رنگ میں وہ سابقہ رنگ پر سبقت جو لے جاتا ہے،جبکہ kaloo deliciousرنگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا،اور پھر اس کو ختم کرکے ’’اٹیلین برئیڈ‘‘ متعارف کروایا۔سال دو سال تک ہم نےاس نئی برئیڈ کو مہنگے داموں پر بیچااوراب اس کی بھی ٹائیں ٹائیں فش ہوگئی ہے۔
ہماری خود غرض کی اس سے اور بڑی کیا مثال ہوسکتی ہے کہ ’’گولڈن ایپل‘‘نامی برئیڈ جس میں آمدن نہ آنے کے برابر ہوتی ہے، کو ہم رشتہ داروں میں بانٹتے نظر آتے ہیں،تاکہ رشتہ بھی بچ جائے اور قیمت بھی زیادہ نہ چُکانا پڑے۔حالانکہ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں عالمی سطح پر سیب اور انار کا مارکیٹ ختم ہوتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے۔اس رپورٹ میں شائع ہوا ہے کہ آپ نے یہ انگریزی محاورہ تو سن رکھا ہوگا کہ An Apple A Day keeps The Doctor Awayایک سیب روزانہ آپ کو ڈاکٹر سے بچاتا ہے۔اسی طرح آپ نے یہ بھی پڑھا ہوگا کہ ایک انار سو بیمار، یعنی سو بیماریوں کا واحد دوا۔لیکن ڈاکٹر سے آپ کو سیب بچا سکتا ہے اور نہ ہی انار، بلکہ صحت مند زندگی گزارنے کا وہ عشروں پر انا سنہرا اصول بھی بے اثر ہوگیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ روزانہ پانچ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بیماریوں سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔ کیونکہ ایک تازہ تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کا باقاعدہ استعمال کینسر جیسے موذی مرض سے بچانے میں کوئی خاص مدد نہیں دیتا۔
ایسے میں ہمیں ان تمام افراد سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہیں،جو ہمارے خون پسینے کی کمائی پر پل کر نہ صرف ہمیں کنگال کررہےہیں،بلکہ ہمیں ذہنی سکون سے بھی کوسوں دور لے جاتے ہیں۔
<[email protected]