زمانہ ہوگیا جب جموں کشمیر میںقانون سازیہ کی حاجت آن پڑی تو ایک ہی جماعت کے سبھی اراکین’’ بلا مقابلہ ‘‘ کامیاب ہوگئے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ خالق کائینات نے ایک ’’خالق‘ ‘ کو ڈپٹی کمشنر بنایا اورانہوں نے منہ زور حوصلہ مندوں کو اسمبلی کا پروانہ پرچیوں پر لکھ کے دیاانہیں ’’خالق میڈ ایم ایل اے ‘‘ کے طور ایوان میں بھیجا۔سات دہائیوں کے دوران جمہوریت کے نام پر بہت کچھ ہوا۔باقاعدہ وزیراعظم معزول ہوگئے، انہیں اپنے ہی ایک پولیس افسر نے گرفتار کرلیا، اسمبلی کے اختیارات کو قبض کی دوا کھلائی جاتی رہی اور بعد میں جلاب کی ایسی گولی کھلائی گئی کہ یکایک وزیراعظم کا عہدہ پگل کر وزیراعلیٰ ہوگیا اور صدر ریاست کی کرسی اُڑ کر دلی چلی گئی۔
لیکن اس سب کے دوران جمہوریت کا ڈول اس قدر پیٹا گیا کہ کشمیری عوام نے اسی راستے اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی کی لڑائی لڑنا چاہی۔ چونکہ جمہوریت کا لیبل مہین تھا، اُمیدوار عوامی امنگوں کی کوکھ سے پھوٹنے لگے تو جمہوریت کی قبا چاک ہوگئی اور اس میں سے خاک و خون کا وہ سیلاب اُمڈ آیا جس کی اندوہناک لہریں ظالم قوتوں کے لئے ایک للکار ضرور تھیں، لیکن قوم ان لہروں کے تھپیڑوں سے ابھی تک جوجھ رہی ہے۔
لیکن اس للکار کو جہاں پوری طاقت سے دبایا گیا وہیں ایک بار پھر جمہوریت کا بگل زور و شور سے بجا۔ستم یہ ہواکہ ہوس اقتدار میں غرق جن لوگوں نے جمہوریت کی قبا چاک کی تھی، انہیں دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھایا گیا اور ووٹنگ محض پانچ فی صد۔ضدانقلاب کا جو برادرکش ٹولہ کل تک عوامی حلقوں میں لعن طعن کا ہدف تھا، وہی عوام کی تقدیر کا مالک بن بیٹھا، اور تپاک سے چلّا نے لگا، جمہوریت زندہ آباد!
یہی نہیں، انقلاب کے سرخیل بھی ایوان کی زینت بن بیٹھے اور بعد میں انہوں نے وہ سب قلم زنی کے ذریعہ کرنا چاہا جو ان کے بعض ساتھیوں نے تیغ زنی سے کیا تھا۔لیکن جمہوریت کی چکی چلتی رہی ۔ مراعات، دبدبہ اور اشرافیہ کے جبری دستار نے قوم کے بطن سے ایک نیاہی وی آئی پی گروہ پیدا کردیاجسے دیکھ کر کئی لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔بقول حسرت :
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آیا ، بدلی میری نیت بھی
لال بتی لگی گاڑیوں کے کاروان،سرکاری بنگلوں میں ستم رسیدہ لوگوں کی درخواستیں لیتے ہوئے صاحبان حل و عقد اور وردی والوں کا دبدبہ ، اس سب کو جمہوریت کہا گیا۔اور پروپگنڈا کا کمال دیکھئے، جب کبھی کسی معصوم کو قتل کیا جاتا یا گرفتار کیا جاتا، تو اس عمل کو مزاحمتی حلقے بھی ’’غیرجمہوری‘‘ قرار دیتے تھے، گویا جمہوریت نے واقعی ڈیرہ جمالیا تھا اور اِکا دُکا ’’غیر جمہوری ‘‘ حادثات رونما ہو تے تھے۔وقت کا پہیہ چلتا رہا اور پھر نئے تجربات ہوئے، متبادل گروہ سامنے آئے،بائیکاٹ کا اثر ختم ہوگیا اور کہا گیا کہ اصلی جمہوریت 1977کے بعد پہلی بار قائم ہوئی ہے، کیونکہ نہ تب دھاندلی ہوئی تھی نہ ابھی ہوئی ہے۔اتنے میں سرکاری افسر وجاہت حبیب اللہ نے ایک عدد کتاب لکھ کر اس مفروضے کو پاش پاش کردیا اور انکشاف کیا کہ 1977میں بی ایس ایف کے ایک افسر نے انہیں الیکشن میں مداخلت کے لئے دھمکی دی تھی۔
’’اصلی جمہوریت ‘‘ کے اس دور میں تو سب کے وارے نیارے ہوگئے۔سابق انقلابی سیاستدان بن گئے اور سابق افسر وزیر۔کرپٹ افسروں اور ایمبشس تاجر نئی سیاسی لہر کے سپانسر ٹھہرے اور نوجوان افسروں کا ایک نیا ٹولہ وجود میں آیا جو سوشل میڈیا کے ذریعہ سرکارکے تلخ بیانیہ پر گڑلگانے کا کام کرنے لگا۔
اس لمبی چوڑی کہانی کے اعادہ سے بات جو سمجھنی ہے وہ یہ کہ جمہوریت سے عوام نہیں بلکہ ایک ٹولہ بااختیار ہوگیااور بااختیار ہی نہیں بلکہ اس ٹولہ کو باقاعدہ عوامی سرمایہ سے خریدا جاتا رہا۔اور جمہوریت کے نام پر وفاداریاں خریدنے کا یہ عمل اب بھی جاری ہے۔پورے ہندوستان میں افسرشاہی پر اتنا سرمایہ خرچ نہیں ہوتا جتنا کشمیر میں ہوتا ہے۔ ایک طرف صنعت کاری کو فروغ دینے کے دعوے مگردوسری طرف ملازمتوں کے عوض ووٹ اور سپورٹ خریدنے کا کلچر جاری۔ افسروں اور ملازموں کی عیش کوشی کے لئے 30ہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم سالانہ خرچ کرکے کشمیر کو کنگال کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ’’عوامی خدمت‘‘ کا دعویٰ کرنے والے اراکین اسمبلی کے لئے فائیو سٹار تنخواہیں اور مرعات۔
قوانین میں نئی ترمیم یہ ہے کہ ممبران اسمبلی کے روزانہ الاؤنس میں سو فی صداضافہ کیا گیااور سفر خرچہ ایک لاکھ سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ کردیا گیا جبکہ ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔حلقہ انتخابات میں تعمیر و ترقی کے لئے جو رقم ممبراسمبلی کو ملتی ہے اسے پہلے ہی ڈیڑھ کروڑ سے تین کروڑ تک پہنچادیا گیا ہے، جس سے خزانہ عامرہ پر مزید 187کروڑ روپے کا بوجھ بڑھ گیا۔اراکین اسمبلی کی سیکورٹی اور ہاؤسنگ پر جوبھاری رقومات خرچ ہوتی ہیں سو الگ۔ حالانکہ جب حالات کشیدہ ہوتے ہیں اور عوام سڑکوں پر اُمڈآتے ہیں تو یہی اراکین اسمبلی اور وزراء سرکاری کوٹھیوں میں خود کو قید کرتے ہیں یا جموں چلے جاتے ہیں۔ اقتدار کا یہ سارا سٹرکچر ہی کرایہ کی جمہوریت لگتی ہے، کیونکہ جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ عوام کو با اختیار بناتی ہے، عوام کے سماجی، سیاسی اور مذہبی حقوق کا دفاع کرتی ہے، عوام کو اظہار رائے کی آزادی سے بہرہ ور کرتی ہے اور آمریت و مطلق العنانیت کے جرثوموں کو ختم کرتی ہے۔لیکن کشمیر میں کرایہ کی جمہوریت قائم رکھنے کے لئے اسے بڑے پیمانہ پر فنڈ کیا جاتا ہے اور یہ خرچہ غریب اور بے خبر عوام کی جیبوں سے ٹیکس کی صورت میں چرایا جاتا ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر