اعجاز میر+اشرف چراغ
سرینگر+کپوارہ // کرناہ کے دھنی سعدپورہ میں سینکڑوں کنال اراضی پر پھیلے دھان کے کھیت سوکھ رہے ہیں کیونکہ پچھلے 11روز سے لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے کھیتوں کی سینچائی کیلئے پانی نہیں چھوڑا جارہا ہے۔صورتحال اس قدر مخدوش ہوگئی ہے کہ دھنی ، سعد پورہ ، ٹاڈ اور گبراہ کے کھیت بنجر بن رہے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہاں کے کھیتوں میں فصل کا انحصار سرحد پار کے پانی پر ہے ۔ حدمتارکہ پر واقعہ کرناہ میں سینکڑوں کنال اراضی پر پھیلی دھان کی فصل امسال بھی تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔ گائوں والوں کا کہنا ہے کہ اس باربھی سرحد پار سے ان کے کھیتوں کو پانی بند کر دیا گیا ہے ۔ انہوں نے ہندوپاک حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ فلیگ میٹنگ منعقد کر کے پانی چھوڑنے کی راہ ہموار کی جائے۔
۔12روز سے بند
لوگوںکا کہنا ہے کہ6 سال قبل لوگوں کو اس مشکلات سے نکالنے کیلئے فوج اور انتظامیہ نے لاکھوں روپے کی لاگت سے لفٹ اری گیشن سکیم شروع کی جس کا مقصد کھیتوں کو اپنے ہی علاقے میں داخل ہونے والے نالہ کاجی ناگ سے پانی فراہم کیاجانا تھا۔فوج کی سدبھاونہ سکیم کے تحت پمپ نصب کر کے ایک جرنیٹر بھی لگایا گیالیکن یہ سکیم زیادہ دیر نہیں چل سکی اور بندہوگئی ۔گائوں کے ایک معزز شہری شفیق احمد لون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پانی کا ایک قطرہ بھی سرحد پار سے یہاں نہیں چھوڑ ا جارہا ہے۔حالانکہ ماضی کی طرح انسانی بنیادوں پر انہیں پانی چھوڑنا تھا۔ شفیق نے کہا کہ ہم اپنے کھیتوں سے سال بھر کا راشن حاصل کرتے ہیں لیکن ہر سال پانی کی عدم دستیابی کے نتیجے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ ہمیں اس بات کی کوئی علمیت نہیں کہ پانی کیوں نہیں چھوڑا جارہا ہے ، حالانکہ پچھلے دنوں 12دن بعد پانی صرف 2گھنٹوں کے لئے چھوڑا گیالیکن اُس سے ہمارے کھیت سیراب نہیں ہو سکے ۔گائوں کے سرپنچ ذاکر حسین نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہاں 3دیہات کے مشترکہ دھان کے کھیت ہیں جو 3مقامات پر ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر 1400کنال کی اراضی سوکھ گئی ہے اور اس پر موجود دھان کی فصل تباہ ہورہی ہے۔
پانی چھوڑنے کی روایت
پانی کا انتظار کررہے شفیق نے کہا ’’ یہاں صرف سعدپورہ گائوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے کھیت نہیں ہیں بلکہ دھنی ، ہجترہ اور کچھ ایک کھیت گبراہ کے لوگوں کے بھی ہیں ۔شفیق نے کہا کہ اب وہ دن بھی نہیں رہے کہ آواز دیکر پھر ہاتھ ہلا کر پانی چھوڑنے کے بارے میں اشارہ کرتے ۔ معلوم رہے کہ جموں وکشمیر کے دھنی اور سعدپورہ کرناہ ایسے علاقے ہیں جہاں کے کھیتوں کو کئی دہائیوں سے پاکستانی زیر انتظام کشمیرسے پانی فراہم ہوتا رہا ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ 1947سے قبل دھنی سعدپورہ اور سرحد پار لیپا کے زیر قبضہ سعدپورہ گائوں ایک تھے لیکن تقسیم کے بعد اس گائوں کے 2 حصے ہو گئے ایک حصہ سرحد کے اُس پار لیپا علاقے میں اور ایک حصہ یہاں کرناہ میں آگیا ۔ تقسیم کے بعد یہاں کے لوگوں کو پانی کے حوالے سے کافی دقتوں کا سامنا رہا ۔ مقامی کسانوں کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ فصلوں کی بوائی سے قبل آر پار افواج کی ایک فلیگ میٹنگ ہوتی تھی، جس کے بعد یہاں سے گائوں کا نمبر دار سرپنچ ،چوکیدار اور دیگر معزز شہریوں کا ایک وفداور سرحد پار کا بھی ایک وفد سرحد پر اپنے اپنے حدود میں ایک دوسرے سے بات کر کے پانی چھوڑنے کے نظام الاوقات طے کرتے تھے۔اتنا ہی نہیں بلکہ نالے کی صفائی پر اُس پار کے لوگوں کو اپنے حصہ کے پیسے بھی دیتے تھے۔یہ پیسہ گائوں والے چندہ جمع کر کے اُس پار ایک رومال میں باند ھ کر پھینکتے تھے۔ لیکن یہ روایت بھی ختم ہوگئی ہے۔
نالہ کاجی ناگ
سرحدپار کی لیپا ویلی علاقے سے ہو کر آنے والا نالہ کاجی ناگ جب کرناہ کے سعدپورہ علاقے میں داخل ہوتا ہے تو یہ سرحد بنتا ہے اور یہاں نالے کا پانی سینکڑوں کنال اراضی کی سینچائی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس نالے کا بہائو سرحد پار سے شروع ہوتا ہے، بعد میں یہ نالہ کرناہ کے کچھ علاقوں سے گذرکر دوبارہ سر حد کے اس پار بہتا ہے۔ جہاں سرحد کے حدود شروع ہوتے ہیں وہاں سے پانی آسانی سے کھیتوںکوسیراب کر تاہے لیکن پانی چھوڑنے کا انحصار سرحد پار کے لوگوں پر ہے جواب پانی کی فراہمی سے متعلق سنجیدہ نظر نہیںآرہے ہیں ۔سعد پورہ کے نزدیک سرحد کی تار بندی ہے۔ یہاں سے نالہ کاجی ناگ داخل ہوتا ہے اور اسکے بعد سعد پورہ سے ٹاڈ، پنجتاراںسے ہوکر سرما پڑی ، جہاں اسکے ساتھ نالہ بتہ موجی بھی مل جاتا ہے، پھر یہ بڑے نالے کی شکل میں پنگلہ، بری ڈل، گنڈ شاٹھ، درنگلا اور ٹیٹوال میں کشن گنگا سے مل کر سرحد کے اس پار بہتا ہے۔
لوگوں کا مطالبہ
مقامی لوگوں کاہندوپاک حکام سے مطالبہ ہے کہ کھیتوں کی سینچائی کیلئے پانی فراہم کرانے کیلئے انسانی جذبہ کے تحت فوری اقدامات کئے جائیں ۔مقامی زمینداروں نے یو ٹی اور مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کے حوالے سے فلیگ میٹنگ کرائی جائے تاکہ زمینوں میں اُگائی گئی دھان کی فصل کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکے۔