بلا شبہ ہر وہ کھیل جو اس شرط کے تحت کھیلا جائےکہ ناکام ہونے والے کی کوئی چیز یا رقم جیتنے والےکو دی جائے،قمار بازی کے زمرے میں آجاتی ہے۔اس لئے ہر وہ کھیل جس میں استحصال ، فریب یا دھوکہ بازی سے آسانی و سہولت سے کچھ حاصل ہونے یا ضائع ہونے کی توقع ہو ،وہ بھی جوابازی کہلاتی ہےاور جسے انگریزی میں Gambling کہتے ہیںجبکہ وہ تمام کھیل وکود جس میں کچھ کھونے یا پانے کا معاملہ نہ ہو اور محض وقت گذاری یا جسمانی ورزش کی خاطر ہو ، قمار بازی یا جوے کے زمرے سے خارج ہیں۔ جہاں کہیں بھی دو یادو سے زیادہ آدمی آپس میں اس طرح کوئی معاملہ کریں، جس کے نتیجے میں ہر آدمی کسی غیر یقینی واقعہ کی بنیاد پر اپنا مال اس طرح داؤپر لگائے کہ وہ مال یاتو کسی قسم کے معاوضہ اور بدل کے بغیر دوسرے آدمی کے پاس چلا جائے یا دوسرے آدمی کا مال معاوضہ اور بدل کے بغیر پہلے آدمی کو مل جائے،جوے اور سَٹے کی ہی وہ شکل ہے،جس میں غیر یقینی اور غیر اختیاری سبب سے یا تو اصل رقم بھی نہیں ملتی یامزید رقم کھینچ کر آتی ہے۔ان اعمال کی وجہ سے معاشرے میں جرائم، غیر انسانی حرکات، حرام خوری کی عادت اور محنت ومزدوری سے اجتناب کو فروغ ملتا ہے۔ظاہر ہے کہ جب مال بغیر محنت کے آتا اور جاتا ہے تو انسان تباہ وبرباد ہوجاتا ہے، دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے، آخری داؤ کے لئے بیوی بچوں کا بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا ہےاور اس طرح اپنی ساری غیرت کا جنازہ نکلال دیتا ہے۔چنانچہ موجود عالمی معاشرے کےکچھ عناصر نے جن بے ہودہ کاموں کو فروغ دیا ہے، ان میں جوئے ،قمار بازی کی کثرت اور کسینوں کی تجارت بھی ہےجس میں مال میں بڑھوتری توہوتی نہیں ہے،صرف ہارنے والے کا مال جیتنے والے کے پاس چلا جاتا ہے، حالانکہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ مال کا ارتکاز نہ ہو، اسے مسلسل گردش میں رہنا چاہیے تاکہ اس میں اضافہ ہوتا رہےلیکن یہ اضافہ کسبِ حلال کے ذریعہ ہو، جوا، سود، رشوت اور غصب کے ذریعہ نہ ہو۔لیکن جوئے یا سٹہ بازی میں مال ناجائز طریقہ پر حاصل کرنا اور کھانا لازم آتا ہے، اس کے علاوہ اکثر جواریوں کو چوری اور دیگرکئی جرائم میں ملوث ہوتے ہوئےبھی دیکھا گیا ہے، جوئے میں مشغولیت کی وجہ سےجواری کو اپنے بچوں اور گھروالوں کا خیال نہیں رہتا اوروہ بُرے اور خطرناک جرائم کے کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ جوے اور سٹے کا نشہ انسان کےذہن و دماغ پراس قدر چھا جاتا ہے کہ اخلاق ِحسنہ اور شرعی احکام کے بجالانے سے وہ کوسوں دور ہوجاتا ہے۔اسی لئے شریعت اسلامی میں کسب ِحلال پر زور دیا گیا ہے اور مالِ حرام کے حصول کے تمام ذرائع کو ممنوعات میں شامل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہےکہ ’’باطل طریقہ سے ایک دوسرے کا مال مت کھاؤ۔‘‘ (سورہ بقرہ۔:188)۔ باطل طریقہ سے مال کے حصول کا ذریعہ جوا اور سٹہ بھی ہے، شطرنج کے کھیل میں اگر شرط لگائی گئی ہو تو وہ بھی جوےکے حکم میں آجاتا ہےجبکہ جوۓ اور سٹےکو شیطانی کام سے تعبیر کیاگیا اور اس سے بچتے رہنے کی سخت تاکید کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعے آپس میں بغض اور دشمنی پیدا نہ ہوجائے۔چنانچہ اس جدید دور میںبعض بڑی بڑی کمپنیاںاپنے مارکیٹ کو وسیع کرنے کے لئےجو شکلیں اختیار کرچکی ہیں اور زنجیر کی طرح صارفین کو منافع کا لالچ دیکر جوڑتی جاتی رہتی ہیں اور اگلے ممبر بنانے پر منافع کا یقین دلاتی ہیں، فقہاء کے نزدیک یہ سب جوئے اور سٹے کی ہی شکلیں ہیں۔اسی طرح گھوڑ دوڑ میں سٹے لگانا، کھیل میں جیت ہار پر مالی شرطیں لگانا، انعامی کوپن اسکیم، بند ڈبوں کی تجارت جن میں بعض میں سامان ہو اور بعض خالی رکھے گئے ہوں، شرکت میں نفع ونقصان کی قرعہ اندازی سے تقسیم، قرعہ ڈال کر ایک دوسرے کا مال کھانا، ممبر دَر ممبر بنانے کی اسکیم، چٹھی ڈال کر رقم حاصل کرنے کی بعض صورتیں، امداد باہمی کے نام پر قمار، آن لائن معمے، لاٹری کے ٹکٹ کی خرید وفروخت اور دوسری جدید صورتیں، یہ سب جوا اور سٹہ ہونے کی وجہ سے حرام ہیں اور کسبِ حرام کےزمرے میں آتی ہیں۔ ممکن ہے تنقیح کے بعد ان میں سے بعض صورتیں جواز کے درجہ میں آجائیں، لیکن غالب عنصر چونکہ قمار، جوا، سٹہ اور مخاطرہ کا ہی ان میں پایا جاتا ہے، اس لیے ان سے احتیاط کے طورپر اجتناب ہی بہتر ہے۔