بعض مغربی ماہرین سیاسیات کادعویٰ ہے کہ جغرافیائی تنازعات حل نہیں ہوتے، بلکہ ان کا ارتقاء ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسے تنازعات میں اپنے مواقف کو مذہبی لہجہ میں بیان کرنے سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور فریقین سانپ کو مارنے کی بجائے ریت پرلکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ مسلٔہ کشمیر کا جدید مرحلہ سات دہائیوں پر محیط ہے۔جو مسلٔہ الحاق پاکستان یا الحاق ہند کے درمیان نزاع سے شروع ہوا وہ بعد میں رائے شماری کا مسلہ بن گیا، رائے شماری کا مسلٔہ ہندمخالف جہاد میں ملفوف ہوگیا اور بعد میں آتے آتے بات یہاں تک آئی ہے کہ اب یہ تنازیہ مسلم اکثریت کی شناخت ،یہاں تک کہ بقاء کا مسلٔہ بن گیا ہے۔ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاست دوسرے طریقوں سے لڑی جانے والی جنگ ہے، بشرطیکہ سیاست بے باک اوربالغ نظر لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔
اب دیکھئے نا 2001 میں وسط ایشیا اور جنوب ایشیا میں امریکی تذویراتی خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں پاکستان امریکی سربراہی والے ہراول دستے کا سپہ سالار بن گیا۔گزشتہ 14سالہ عرصہ میں 6500فوجی اورنیم فوجی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ 70ہزار پاکستانی انسداد دہشت گردی کے آپریشنوں میں مارے گئے، ڈیڑھ لاکھ لوگ زخمی ہیں اور لاکھوں لوگوں کے گھر اُجڑ گئے ہیں۔مالی نقصان کا تخمینہ 12000کروڑ روپے تک لگایا گیا ہے۔ اور پھر اس جنگ کے دوران پاکستان کے تعلقات افغانستان اور بھارت کے ساتھ حد درجہ خراب ہوگئے۔ اب تان اس بات پر ٹوٹی ہے کہ ’’حافظ سعید اور صلاح الدین کا کیا کرنا ہے‘‘۔ حالانکہ صلاح الدین کو پاکستان کی کشمیر پالیسی کے نگہبان اور حافظ سعیدکو افغان پالیسی کے محافظ کے طور آج تک پروجیکٹ کیا گیا۔
بھارت کی جارحانہ سفارتکاری اور عالمی اثر ورسوخ کے طفیل اب پاکستان کو پوری دنیا کے لئے ایک ’’برائی‘‘ ثابت کیا جارہا ہے اور دہشت گردی کی اس مبینہ آماجگاہ کو سبھی قوتیں تہہ و بالا کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ بہرحال پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے حافظ سعید کے سیاسی کیرئر کی سبیل شروع کردی ہے۔ انہوں نے نواز شریف کی معزولی کے بعد خالی ہوئے حلقہ انتخاب پر ضمنی الیکشن بالواسطہ طور لڑا اور اب یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے سال پاکستان کی سبھی سیٹوں پر چناؤ لڑیں گے۔حافظ سعید کے سر پر امریکہ نے 10ملین ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے اور بھارت انہیں ممبی حملوں کا ماسٹرمائنڈ اور کشمیر جہاد کا منصوبہ ساز سمجھتا ہے۔ وہ نظر بند بھی ہیں، لیکن حافظ سعید ایک سیاسی برانڈ کے طور پر تیار ہیں۔
دلچسپ امر ہے کہ حافظ سعید دکی سیاسی کارکردگی ان کی شبیہ کے ساتھ متصادم ہے۔ وہ پاکستان میں دھرنے دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دھرنے میں یاسین ملک نے شرکت کی تو انڈین میڈیا نے ان کی کھچائی کردی۔ پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے تو برملاء کہہ دیا ہے کہ ’’حافظ سعید پاکستانی قوم پر بوجھ ہیں‘‘۔ لیکن حافظ سعید نے کسی ملی ٹینٹ لیڈرکی طرح ردعمل نہیں دکھایا۔ انہوں نے عدالت سے رجوع کرکے خواجہ آصف پر ہتک عزت کے عوض دس کروڑ روپے کے ہرجانہ کا مقدمہ ٹھوک دیا ہے۔ مطلب حافظ سعید نظر بندی کے باوجود ایک باقاعدہ سیاستدان کی طرح سرگرم ہیں، جنہیں ملک کے اداروں اور موجودہ نظام سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ وہ اقتدار کی سیاست میں آنا چاہتے ہیں۔
ظاہر ہے حالات پلٹ گئے ہیں۔ مسلح پراکسیز پر پاکستان کے کان کھینچے جارہے ہیں۔ حالانکہ آج تک پاکستان کا کوئی سپہ سالار یا سیاسی سورما امریکیوں کو یہ بتانے سے قاصر رہا ہے کہ اگر مسلح گروپوں کی حمایت دہشت گردی ہے توامریکہ کے صدر ریگن سب سے بڑے دہشت گرد تھے ۔رونالڈ ریگن ہی تھے جنہوں نے افغانستان کے سات مسلح کمانڈروں کی وائٹ ہاؤس میں خاطر تواضع کی اور انہیںامریکہ کے بانیوں کی طرح مقدس شخصیات قرار دے کر سویت مخالف جہاد کے لئے بے تحاشہ امداد کا یقین دلایا۔اس کے برعکس امریکہ کی پیالہ برداری میں پاکستان دنیا بھرکی جنگیں اپنے ہی وطن میں لڑتا رہا جبکہ بھارت اپنی جنگیں قندہار، بلوچستان اور کشمیر میں لڑتا رہا۔ بھارت فی الوقت کشمیر سمیت 17مسلح علیحدگی پسند تحریکوں کو منیج کررہا ہے، لیکن پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہورہا ہے ۔اور اب اس ملک کے گرد سفارتی گھیراؤ اس قدر تنگ کردیا گیا ہے، کہ فوجی قیادت بھی غیرفوجی مسلح اثاثوںکو ٹھکانے لگانے کا پراسیس شروع کررہی ہے۔ حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ نے ’’ملی مسلم لیگ‘‘ نام سے سیاسی تنظیم بنائی ہے، اور دیرینہ جہادی کلچر کو ایک نئے سیاسی کلچر کے طور فروغ دیا جارہا ہے۔ بادی النظر میں یہ ایک احسن تبدیلی ہے، ایک عمدہ ارتقاء ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کشمیر میں بھی ایسے ہی کسی ارتقا ء سے خائف کیوں ہے؟
پاکستان کو کشمیر کے زمینی حالات کو سمجھنا چاہیے۔ ہندوانتہاپسندی کے انقلاب نے بھارت کے ساتھ ساتھ کشمیر کے حالات کو بھی ایک نئے ارتقاء سے دوچار کردیا ہے۔ فی الوقت دلی والے تین مرحلوں پر کام کررہے ہیں۔ چند سو مسلح عسکریت پسندوں کے خلاف دنیا کی پانچویں بڑی فوج اپنی پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہے، مزاحمتی قیادت ، سول سوسائیٹی ، تاجروں، وکلا اور دانشوروں کے گرد این آئی اے کا جال بچھایا گیا ہے۔رہی بات اقتدار پسند خیمے کی تو اسے ٹھکانے لگانے کا انتظام مکمل ہوچکا ہے۔اس سب پر عالمی برادری نے ابھی تک لب کشائی کی نہ کرے گی۔پاکستان کی طرح کشمیر کو بھی فی الوقت سیاسی، سفارتی اور عسکری سطح پرتہرے محاصرے کا سامنا ہے۔ کیا ہمارے یہاں کے’ حافظ سعید‘ کسی سیاسی ارتقاء کے لئے تیار ہیں؟ کیا موجودہ بیانیہ کو قومی اتحاد میں پرونے کے لئے پاکستان ایسے کسی تجربے میں حائل ہوگا یا اس کا سہولت کار ؟ کیا بھارتی ایجنسیوں اور جنرلوں کی تجوریاں بھرنے والی تشدد کی پالیسی کو خیر باد کہا جائے گا؟ کیا ایک ہمہ گیر قومی اتحاد کے لئے خود حریت کانفرنس تیار ہے؟ کیا قوم کی بقاء کو ذاتوں کی مسابقت پر ترجیح دی جائے گی؟ آئندہ ایام کے دوران ان سوالوں پر قومی سطح کی بحث ہو تو یہ مفید بحث ہوگی۔
بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم