قیصر محمود عراقی
ایک وقت تھا جب ہمارے معاشرے میں کتاب کی بڑی اہمیت تھی۔ بچے ، بڑھے اور جوان سب بڑے ذوق وشوق سے کتابیں پڑھاکرتے تھے، کتب بینی کا ذوق عام تھا، پھر انٹرنیٹ آگیا اور آج موبائل کی شکل میں ہر کسی کے ہاتھ میں انٹر نیٹ ہے۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ ، فیس بک اور اس قسم کی دوسری ایجادات نے ہماری نوجوان نسل کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ سفروحضر ودفتر اور گھر میں ہر جگہ انٹر نیٹ کا استعمال بہت بڑھ چکا ہے۔ ہماری نئی نسل اپنے دن رات کا اکثر حصہ فیس بک وغیرہ کی نذر کردیتی ہے۔اس کے باوجودحق یہی ہے کہ کتاب کی اہمیت مسلمہ رہے گی کیونکہ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے ہمیشہ دنیا میں رہیں گےجو یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ مطالعہ میں جو یکسوئی اور تسلسل کتاب کے ذریعہ ممکن ہے، وہ نیٹ سے ممکن نہیں۔ جب کوئی شخص نیٹ پر سرچ کیلئے کوئی ایک سائٹ کھولتا ہے تو اس کے ساتھ کئی سائٹس مزید کھل جاتی ہیں،جس سے ریسرچر کا وقت اور یکسوئی یقیناً متاثر ہوتی ہے۔ انٹر نیٹ اگرچہ ایک مفید ایجادات ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے بہت زیادہ نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں۔ مثلاًمسلسل جم کر بیٹھنے سے جسم ، دماغ ، اعصاب اور آنکھیں متاثر ہوتی ہیں، یاداشت اور صحت پر بھی اثر پڑتا ہے جبکہ کتاب کے مطالعہ میں صحت وجسم کے یہ نقصانات نہیں ہیں، لہٰذا کتاب کی اہمیت وحیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ کتاب کی اہمیت کے بارے میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مسلمان حکماءکے اقوال موجود ہیں، قرونِ اولیٰ وقرونِ وسطیٰ کے مسلمان سفروحضر میں کتاب ساتھ رکھا کرتے تھے۔ مشہور سائنسداں ابن رشد کے بارے میں مشہور ہے کہ شعور کی منزل پر قدم رکھنے کے بعد اس کی زندگی کی صرف دو راتیں بغیر کتاب کی گذری تھی ، ایک جب ان کی شادی ہوئی تھی اور دوسری جب ان کی والدہ نے دارِ فانی سے رخت سفر باندھا تھا، یہ ہمارے بزرگوں کی کتاب اور علم کے ساتھ محبت تھی اور اسی محبت کی وجہ سے دنیا میں مسلمانوں کو عزت اور کامیابی ملی۔
آج اگر مسلمان دنیا میں ذلت ورسوائی سے ہمکنار ہیں تو اس کی بڑی وجہ بھی علم وکتاب دوستی سے اعراض ہے ۔ اس اعتبار سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ انٹر نیٹ نے اگرچہ کتب کی طباعت واشاعت کو متاثر کیا ہے لیکن پھر بھی کتاب کی اہمیت وحیثیت برقرار ہے اور ہمیشہ رہیگی۔ بے شک موجودہ دور فتنوں کا دور ہے، ہر طرف مسلمانوں کے خلاف یلغار اور للکار ہے، اسلام کو مٹانے کے لئے دشمن درپے ہیں، فتنہ پرور لوگوں کا ٹارگیٹ مسلمان ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں مختلف ذرائع سے کمزور کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں تاکہ وہ اپنا ٹارگیٹ آسانی سے حاصل کرلیں۔ ایسے میں ہمیں دانشمندانہ حکمت عملی اپنانا پڑے گی تاکہ ہم ہر قسم کی للکار ویلغار سے محفوظ رہ سکے۔ اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل ہمیشہ روشن رہا ہے اور اب بھی رہ سکتا ہے بشرطیکہ مسلمان جہالت کے اندھیروں سے نکل کر علم کی روشنی میں چلنا سیکھ لیں۔ آج کا ہمارانوجوان علم اور مطالعہ سے دور ہوتا جارہا ہے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ امت محمدیہؐ کیلئے علم ، مطالعہ ، قلم، کتاب اور تعلم کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن مجید کی پہلی وحی کا پہلا حرف ’اِقراء‘ ہے۔ گویا پڑھنا اور مطالعہ کرنا حکمِ ربی ہے اور ہمارے نوجوان اس حکم ِربی سے پہلو تہی کرتے نظر آرہے ہیں۔ علم اور مطالعہ میں عدم دلچسپی کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کی غیر ضروری اور بے مقصد مصروفیات ہیں جو انہیں جہاں بے عمل بنارہی ہے ،وہی تنزلی اور تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ اس المناک صورتحال کے تدارک کی سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے، والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی شروع ہی سے تربیت کریں ، ان میں بامقصد اور دینی کتب کے مطالعے کا شوق پیدا کریں ، ان کی مشغولیات ومصروفیات پر کڑی نگاہ رکھیں۔ ارباب ِحل وعقد پر بھی لازم ہے کہ وہ کوئی لائحہ عمل تیار کریں ، کتاب دوستی کی ترغیب دیں اور مطالعہ کی اہمیت سے متعلق سیمینارز منعقد کریںتاکہ اس بارے میں لوگوں کا شعور بیدار ہو۔ بلاشبہ کتابیں انسان کی بہترین دوست اور معلومات کا خزانہ بھی ہیںلیکن ٹیکنالوجی اور جدت پسندی کے اِس دور نے جہاں ہمارے مشکلات کو قدرے کم کردیا ہے وہیں کتب بینی کی عادت کو کم کردیا ہے۔ ہمارے نوجوان نسل انٹر نیٹ پر بنے ہوئے نوٹس رَٹ کر امتحان میں کامیابی تو حاصل کرلیتی ہے لیکن کتب بینی کے حقیقی لطف سے محظوظ نہیں ہوپاتی ،کیونکہ ایک تو کتابوں جیسا مواد انٹر نیٹ پر میسر نہیں ہوتا،دوسرا ہم اپنے اہل قلم کی بلند پایہ تصانیف سے نابلد رہتے ہیں۔ کتابوں سے دوری کی ایک بڑی وجہ بیشتر اسکولوں میںلائبریریوں کا نہ ہونا بھی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام اسکولوں ، کالجوں حتیٰ کہ عوامی مقامات پر لائبریریوں کے قیام کو یقینی بنائیں تاکہ عوام میں کتب بینی کی عادت کو فروغ دیا جاسکے۔ کتب بینی سے شوقِ مطالعہ بڑھتا ہے اور اہل قلم افراد کی قدر وقیمت بھی بڑھتی ہے۔ کتابوں کا مطالعہ اور ان میں لکھی گئی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہی معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ لہٰذا نوجوان نسل کو کتاب کے مطالعے کی طرف ترغیب دلانے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کتب سے استفادہ حاصل کرکے ملک وقوم کے ایک اچھے معمار ثابت ہوسکیں۔ کتب میلے بھی نوجوان طبقے کے شعور کو اُجاگر کرنے کے لئے اچھی کاوش ثابت ہوسکتے ہیں۔
رابطہ۔6291697668