کتابوںکے عالمی دن کاآغاز۱۶۱۶ء میںاسپین سے ہوا۔اسپین کے شمال مشرق کیٹولینامیںہرسال ۲۳؍مارچ سے ۲۵؍مارچ تک لوگ اپنے احباب کوگلاب کے پھول پیش کرتے اورمشہورناول،شیکسپئیرؔکے ڈرامے ایک دوسرے کوسناتے تھے۔رفتہ رفتہ یہ روایت دوسرے علاقوںمیںبھی مروج ہوگئی اوراس نے کتابوںکے عالمی دن کی شکل اختیارکرلی۔۱۹۹۵ء میںاقوام متحدہ کے ادارے یونیسکوکی جنرل کونسل کااجلاس فرانس میںہوا،جس میںاس ادارے نے۲۳؍اپریل کو’’ورلڈبک ڈے اینڈکاپی رائٹس ڈے‘‘قراردیا،جس کے بعددنیاکے کئی ممالک نے اسے منانے کاآغازکیا۔
برصغیرکی علمی روایت ہمیشہ علم وآگہی کے چراغوں سے روشن رہی ہے۔ حالات وواقعات کے حوالے سے اچھے برے موسم آئے،خزاں اوربہاروںنے بھی ڈیرے ڈالے،طوفان اوربادوباراںنے بھی اپنا سکہ جمایا لیکن یہ چراغ اپنی حفاظت خودکرتے رہے۔علمی سفرایک مسلسل جدوجہدکانام ہے۔ہرانسان کابنیادی حق ہے کہ وہ تعلیم کے زیورسے آراستہ ہوجائے اور وہ بھی تعلیم کا ایسا بحر بیکراں جو محدودیتوں، تنگ دامانیوں اور تعصبات کی زیر آب چٹانوں سے آزاد ہو۔اسلام میں علم اورتحصیل علم کوانتہائی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخ کے اوراق آج تک گیلان کی اس برگزیدہ ہستی کویادکر تے ہیں جسے چھ سات سال کی عمر میں والدہ نے چنداشرفیاںدے کرایک قافلے کے ہمراہ کردیاکہ وہ بچہ علم حاصل کرے۔یہی بچہ بڑاہوکر شیخ سیدعبدالقادرجیلانی ؒ کے نام سے عا لم اسلام کے علمی مر کز بغدادمیںآفتاب ِ رُشدوہدایت بن کرچمکا۔دوسری طرف یمن میں اقامت پذیر سادات کی وہ سعادت مندبیٹی ہے جس نے علم پرور ماں کی حیثیت سے مالی مشکلات کے باوجوداپنے بیٹے کودین کاروشن دماغ ،عالی ظرف،سیرچشم ،ذہین وفطین عالم بنانے کیلئے اپنے لخت جگر۔۔۔ امام شافعی ؒ۔۔۔ کو مکہ معظمہ بھیجا ۔ مائیںبچوںکوآج بھی حصول تعلیم کے لئے لمبے اسفارپربھیجتی ہیںتاکہ وہ دولت وشہرت حاصل کریںلیکن امام شافعیؒ کی ماں کوصرف ایک ہی فکر لاحق رہی کہ اس کانورِنظراللہ کی کتاب اورسنت رسول ؐکاعلم حاصل کرے اوردنیاکے انسانوںکواس مزرعِ آخرت میںایسی فصل بونے کے قابل بنادے جس کاپھل انہیںجنت کی شکل میںعطاہوجائے۔علم انسان کاامتیازی وصف ہی نہیں بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے،جس کی تکمیل کاواحدذریعہ مطالعہ اور مشاہدہ ہے۔مطالعۂ کتب عملی استعداد حاصل کر نے کی کنجی اورصلاحیتوںکو مہمیزدینے کابہترین وسیلہ ہے اور نظروفکر کی کائنات کووسیع سے وسیع ترکرنے کابہترین سرمایہ۔شورشؔ کا شمیری نے لکھاہے’’کسی مقررکابلامطالعہ تقریرکرناایساہے جیسے بہارکے بغیربسنت منانایالُومیںپتنگ اڑانا۔‘‘اورامام شافعیؒ کاخیال ہے کہ’’علم ایک شکارکے مانند ہے،کتابت کے ذریعے اسے قیدکرو۔‘‘
اسلام نے تلقین کی کہ تحصیل علم ایک مقدس فریضہ ہے۔اسلام کے تصور تعلیم کا معجز نمااثر یہ تھاکہ اسلامی دنیامیں روزاول سے علمی تحقیق وتجسس کاذوق وشوق سرعت کے ساتھ پھیلتاگیا۔کتاب وحکمت کی یہی تعلیم ہے جس کی بدولت انسانوںنے طبعی کائنات کی قوتوںکومسخرکیااورانھیںاپنے تصرف میںلایا۔کتاب ایک مسلمہ حقیقت ہے،اسے ہردور،ہرزمانہ میںفضیلت حاصل رہی ہے۔بقول حکیم محمدسعیدشہید’’انسانی تہذیب کے دورمیںکتاب کوبلندمقام حاصل رہاہے۔بلاخوب تردیدیہ کہاجاسکتاہے کہ تہذیب انسانی کاکوئی دورایسانہیںگزراجوکتاب سے تہی دامن رہاہواورفکرکتاب سے آزادہوجائے۔دراصل کتابیںبلندخیالات اورسنہری جزبات کی دستاویزی یادگاریںہوتی ہیں۔کتابیںبحرِحیات کی سیپیاںہیںجن میںپراسرار موتی بندہیں۔‘‘
کتابیںمعلومات کے ثمرداردرختوںکے باغ ہیں،گزرے ہوئے بزرگوںکے دھڑکتے دل ہیں،حسن وجمال کے آئینے ہیںاوروقت کی گزری ہوئی بہاروںکے عکس ہیں۔کتابیںلافانی بلبلیںہیں،جوزندگی کے پھولوںپرسرمدی نغمے گاتی ہیں۔محی الدین ابن عربیؒ کے خیال میں’’کتاب پھلوںکاایک ایساباغ ہے کہ اسے ساتھ لئے پھرواورجہاںچاہواس سے خوشہ چینی کرلو‘‘۔درحقیقت کتاب ایک ایسی روشنی ہے جس نے گزرے زمانے کی شمع کوکسی لمحہ مدہم ہونے نہیںدیا۔زمانے کی ترقی اسی منارئہ نورکی مرہونِ منت ہے۔یہ فاصلوںکی بازگشت ہے اورخاموشیوں کی آوازیںہیں۔
بر طانوی مصنف البیرونی نے لکھاہے ’’خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیاروںکاکام دیتی ہیں‘‘۔کتاب لق و دق صحرا میںمونس ہے،ایک ایسا دوست جو کبھی اشتعال نہیں دلاتی، ایسا ہمدم جو کبھی تکبر میں نہیں ڈالتی، ایسا رفیق جو افسردہ نہیں کرتی ، ایسا پڑوسی جو ہم سے آگے نکلنا نہیں چاہتی۔ ایسا ساتھی جو خوشامد و تملق سے تمہارا مال لینا نہیں چاہے گی۔ فریب کا معاملہ کرتی ہے نہ جھوٹ اور نفاق سے دھوکہ دیتی ۔کتاب ہی وہ دل نواز ہے جس کو دیکھو تو مسرت بڑھ جاتی ہے، ذہن تازہ رہتا ہے۔ پاکیزہ نفس عمدہ ہوتا ہے، سینہ آباد ہوتا ہے۔ کتابوں سے تعلق ، لوگوں کی نظر میں آپ کی تعظیم میں اضافہ کرتی ہے۔ کتاب ہماری اطاعت رات میں بھی ایسے ہی کرتی ہے جیسے دن میں ، سفر و حضر میں یکساں ہمارا کہامانتی ہے ۔ وہ نیند کا بہانہ کرتی ہے نہ رات میں جگنے کا۔ وہ ایسا معلم ہے جس کی آپ کو ضرورت پڑے تو کبھی پیچھے نہ ہٹے گا۔ بُرے ہم نشین سے بچاتی ہے۔ بے کار خواہشوں ، لہو و لعب اور آرام پسندی سے محفوظ رکھتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر مختلف نظریاتی لہروں اور فکری سمتوں کی باہمی آویزش اور ٹکرکا دور ہے۔ تصادم اور کشمکش کی اس فضا میں کمزور نظریاتی بنیادوں پر کھڑی اقوام زبردست خطرے میں ہیں۔ طاقت ور اقوام کی طرف سے تمدنی علمی،تہذیبی اورسیاسی یلغارنے بھرپورحملے کارنگ اختیارکرلیاہے۔ان پُرآشوب حالات میں کوئی ایسی قوم ابھر ہی نہیں سکتی جو دوسروں کے ذہنی افکار کی دریوزہ گری کرتی پھرے اورجس کے پاس ایک مضبوط فکری اورعلمی انقلاب بپاکرنے کیلئے کوئی نظریاتی اثاثہ اور سرمایہ نہ ہو۔کتاب کی ورق گرادنی میں گم ہونا درحقیقت ذہن سے برسوں کی گرد جھاڑ دیتا ہے۔ علم و حکمت کے سمندر میں سفر کرنے کے لئے مطالعے کا سفینہ لازم وملزوم ہے۔ اعلیٰ نظریات و تصورات، خیالات اور تخیلات ،مطالعہ کا زینہ عبور کرتے ہی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں،تو اس چمن رنگ و بو کے گل گشت بنئے ، اس جام شریں کے رسیا اور حافظؔ کی طرح ’’فراغتے و کتابے و گوشہ چمنے‘‘ کا عملی مظہر بنیں۔
دنیا کی عظیم سوانح ہائے حیات دیکھیں تو ان کی کامیابی کے پیچھے کتب بینی کارفرما نظر آتی ہیں۔ کوفے کے مشہور مصنف جاحظؔ کتب فروشوں کی دکانیں کرائے پر لے کر ساری رات کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ ممتاز فلسفی ابن رشدؔ اپنی زندگی میں صرف دو راتوں کومطالعہ نہیں کر سکے کیونکہ ان دو راتوں میں ان کے قریبی عزیز وفات پا گئے تھے۔ خلیفہ عباس المتوکل کے وزیر فتح بن خاقانؔ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے۔ جب بھی سرکاری کاموں سے ذرا فرصت ملتی، کتاب نکال کر پڑھنے لگتے۔ امام رازیؒ کو اس با ت کا افسوس تھا کہ کھانے کا وقت مطالعہ کے بغیر گزر جاتا ہے۔
قارئین محترم !ڈھلتی ہوئی شام، کھلتی فضا، چائے کی پیالی اور ایک اچھی کتاب کا ساتھ، اس سے بڑھ کر خود کو کیا تحفہ دے سکتے ہیں؟ وقت کا اس سے بہتر مصرف کیا ہو سکتا ہے۔ فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’ ہم نشینی بہ از کتاب مخواہ کہ مصاحب بودگاہ و بے گاہ‘‘ ( کتاب سے بہتر کوئی ہم نشین تلاش کرنا فضول ہے، یہ ہر موقع پر ہی ساتھی اور رفیق ہے) اسکندر نے اپنے کتب خانے کو’ روحان معالج‘ کا نام دے رکھا تھا۔
تمام انقلابات کے پیچھے قلم و قرطاس ہی رہے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی انقلاب ہوں یا سماجی۔معاشی میدان میں کمیونسٹوں کے لئے کارل مارکسؔ کی’’ داس کیپٹل ‘‘ہو یا کیپٹلیزم کے لئے ایڈم اسمتھؔ کی ’’دولت اقوام‘‘ ۔،سیاسی میدان میں ہندوئوں کے گرو چانکیہ کی ’’ارتھ شاستر‘‘ ہو یا چینیوں کے لئے مائوزے تُنگؔ کی ’’ سرخ کتاب‘‘ یا اہل مغرب کے لئے میکائولیؔ کی ’’ شہزادہ ‘‘۔ الٰہیات میں مسلمانوں کے لئے مولانا رومؔ کی مثنوی ، ادب میں عربی کی ــ ’’الف لیلیٰ‘‘ ہو یا فردوسیؔ کا ’’شاہنامہ‘‘۔ مذہب کے دفاع میں سعید نورسیؔ کے ’’رسائل ِنور ‘‘ ہوں یا فلسفے میں ڈاکٹر رادھا کرشننؔ کی قلمی کاوشیں ۔ غرض ہر سمت کتاب اعلیٰ پا یہ اذہان پر حکومت کرتی نظر آتی ہے۔
عظیم یونانی فلسفی سقراط ؔلکھتے ہیں کہ ’’اپناوقت دوسروں کی تحریروںکے مطالعے سے اپنی سمجھ بڑھانے میں صرف کرو،اس طرح تم ان چیزوں کونہایت آسانی سے حاصل کرسکوگے جن کوحاصل کرنے میں دوسروںکومحنت ومشقت کرنی پڑی ۔‘‘ملت ِاسلامیہ کے پاس اللہ کی عظیم نعمت قرآن کریم کی شکل میں موجودہے۔قرآن کریم کاپیغام آفاقی،ابدی اورلازوال ہے۔یہ پیغام ہر شخص کے لئے ایمان کی شرط کے ساتھ آوازِدوست ہے۔زمانہ کی گرداسے آلودہ نہ کرسکی۔جدیددورکے ہنگاموں کے آگے اس کی آفاقی تعلیمات نے سپرنہیںڈالے۔اس کے اصول وضوابط مضبوط ومستحکم ہیں۔اس کی ہدایت کبھی ماندنہ پڑی،امتدادِزمانہ اس کی روشنی کومدہم نہ کرسکی۔اس کامخاطب تب بھی انسان تھااورآج بھی ہرآیت قاری کی انگلی پکڑکراسے راہِ راست کی طرف رہنمائی کررہی ہے۔بندوںکوبندوں کی غلامی سے آزادکرکے اللہ کی غلامی میں لانے والی یہ خدائی کلام ہرمطلق العنان کے قلادے سے توڑکر ایک قادرِمطلق رب سے جوڑنے والا صحیفۂ ہدایت ہے!مگر افسوس صدافسوس !ہم میںسے ہی کچھ حضرات قرآن کریم سے دور ہیں اور عوام کیلئے بھی اسے ’’شجرِممنوعہ‘‘بنا رہے ہیں۔قرآن کے ساتھ اس سے بڑاظلم اورکیاہوسکتاہے کہ یہ انسان سے خوداباصرارکہہ رہاہے کہ مجھے غلافوں میں لپیٹ کر طاق ِ نسیاںکی زینت بنانے والے میں خالص اللہ کاآخری کلام ہوں۔ میں دنیائے ظلمات میںتیرے لئے اُمید کا چراغاں ہوں،منافرت، کج دلی اورعدم برداشت کی ماری دنیامیں الفت ومحبت اورصبروبرداشت کی فضاقائم کرنے کے لئے نازل کیا گیا ہوں۔نفس کی اکساہٹ اورشیطانی ترغیبات کے خلاف آگے اور پیچھے سدراہ ہوں۔ بدی کودبانے اورنیکی کوفروغ دینے کا لائحہ عمل ہوں۔ دنیا میں کوئی عالم ہویاجاہل ،مردہویازن،بچہ ہویاپیروجواں،حاکم ہویامحکوم ، خاندان ہو یا سوسائٹی، سب کو اپنے اپنے ظرف اور ضرورت کے مطابق مجھ سے ماسوائے غلامی کے روحانی آسودگی ملے گی اور اپنی معاشرت ،معیشت ،سیاست ،ثقافت جیسے شعبہ ہائے زندگی میں ابدی کامیابی کے واسطے ہدایت ِکاملہ بھی۔ میں ملکوں اور قوموں کی بگڑی تقدیر یں سنوارنے کے لئے آدابِ زیست سکھانے آیاہوں۔مجھ سے قربت رکھنے والا ہر انسان زمان ومکان کے حدودوقیود سے بالاتر ہرمشکل اور مسئلے کا کامیاب ترین حل پائے گا۔مجھے نازل کرنے والا خودتم سے مخاطب ہے:
’’یہ کتاب جوہم نے تم پرنازل کی ہے،بڑی بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوںپرغورکریںاوراہل عقل نصیحت حاصل کریں۔‘‘(ص ۲۹)اسلا م نے غوروفکرپربڑازوردیاہے ۔اسلام کی بنیاد وحیٔ الہٰیہ پرہے ،یہ اسی منبع وماخذ سے جوڑکر انسان کے نظروبصر،عقل وفکر،تفکیروتدبیراورتفقہ کے لئے مشعل راہ بنتا ہے، یہ کتاب ِ زندگی بن کر بندگان خدا کوزمین میں چل پھرکر اللہ کی نشانیوںکامطالعہ کر نے، آسمانوںکی طرف متوجہ ہونے ، چاند ستاروں سے لے کر ہ ٔارض کے شکم میں محفوظ نعمتیں کھوج نکالنے، سمندروں اور ان کی تہ میں موجود مخلوقات سے مستفید ہونے ، سمع وبصر اورفواد کے ہمہ جہت استعمال کی تاکیدکرتا ہے۔ بات جب یہ ہے تو قرآن کریم کے سنجیدہ اور محققانہ مطالعہ سے ہم لاتعلق کیوں؟ آیئے آج عالمی یوم کتب کے موقع ہم اُم الکتاب پڑھنے ، سمجھنے اور اسے دل کے راستے عمل میں اُتارنے کا عہد کریں۔
رابطہ:ریسرچ اسکالرکشمیریونیورسٹی،سرینگر