؎سوال:-کیا شادی کے بعد سسرال والوں کی خدمت کرنا بہوکا فرض ہے یا سنت ؟ اکثر شوہراپنی اہلیان کو اپنے گھر والوں کی خدمت کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں ۔کہتے ہیں اگر تم نہیں کروگی تو پھر کون کرے گا؟ میں والدین کے لئے خدمت گار رکھنا گناہ سمجھتاہوں ۔قرآن وسنت کی روشنی میں جواب چاہئے ؟
ایک سائیلہ ، اننت ناگ
خاندانی نظام میں حُسنِ سلوک او رباہمی راحت رسانی اہم
حقوق وفرائض کی رسہ کشی ثانوی
جواب:-خاتون پر شرعاً تو یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے سسرال والوں کی خدمت کرے او رشوہر کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی منکوحہ سے جبرواصرارسے اپنے والدین کی خدمت کرائے لیکن زوجہ کو اپنا گھر ٹھیک طرح سے بسانے، اپنے شوہر کو خوش رکھنے ، اپنے گھر کا ماحول دُرست رکھنے ،اپنے حُسن اخلاق او راپنے اچھے خادمانہ جذبہ کا مظاہرہ کرنے کے لئے از خوداپنی صحت اور فرصت کے مطابق اپنے ساس سسر کی خدمت کرنی چاہئے ۔ خصوصاً جب کہ وہ بڑھاپے میں ہوں اور خود اپنے ضروری کام کرپانے میں بھی مشکلات محسوس کرتے ہوں ۔ آج اگر بہو اپنے ساس سسر کی خدمت خود اپنے جذبہ سے کرنے پر آمادہ نہ ہو تو مستقبل قریب میں جب وہ خود ساس بنے گی اور خدمت کی محتاج ہوگی اُس وقت اس کی بہو اُس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی ۔اس لئے ایک طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ شوہر کو یہ حق نہیں کہ وہ زوجہ کو حکم کرے کہ وہ اس کے والدین کی خدمت کرے اور دوسری طرف یہ بھی حق ہے کہ زوجہ خود اپنے شوق وجذبہ سے خوب خدمت کرے ۔ اُس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اُس کا شوہراُس کاا حسان مند ہوگااور اس کے دل میں اپنی زوجہ کا مرتبہ اور بڑھ جائے گا ۔ گھر میں راحت وخوشی کا ماحول بنے گا۔ تنائو ، ناراضگی اور پریشان حالی سے محفوظ رہیںگے ۔ چنانچہ تجربہ کرکے دیکھ لیں ۔ زوجہ نے ساس سسر کو ستایا ، اُن کی خدمت نہ کی تو اس کا اثر شوہر پر ہی پڑے گا اور وہ یا تو پریشان ، غمزدہ ،دل ملول ہوجائے گا یا لعن طعن بلکہ لڑائی جھگڑا کرے گا اور یہ دونوں حالتیں گھر کے لئے تباہ کن ہیں ۔اس کے مقابلے میں اگرزوجہ نے اپنی بساط اور صحت کی حدتک ساس سسر کی خدمت کی تو لازماً اس کا اثر اس کے شوہر پر پڑے گا اور وہ بھی اور پورا گھر خوش رہے گا ۔
دراصل خاندانی نظام میں حسن اخلاق ،خدمت وشفقت ، محبت اور احترام اور ایک دوسرے کی راحت رسانی اہم ہیں ۔ حقوق وفرائض کی رسہ کشی ثانوی چیز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ حدیث میں یہ بیان ہوا کہ نکاح کرنا آدھا ایمان ہے۔ اگر یہ حدیث ہے تو اس کے الفاظ کیا ہیں اور نکاح آدھا ایمان کیسے ہے اس کی وضاحت کریں؟
عابد علی… سرینگر
نکاح نصف ایمان ہے
جواب: یہ بات درست ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علی ہوسلم نے ارشاد فرمایا کہ نکاح نصف دین ہے۔ چنانچہ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے۔ حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ مسلمان جب نکاح کرتا ہے تو اپنے نصف دین کو مکمل و محفوظ کرلیتا ہے۔ اب اس کو چاہئے کہ بقیعہ نصف دین کے بارے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔
اس حدیث کے متعلق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انسان عموماً دو ہی وجہوں سے گناہ کرتا ہے، شرمگاہ اور پیٹ۔یعنی جنسی جذبات کی بناء پر اور کھانے پینے کی وجہ سے۔جب نکاح کر لیا تو اب زنا،بدنظری، غیر محرم سے تعلقات قائم کرنے کے جذبہ سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ اب نظر کی طہارت، عفت و عصمت کی حفاظت، پاک دامنی اور حیا نظر اور خیالات کی یکسوئی اور غلط رُخ کے احساسات اور تخیٔلات سے بچائو حاصل ہونے کا سامان مل گیا تو دین کو تباہ کرنے والے ایک سوراخ کو بند کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اب بقیہ نصف یعنی کھانے پینے کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں اُس کی فکر کرے۔ اس میں حرام دولت، چوری، رشوت ، دھوکہ،فریب اور ہر طرح غیرشرعی اکل و شرب شامل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-جس جگہ مسجد تعمیر تھی ، پھر شہید کی گئی اور نئی مسجد کسی دوسری جگہ تعمیر کی گئی ۔پرانی مسجد کی جگہ کے کیا احکامات اور حقوق ہیں ؟
سوال:۲- کیا مسجد کے لئے وقف کی ہوئی چیزیں مثلاً فرش ، لیمپ ، گھڑیاں وغیرہ کسی دینی ادارہ یا درس گاہ یا مسجد کے مولوی صاحب کے ذاتی استعمال میں لائی جاسکتی ہیں یا نہیں؟
سوال:۳-اگرمساجد کی ملکیتی دوکان میں غیر شرعی کاروبار کیا جاتاہے تو انتظامیہ مساجد کی ذمہ داری کیا بنتی ہے ؟
محمد اکبر …پلوامہ
مسجد کی جگہ کے متعلق احکامات کی وضاحت
جواب:۱-مسجد اللہ کا گھرہے اور جہاں ایک مرتبہ مسجد بن گئی وہاں سے مسجد کو شہید کرکے دوسری جگہ منتقل کرنا ہرگزدُرست نہیں ۔ اگر کہیں مسجد شہید کردی گئی تو وہاں دوبارہ مسجد تعمیر کرکے اسے آباد کرنا وہاں کے مسلمانوں پر لازم ہے ۔ اگروہاں مسلمان آبادی نہ ہوتو دوسری جگہوں کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اُس مسجد کی جگہ کی دیوار بندی کرکے اسے محفوظ کرایں ۔
مسجد کی املاک کا مصرف
جواب:۲-مسجد کے لئے وقف شدہ اشیاء کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اس لئے وقف شدہ اشیاء اس ادارے(مسجد ، مدرسہ ، یتیم خانہ وغیرہ)کی ملکیت ہوتے ہیں ۔اس لئے حدیث میں املاک وقف کے متعلق ارشاد ہے کہ نہ وہ فروخت کی جائیں ، نہ کسی کو بطور تحفہ دی جائیں نہ بطور وراثت کسی کو دی جائیں ۔ بخاری شریف میں حضرت عمربن خطابؓ کے اراضی خیبر کے متعلق حکم رسول ؐ یہی تھا ۔ اسی لئے تمام فقہا اس پر متفق ہیں کہ وقف کی املاک کو کسی دوسری جگہ صرف نہیں کرسکتے ۔ مسجد کا لیمپ،گیس وغیرہ اگر وقف کرتے وقت منتظمین کو اختیار دیا گیا ہے اور وہ انتظامیہ اس واقف کے دئے ہوئے اختیار کی بناء پر یہ اشیاء امام صاحب کو یا کسی دوسرے ادارے کو دیں تو اس کی گنجائش ہے ۔ اگر اجازت نہ ہو تو پھر دُرست نہیں ہے ۔
مسجد کی ملکیتی دوکان اور حرام کاروبار
جواب:۳-مسجد کی دوکان میں غیر شرعی چیز مثلاً چرس فروخت کی جاتی ہو۔ اگر یہ جرم ثابت ہے تو مسجد انتظامیہ پر یہ فرض ہے کہ ایسے شخص سے دوکان خالی کرالیں ۔چرس، افیم اور اس طرح کی دوسرے منشیات کی خرید وفروخت سراسر حرام ہے۔ حضرت نبی کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ (بخاری ومسلم)اس طرح کی نشہ آور اشیاء پر لعنت کی گئی ہے ۔شراب کے متعلق حدیث ہے کہ شراب کی وجہ سے دس افراد پر لعنت ہوتی ہے ۔اس کے پینے والے ،پلانے والے ،لانے والے ، اس کی تجارت کرنے والے ، اس کے انگو روغیرہ کا رس نکالنے والے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے والے وغیرہ سب شامل ہیں ۔ شراب کے علاوہ آ ج کی دوسری منشیات کا حکم بھی یہی ہے ۔ اس لئے شراب یا دوسری ایسی منشیات کی خرید وفروخت کے لئے جگہ مہیا کرنا کیسے درست ہوسکتاہے ؟ اگرچہ مسجد کی دوکان نشہ آور اشیاء کی خرید وفروخت کے لئے مہیا نہیں کی گئی ہے مگر جب کوئی اس دوکان کا استعمال اس حرام کام کے لئے بھی کررہاہے تو مسجد کے منتظمین پر لازم ہوگا کہ مسجد کی دوکان خالی کرالیں ۔ اگر وہ شخص یہ ضمانت دے کہ آئندہ وہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کرے گا تو ایک موقعہ دینے کی گنجائش ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہمارے دینی طبقوںمیں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے کہتے ایک دوسرے کو کافر بھی قرار دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بات بات پر دوسروںکو مشرک ،کافر ،بدعتی ،گمراہ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ بول دیئے جاتے ہیں۔اس صورت حال کو آپ بھی سمجھتے ہونگے ۔براہ کرم اس بارے میں شرعی اصول تکفیر آسان لفظوں میں ضرور بیان کیا جائے۔
عبدالرشید خان۔سرینگر
شرعی اصولِ تکفیر ۔۔۔ معاملات کی وضاحت
جواب :کسی مسلمان کو کافر قرار دینے کا معاملہ نہایت سنگین اور خطرناک معاملہ ہے ۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،جو شخص کسی مسلمان بھائی کو کافر کہہ دے تو یا تو وہ شخص کافر ہوگا جس کو کافر کہا گیا اور یا وہ کافر کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے ۔خود قرآن کریم میں بھی ارشاد ہے :(ترجمہ)اے ایمان والو !جس شخص نے تم کو سلام کیا اُس کو مت کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو ،(النسا)اس کے علاوہ بھی احادیث ہیں،مثلاًایک جہاد میں دورانِ جنگ ایک شخص نے مسلمانوں سے خوف زدہ ہوکر پہلے اُن کو سلام کیا پھر کلمہ پڑھا ،اُس کے کلمہ پڑھنے کے بعد ایک مسلمان نے یہ سوچ کر اُس کو قتل کردیا کہ اس شخص نے محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا ہے،بلا شبہ بظاہر صورت حال یہی تھی اور اس کےگمان کرنے کی وجہ موجود تھی ،اس لئے کہ جنگی حالت تھی اورہوسکتا ہے کہ اس شخص کے دل میں ایمان تھا ہی نہیں ،صرف جان بچانے کے لئے اُس نے کلمہ پڑھا ہو اوریہ کلمہ اُس نے اپنے بچائو کے لئے بغرض ڈھال استعمال کیا ہو ۔مگر جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایسا ہوا ہے تو آپؐ نہ صرف ناراض بلکہ سخت غضب ناک ہوگئے اور فرمایا کہ کیا تم نے کلمہ پڑھنے کے باوجود اُس کو قتل کردیا ؟عرض کیا گیا کہ اُس نے جا ن بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ،دِل سے کہاں پڑھا ہوگا ۔آپ ؐ نے فرمایا :کیا تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا ،اس کا مطلب بالکل واضح ہے۔
دراصل یہ حقیقت اللہ ہی کے علم میں ہے کہ کون شخص مومن ہے اور کون نہیں۔ہر مسلمان اس کا ذمہ دار ہے کہ کلمہ پڑھنے والے مسلمان، جو تمام ضروریات دین کی تصدیق کرتا ہو، کو مومن تصور کرےاور اُس کی طرف کفر کی نسبت نہ کرے۔یہی وجہ ہے کہ محتاط اہل ِ علم کافرانہ خیالات کے حامل شخص کو کافر کہنے میں احتیاط برتتے ہیں ۔ہاں! صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خیالات کافرانہ و ملحدانہ ہیں۔وہ اپنے فرض ِ منصبی کی بنا پر مشرکانہ خیالات کو شرک ،کافرانہ خیالات کو کفر ،ضلالت کو ضلالت کہنے میں کوئی جھجھک نہیں برتتے مگر اُس شخص کو کافر یا مشرک کہنے کی جرأت نہیں کرتے ،جب تک اُس کے کافر ہونے کا پورا یقین نہ ہو۔خدا ترس اور خوف خدا وندی سے لرزنے والے علماء اس خیال سے ہی گھبرا جاتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کی طرف کفر کی نسبت کریں جو حقیقت میں صاحب ایمان ہواور وہ کفر واپس اُنہی پر آجائےگی۔اگر کسی شخص کے عقائد و خیالات میں کفر و شرک کی آمیزش محسوس ہو تو اُس کو کافر قرار دینے کے بجائے امت کو بچانے کے لئے اُن خیالات کو کفر، باطل، شرک اور ضلالت قرار دینے پر اکتفا کرتے تھےاور جب تک کسی شخص سے صریح کفر مثلاً ختم نبوت کا انکار یا کسی عقیدہ ٔمسلمہ کا انکار نہ ہو اور اُس کی کوئی تاویل کی گنجائش نہ ہو ،اُس وقت تک اُس کو کافر قرار نہیں دیتے۔۔۔مثلاً جو شخص قرآن کو کتاب اللہ تسلیم کرتا ہو پھر بھی اُس کو زبردستی منکر قرآن قرار دیا جائے۔اسلام کے وہ بنیادی اصول جو مدار ایمان ہیں،اُن میں اللہ کی وحدانیت ،اللہ کی صفات ،رسالت و ختم نبوت پر ایمان ،کتب سماویہ اور انبیا علیہم السلام کی تصدیق ،آخرت پر ایمان اور وہ عقائد جو دلائل قطعیہ احادیث متواتر ہ سے ثابت ہوں ،اُن عقائد کا انکار کرنا مؤجب کفر ہےمگر جو شخص اُن عقائد کو تسلیم کرتا ہو اُس کودائرہ ٔ ایمان سے خارج کرنا سخت خطرناک اور خود اسلام کے اصول ِ تکفیر کے خلاف ہے۔جو شخص راہ حق سے ہٹا ہوا ہو، اُس سے دلائل کے ساتھ اختلاف کرنا درست ہے مگر کسی باطل خیال کی تردید الگ چیز ہے اور کسی مسلمان کی تکفیر جداگانہ مسئلہ ہے۔بہر حال کسی کو کافر کہنا نہایت پُر خطر اور کئی طرح سے سنگین مسئلہ ہے۔اس میں حد درجہ احتیاط بھی ضروری ہے اور جہاں واقعتاً کفر ثابت اور واضح ہو وہاں اس کا اظہار بھی ضروری ہے مگر اظہار میں فرد پر حکم لگانے کے بجائے اُس کے اظہار باطل پرتنقیدکی جائےاور اُس کے کفر ہونے کے اظہار پر اکتفا کرنے کو ترجیح دی جائے، الا یہ کہ کوئی مشرک ہو توشخص پر بھی حکم لگے گا۔