کیا کشمیریوں کو مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی سزا دی جارہی ہے،وزیر اعظم کی کشمیریوں کو جادو کی جھپی کہاں گئی؟
کانگریس کی خاموشی باعث افسوس، وزیر داخلہ کے ہونٹوں پر مہر کیوں؟میگالیہ گورنر کیخلاف کارروائی کیوں نہیں؟
سرینگر //نیشنل کانفرنس نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے مختلف حصوں میں کشمیریوں پر جو حملے کررہے ہیں انہیں مرکزی بر سر اقتدار پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی معنی خیز خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے اورکانگریس پارٹی کی خاموشی بھی باعث افسوس ہے۔عمر عبداللہ نے دھمکی دی کہ اگر مین اسٹریم سیاست دانوں سے سیکورٹی ہٹانے کے فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو اْن کی پارٹی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی ۔
بیرون ریاستوں میں حملے
پریس کانفرنس کے دوران عمر عبداللہ نے کہا ’’ملک کے کئی علاقوں میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پوری کشمیری قوم کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، کشمیریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ،ہمارے جو بچے بچیاں باہر کے کالجوں اور یونیوسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اور جن کا سیاست سے دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے، جن کا یہاں کے مسلے سے لینا دینا نہیں، انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے، اُنہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے ،ہمارے بچوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے اپنے لئے ایک بہتر مستقبل بنا سکیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے ہمیں دیکھنے کو ملا کہ ہوٹلوں میں سائن بورڈ نصب کر دئے گئے ہیں کہ یہاں کشمیری نہیں ٹھہر سکتے ۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ سوچ رہے تھے کہ یہ کوئی گمراہ لوگ ہیں اور یہ حالات کا فائدہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایک دو دن سے لگ رہا ہے کہ اُن لوگوں کو مرکزی حکومت کی تنظیم کی پشت پنائی حاصل ہے ۔ عمر نے کہا کہ حال ہی میں ایک ریاست کے گور نر نے کھلم کھلا بتایا ’’ کشمیری کا بائیکاٹ ہونا چاہئے ،اُن سے کوئی سامان نہیں خریدا جانا چاہئے ،امرناتھ کی یاترا کیلئے لوگ نہیںجانے چاہئیں، سیاح باقی جگہ جائیں مگر کشمیر نہ جائیں ، ہم یہاں یہ سوچ رہے تھے کہ ملک بھر سے اس بات کی بڑے پیمانے پر مذمت ہو گی ، ہم اُمید کر رہے تھے کہ جس وزیر اعظم کو ہم نے لال قلعہ سے سنا تھا یہ کہتے ہوئے کہ کشمیریوں کو گولی اور گالی سے نہیں گلے لگا کر قریب لانا چاہتے ،اُس وزیر اعظم سے ہم نے دو الفاظ بھی نہیں سُنے ،یہ کہتے ہوئے کہ یہ جو گورنر صاحب نے کہا غلط کہا اُن کو اس طرح نہیں کہنا چاہتے تھا ، اگر وزیر اعظم نہیں تو کم سے کم ہوم منسٹر سے ہم سنتے کہ اس طرح کی اجازت نہیں دی جائے گی جو اس طرح کی بات کرتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی ہو گی ،جن کالجوں نے کھلم کھلا اعلان کیا کہ کشمیر کے بچوں کو اب داخلہ نہیں ملے گا اُن کے خلاف کارروائی ہو گی لیکن وہاں سے ہمیں خاموشی کے سوا کچھ بھی سننے کو نہیں مل رہا ہے۔ بلکہ یہ لوگ ہماری مصیبت کا فائدہ اٹھاکر اپنی سیاست کو آگے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔‘انہوں نے کہا ’’ جہاں ایک گورنر ہمارے ساتھ تجارتی رشتہ ختم کرنے کی بات کر رہا ہے وہیں دوسرا گورنر 35Aکو ہٹانے کی بات کر رہا ہے‘‘ ۔ عمر نے نئی دہلی سے کہا ’’ موجودہ حالات میں ہمارے زخمیوں پر مرحم لگانے کی بات ہونی چاہئے تھی، لوگوں کو قریب لانے کی کوشش ہونی چاہئے تھی لیکن آپ لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ دو قومی نظریہ صحیح تھا یا پھر غلط ‘‘۔عمر نے کہا ’’جب چھتیں گڑھ میں ایک حادثے میں پلوامہ سے زیادہ سی آر پی ایف اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا، اُس وقت چھتیس گڑھ کے ساتھ بائیکاٹ کی کسی نے کوئی بات نہیں کی، اُس وقت چھتیس گڑھ کے لوگوں کو ہوٹلوں میں کمروں میں جانے کی کسی نے بات نہیں کی ،کسی گورنر نے یہ نہیں کہا کہ وہاں سیاحت کیلئے نہ جائیں، تو ہمارا قصور کیا ہے، کیا یہ اس لئے کہ ہماری ریاست پورے ملک میں مسلمانوں کی بڑی ریاست ہے ،کیا اسی چیز کیلئے ہمیں بار بار سزا دی جائے گی ،کیا اسی چیز کیلئے بار بار ہم پر شک کیا جائے گا ۔‘‘
کانگریس پر تیکھے وار
عمر نے کہا ’’ بی جے پی سے ہم نے زیادہ اُمیدیں رکھی ہی نہیں ہیں ،وزیر اعظم سے ہم نے اُمید کی تھی اور ہم سوچ رہے تھے کہ وہ سیاست کو ایک طرف رکھ کر شاید کچھ کہیں، جہاں وزیر اعظم خاموش وہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کی بھی جو لیڈر شپ ہے وہ بھی اس تمام معاملے میں خاموش رہی ،ہم اُمید کر رہے تھے کہ ہمدردی اوراخلاقی حمایت کم سے کم کانگریس سے تو سننے کو تو ملے گی ،آج کانگریس نے پریس کانفرنس میں آر ڈی ایکس کی بات کی ،ہائی وے کی بات کی ،لیکن کشمیریوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت نشانہ بنانے کی بات نہیں کی،کل الیکشن ہو نگے اور یہ پارٹی انہی کشمیریوں سے ووٹ مانگنے آئے گی، آج جب ہمیں اُن کی آواز سننے کی ضرورت تھی جب ہم اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ دو الفاظ ہمارے حق میں بھی بولیں گے لیکن وہ الفاظ سننے کو نہیں ملے ۔
وزیر اعظم سے مطالبہ
جناب میں گزارش کرتا ہوں کہ الیکشن آتے جاتے رہیں گے الیکشن کیلئے اگر آپ پوری قوم کو قربان کرنے کیلئے تیار ہیں الیکن جیتنے کیلئے تو یہ اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہو گی ۔
کئی ریاستوں کا شکریہ
عمر نے کہا کہ میں جہاں دھمکیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں وہیں اُن لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،جنہوں نے مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ۔چاہئے وہ پنچاب کے وزیر اعلیٰ کپٹن امریندر سنگھ ہوں ،چاہئے بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ہو،مجھے معلوم ہے کہ وہاں حادثے ہوئے لیکن اُن کو قالین کے نیچے نہیں چھپایا گیا، کارروائی ہو رہی ہے ۔انہوں نے سکھ طبقہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بنا دیکھے ہوئے کہ کون کس علاقے میں رہتا ہے کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے ، اپنے گردوارے اور گھر ہمارے لوگوں کیلئے کھولے، کچھ ہندئوں نے بھی ہمارا ساتھ دیا ،مگر بدقستی سے زیادہ تر نہیں۔
گونر سے اپیل
عمر عبداللہ نے کہا کہ بیرون ریاستوں سے جو بچے تعلیم چھوڑ کر وادی آگئے ہیں اُن کا خیال رکھا جانا چاہئے تاکہ اُن کی تعلیم ضایع نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ جس جلدی میں آج گونر صاحب ہر کسی کی سیکورٹی واپس لے رہے ہیں اسی قلم کا استعمال کر کے اُن بچوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے اقدامات کریں ۔
سیکورٹی واپس
عمر عبد اللہ نے کہا کہ اگر مین اسٹریم سیاست دانوں سے سیکورٹی ہٹانے کے فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو اْن کی پارٹی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ گورنر پر زور دیتا ہوں کہ وہ مین اسٹریم سیاست دانوں سے سیکورٹی ہٹانے کا فیصلے واپس لیں''۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ریاستی و مرکزی سراغرساں اداروں کی اطلاعات کو خاطر میں لائے بغیر لیا گیا ہے اور اس کے سیاسی مقاصد ہیں۔انہوںنے کہا کہ اگر یہ فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو وہ اس کیخلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔