آج سے تین سال قبل۸؍جولائی ۲۰۱۶ء عسکری کمانڈربرہان مظفر وانی جان بحق ہوئے ۔اس کے ردعمل میں پورا کشمیراُبل پڑاتھا۔ پانچ ماہ تک عوامی احتجاج کے نتیجے میں 100 سے زائد پُر امن احتجاجی نوجوان وردی پوشوں کی راست فائرنگ میں جان بحق ہوگئے جب کہ ایک محتاظ تخمینہ کے مطابق13000 افراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی گولیاں اور پیلٹ گن کے چھرے لگنے سے زخمی ہوگئے۔متاثرین میں سینکڑوں نوجوان ایسے بھی ہیں جن کی آنکھوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا اور وہ اپنی آنکھوں کی بینائی سے ہی محروم ہوکر رہ گئے۔ 9/11 کے بعد کشمیری نوجوانوں سے یہاں کے لیڈروں نے بار بار کہا کہ مسلح جدوجہد اب مسئلہ کشمیر کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ امریکہ کی پالیسی میں آئے بدلاؤ کی وجہ سے دنیا بھر کی مسلح یا گوریلا چھاپہ ماری پر اب سوالات اُٹھائے جاتے ہیں ۔انہی سوالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف رائے عامہ سے اپنی سفارتی پشت پناہی کا سامان تیار کر تے ہوئے بھارت دنیا بھر میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوا تھا، اس لیے مسلح جدوجہد کے بجائے فہمائشی یہ کی گئی کہ ایسے پُر امن ذرائع استعمال میں لائے جائیں جو دنیا کے لیے قابل قبول ہوں۔ فطری طور کشمیری امن پسند لوگ ہیں، جنگ و جدل کو پسند نہیں کرتے ہیں، اس لیے انہوں نے اس بدلتے عالمی منظر نامے اور قائدین کی فہمائش کے سامنے سر تسلیم ختم کرکے پرامن طریقہ کار اپنایا اوراپنے حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو آگے بڑھانے کا ایثار پیشہ راستہ اختیار کیا۔ ا س سلسلے میں سوشل میڈیا کا استعمال کیاگیا، نیز عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے مختلف مہمات کے ساتھ ساتھ احتجاجی جلسے جلسوں کا بھی اہتمام کیا جانے لگا۔ 2008 ،2009 ، 2010اور پھر2016 میں بھرپور عوامی احتجاجی تحریکات کے ذریعے سے کشمیری عوام نے دنیا ئے انسانیت کے دلوں کو جھنجھوڑنے کی بھرپور کوششیں کی لیکن عالمی ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہوا، اقوام عالم نے کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی۔ حالانکہ بھارت جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے ،نے کشمیری عوام کے اس نئے جمہوری طرز عمل کو طاقت کے وحشیانہ استعمال سے کچل ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ چنانچہ2008 میں 44، 2010 میں128 ، 2016 میں100 سے زائد ، 2017 ء اور 2018 میں درجنوں عام اور بے گناہ کشمیری نوجوانوں کووردی پوشوںنے احتجاج یا سنگ بازی کے الزام میں گولیاں مارکر ابدی نیند سلا دیا۔ گزشتہ تین سال میںہزاروں نوجوانوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کااطلاق کرکے اُنہیں جموں کے بدنام زمانہ تعذیب خانوں میں نظر بندر کھا گیا۔ 2008 ء سے مارچ 2018 تک کشمیر میں 600 سے زائدافراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے کو جرم بے گناہی میںزندگی سے محروم کردیا گیا۔ظلم و بربریت کی اس انتہا نے پرامن طریق کار سے کشمیر کاز کی تحریک چلانے والی یہاں کی نوجوان نسل کا بھروسہ سیاسی عمل پر ختم کردیا۔ مخالف سمت کی جانب سے طاقت کے بے تحاشا استعمال کے نتیجے میں پُر امن جدوجہد کی بات کرنے والوں کی آواز دب کر رہ گئی، اُن کے لیے اپنے نظریے یعنی ’’پرامن تحریک ‘‘ کا دفاع کرنا مشکل بنتا گیا۔نتیجتاً کشمیریوں کی نئی نسل اپنے آپ کو ایسے تنگ دائروں میں محصور تصور کرنے لگی جہاں اس کے لیے کھلی فضا میں سانس لینا، اپنے جذبات کا برملا اظہار کرنا، عالمی سطح کے تسلیم شدہ قوانین کے تحت اپنی جائز بات کو سامنے رکھنا ناممکن العمل بنا ۔ ان تکلیف دہ حالات نے نسل نو کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب کیے، وہ زندگی سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگی ہے ، وہ تعلیمی اور مادی کیرئیر سے پہلے عزت نفس کو لازمی تصور کررہی ہیںاور عزت نفس کی عدم موجودگی میں زندگی کی تمام رنگینوں اور شباب کی جاذبیتوں کو بے مقصد سمجھ رہی ہے۔
یہاں کے عوام سے کہا گیا تھا کہ پرامن جدوجہدسے ہی آپ لوگ اپنی منزل کو پالیں گے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو۔فوج، نیم فوجی دستوں اور دیگر وردی پوش اہلکاروں نے پرامن عوامی احتجاجی مظاہرین کو کچلنے کے لیے بے تحاشا طاقت کا استعمال کرکے بشری حقوق کی پامالیوں کے تمام ریکارڈ توڑڈالے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا گیا، جس کا بین ثبوت اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی حالیہ رپورٹ ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی انسانیت نواز کوشش ہے ۔کشمیر میں نوجوان نسل کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ سن بلوغت سے ہی یہ سیاسی طور بیدار ہوتے ہیں، حالات پر اِن کی گہری نظر ہوتی ہے، اوریہ اپنی قوم کے ساتھ ہورہی زیادتیوں کا باریک بینی سے مشاہدہ بھی کرتی ہے اور ان مظالم پر ردعمل بھی دکھاتی ہے۔ جب فریق مخالف نے اس نوجوان نسل کو شدت سے یہ احساس دلایا گیا کہ اُنہیں پُر امن تحریک چلانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ، دنیا اُن کی حمایت میں آگے آنے والی نہیں ہے کیونکہ عالمی طاقتوں کے لیے بھارت کی تجارتی منڈیاں نفع بخش ہیں اور وہ اپنے ملکی مفادات کو داؤ پر لگا کر کشمیر یوں کی جائز اور مبنی برحق جدوجہد کی حمایت نہیں کریں گے تو اس نسل کی سوچ میں زبردست بدلاؤ دکھائی دیا۔نوجوانوں پر مشتمل آبادی کا بیشتر حصہ پُر امن جدوجہد سے متنفر ہوگیا۔ ذہنی طور پر کشمیری نوجوان اپنی جدوجہد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ جس قوم کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ یہ جنگجو قوم نہیں ہے اور فطری طور خون خرابہ اور تشدد سے نفرت کرتی ہے، اُسی قوم کے مٹھی بھرنوجوانوں نے بغیر کسی بیرونی حمایت یا مدد کے اعدادی اعتبار سے دنیا کی دوسری بڑی فوج کے دس لاکھ نفوس کو اس طرح مصروف عمل رکھا ہواہے کہ جیسے وہ کسی بڑی طاقت کے خلاف حالت جنگ میں ہو۔ عالمی سطح پر برصغیر میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویٰ دار ملک کی جانب سے قائم کیے گئے جنگی جنون پر تشویش کا اظہار توکیا جاتا ہے لیکن اس پر دنیا کوئی اقدام کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ دلی عالمی سطح پر تاثر دے رہی ہے کہ وہ کشمیر کی محدود وادیوں میں حالت جنگ میں ہیں اور اُن کی ملکی سا لمیت خطرے میں ہے، یہ سراسر جھوٹ اور غلط بین پروپیگنڈہ ہے۔ کشمیریوں کی موجود نسل پڑھی لکھی ہے اور اُنہیں اپنے حریف کی طاقت کا بھی بخوبی اندازہ ہے، وہ یہ بھی جانتی ہے کہ کمزور اور نہتے کشمیری دنیا کی اتنی بڑی فوج کا عددی و حربی اعتبار سے نہ مقابلہ کرسکتے اور نہ ہی انہیں شکست دے سکتی، البتہ اس اُمید کے ساتھ کہ کبھی نہ کبھی دنیا کو کشمیر مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ لینا پڑے گااور کبھی نہ کبھی ہمارے مصائب و مشکلات کے ازالے کے لیے آسمانی در کھل جائیں گے، یہ قوم عزم اور ہمت کا دامن تھامے میدان عمل میں ڈٹی ہوئی ہے، باوجودیکہ اس کے سامنے مختلف لبادوں میںصرف خون کے سوداگروں اور جذبات کے تاجروں کی ایک بھیڑ جمع ہے ۔
30 ؍برس کے مسلسل جنگی ماحول نے نئی نسل کی سوچ میں اس قدر تبدیلیاں پیدا کی ہے کہ یہاں پہلے نوجوانوں میں تعلیمی اور دنیاوی کیرئیر زندگی کا اولین مقصد رہتا تھا، تعلیم کے مکمل ہونے پر اچھی نوکریوں کی تلاش رہتی تھی لیکن اب حالات کی نہج یہ ہے کہ نسل نو کی ذہنیت میں واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے ۔اس کا ثبوت موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی وہم و گمان سے ماوراء قربانیاں ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان کیوں تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق انتہائی اقدام پر راضی ہوجاتے ہیں۔ماہ مئی کے پہلے ہفتے میں ہی جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں ایک معرکہ آرائی کے دوران کشمیرکی سب سے بڑی دانش گاہ میں پروفیسر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر محمد رفیع بٹ جان بحق ہوئے ہیں۔ پروفیسر محمد رفیع کے پاس سب کچھ تھا، اعلیٰ تعلیم تھی، نوکری تھی اور پیسہ بھی تھا ، پھر کس چیز نے اُنہیں ایک ایسی پیچیدہ زندگی اختیار کرنے پر مائل یا مجبور کردیا جو صرف چالیس گھنٹوں پر مشتمل تھی۔ نفسیاتی طور پر نوجوانوںذہنوں کے اس بدلاؤ کے وجوہات کو جاننے کی ضرورت ہے، اقوام عالم کے بڑے بڑے اداروں کو تحقیق کرکے دنیا کو سچائی دکھانی چاہیے کہ کیوں دنیا کا ایک پُرامن ترین سماج اور جنگ و جدل سے ہمیشہ دور رہنے والی قوم کی نئی نسل میں اس قسم کا بدلاؤ آیا ہے۔
دنیا میں کشمیری پہلی قوم بن رہی ہے جہاں کے نوجوانوں کی نفسیاتی حالت یہ ہے کہ اُنہیں ازدواجی زندگی کے بندھن میں بندھنے، نوکری یا کسی دنیاوی آرام و آسائش کی سہولیت پانے کی خوشی میں اُن میں اُس طرح کاجنون اور تڑپ دکھائی نہیں دیتی، جس طرح نونہالوں کے جنازوں کے دوران اُن میں دکھائی دیتی ہے ۔ یہاںوردی پوشوں کی گولیوں کا شکار ہونے والے ایک ایک نوجوان کا بیس بیس بارنماز جنازہ ادا کیا جاتا ہے، لاکھوں لوگ اُن کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے اُمڈ آتے ہیں۔یہاں مائیں اپنے بیٹوں کی لاشوں کو دلھاے کی طرح سجاتی سنوارتی ہیں، اُن کے ہاتھوں میں مہندی لگاتی ہیں، اُن کے بے جان جسم کو دودھ پلایا جاتا ہے۔یہاں کہیں کہیں نوجوانوںکے حیاتِ جاوداں پانے پر واویلا نہیں کیا جاتا بلکہ اُن کے جنازوں پر خواتین مٹھائیاں نچھاور کرتی ہیں، اُن ماؤں کو مبارک باد پیش کی جاتی ہے جن کے بیٹے جرم بے گناہی میں ابدی نیند سلادئے جاتے ہیں۔ یہاں انکاؤنٹر میں پھنسے نوجوانوں کے والدین اُنہیں فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے بجائے لڑکر جان لٹانے کی نصیحتیں کرتے ہیں۔23 سال کا نوجوان اعتماد احمد جب انکاؤنٹر کے دوران اپنے والد کو فون کرکے اُنہیں الوداع کرتے ہیں تو اُن کے والد فیاض احمد اُنہیں بڑی ہی دلیری کے ساتھ یہ نصیحت کرجاتے ہیں کہ:’’بیٹے !تو ہمارے پاس اللہ کی امانت تھا، آج ہم اپنے اللہ کو یہ امانت لوٹا رہے ہیں، جرأت اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا‘‘ … یہ وہ حالات ہیں جو کشمیری قوم کے اندر پنپ رہی نئی مگر خطرناک نفسیات اورکرشماتی سوچ کی عکاسی کررہی ہے ۔ قوموں کو دنیا کی بڑی طاقتیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ امن پسندی کی اپنی روایتی صفت کو ترک کریں۔ امن پسند و مہمان نواز ہونا، انسانیت کا ہمدرد ہونا، لڑائی جھگڑوں سے دور رہنا، بھائی چارہ کی عظیم مثال ہونا، دوسروں کا احترام کرنا کشمیری قوم کی ہزار ہا صفات میں نمایاں اور خصوصی صفات ہیں لیکن اس بدنصیب خطہ کو فوجی زون میں تبدیل کرکے اسے دنیا کا سب سے بڑا فوجی جماؤ والا خطہ بنالینے سے یہاں کی مجموعی آبادی کے نفسیات پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ قوم حالات کی ابتری، ظلم و زیادتی اور مسلسل جنگی ماحول میں جینے کی وجہ سے گھٹن محسوس کررہی ہے، یہاں لوگ زندگی کی خوشیوں سے جیسے لاتعلق ہوکر رہ گئے ہیں، ہر دن اپنے عزیزوں کی لاشیں دیکھ کر کوئی بھی انسان اپنے اعصاب پر کنٹرول نہیں رہ سکے گا۔ انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ اُن کے پاس برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب یہ حد پار ہوجاتی ہے تو پھر انسان دنیاوی عیش و عشرت کے تمام آسائشوں سے بے نیاز اور لاتعلق ہوجاتا ہے۔ اس طرح کے انسانی سماج پر پھر کسی کا کنٹرول نہیں رہتا۔ جو قومیں کسی سماج کو اس طرح کے حالات میں دھکیل دیتی ہیں وہ بھی پھر اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ پاتی ہیں۔
یہاں دلی کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی بستی کا محاصرہ کرتے ہیں تو آس پاس کی پوری آبادی نہتے ہو کر مسلح فوج کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے نکل جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں فوج پھر ان نہتے لوگوں پر گولیاں چلاتی ہے اور ظلم وجبر کے تمام حدیں پار کرجاتی ہے۔ یہاں روزانہ جنازہ اُٹھتے ہیں اور ان حالات نے کشمیری نوجوان نسل کے ذہنوں پر صرف مسئلہ کشمیر کو ہی سوار کررکھا ہے۔ یہ گھمبیر صورت حال اس اعتبار سے لائق اعتناء ہے کہ نہتے ہو کر بھی کشمیری کسی بھی صورت میں قوت بازو مرعوب نہیں ہورہے ہیں اور وہ اپنی جدوجہد کے تئیں پُر عزم ہیں اور نہتے ہوکر بھی اصولوں اور حقائق کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرتے۔البتہ یہ حالات اس حیثیت سے فکرمندی اور تشویش کا باعث بھی ہیں کہ اُدھر دلی بجائے اس کے یہ کشمیر کا کوئی منصفانہ اور قابل قبول سیاسی حل ڈھونڈ نکالے جو اس کے جمہوری دعوؤں کے شایان ِ شان ہو ، مرکز کشمیر میں پائے جارہے ابتر حالات کی آڑ میں کشمیریوں کی نسل کشی کر تی جارہی ہے،اِ دھر باصلاحیت و با غیرت نوجوان جانیں لٹا رہے ہیں جب کہ دنیا میں کہیں بھی ہمارا کوئی حمایتی نظر نہیں آرہا ۔ اس طرح سے ہم انسانی وسائل اور صلاحیتوں کی ملکیت دونوں سے مسلسل محروم ہوجارہے ہیں۔ اس سچویشن کے منفی اثرات لازمی طور پر ہمارے مستقبل پر مرتب ہوجائیں گے۔
اس سے قبل جنگی حالات اور فوجی جماؤ کشمیری قوم کو مجموعی طور نفسیاتی و ذہنی طور اس حد تک متاثرکرے کہ یہاں تاریخ کا ایک عظیم انسانی المیہ وقوع پذیر ہوجائے، بھارت کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کو حالات کی نزاکت کا ادراک کرکے اس ستر سالہ مسئلے کا کوئی نہ کوئی سیاسی حل نکال لینا چاہیے۔ بار بار اور روز روز سڑکوں پر واویلا کر تے ہوئے نکلنا، احتجاج اور سنگ بازی کرنا یا کوئی اور انتہائی اقدام کر نا کشمیری نوجوانوں کا شوق نہیں ہے۔ یہ قوم بھی دیگر اقوام کی طرح پرامن زندگی گزارنے کی متمنی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ امن کی تمنا کشمیری ہی رکھتے ہیں تو بے جانہ ہوگا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جنگ و جدل کے نتائج کتنے بھیانک ہوتے ہیں، قبرستان آباد ہونا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے، اپنے قریبی عزیز و اقارب کو جیلوں میں سڑتے ہوئے دیکھ کر دل کس طرح خون کے آنسوں روتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ راتیں خوف و دہشت میں گزارنا کتنا پریشان کن ہوتا ہے، ہمیں معلوم ہے کہ روز روز کے جنازے کس طرح ہماری ذہنی صلاحیتوں کو متاثر کردیتے ہیں۔ اس لیے ہماری قوم سے زیادہ کوئی بھی امن کا خواہاں نہیں ہوگا۔ البتہ ہم عزت و آبرو کے ساتھ امن کی آرزو مند ہیں، اس لیے عالم اقوام کو مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔ بھارت اور پاکستان کو بھی ہٹ دھرمی چھوڑ دینی چاہیے۔ یہی برصغیر کے کروڑوں لوگوں کے لیے صحیح ہے اور یہ انسانیت کے لیے بھی بہتر ہوگا۔