سوال :بہت سارے مسلمان موقعہ بموقعہ قسمیں کھاتے ہیں ۔اس میں کبھی سچ کبھی جھوٹ ،کبھی کسی چیز کی قسم کھاتے اورکبھی کسی چیزکی۔اس بارے میں تفصیل سے بتایا جائے کہ کون سی قسم جائز اور کون سی ناجائزہےاور کس قسم کے متعلق شریعت کا حکم کیا ہے۔
ارشاد احمد ۔بانڈی پورہ
قسم کھانے کا معاملہ
جھوٹی قسم کھانا گناۂ کبیرہ کا ارتکاب
غیر اللہ کی قسم کھانا شرک کرنے کے برابر
جواب : قسم کھانے کے متعلق چند شرعی احکام یہ ہیں۔
۱۔بے ضرورت بات بات پر اللہ کی قسمیں کھانا شرعی طور پر سخت ناپسندیدہ ہے۔اس لئےکہ اس میں اللہ جل شانہٗ کی شان عظمت کی بے حرمتی ہوتی ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ِ اقدس کے سوا کسی بھی چیز کی قسمیں کھانا سخت منع ہے ،لہٰذا اس سے مکمل اجتناب کیا جائے۔اس سلسلے میں یہ حکم جو حدیث سے ثابت ہے ،ملحوظ رکھا جائے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہے :جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائے ،اُس نےشرک کیا ۔اس لئے غیر اللہ کی قسم کھانے سے مکمل پرہیز کیا جائے۔
۳۔ اگر کسی نے اللہ کی ذات یا اُس کی صفات میں سے کسی صفت ِ عالی کی قسم کھائی اور قسم کھاکر کہا کہ فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہ کروں گا تو شرعاً یہ قسم ہوگئی۔اب اگر اس کی خلاف ورزی ہوگئی تو قسم ٹوٹ گئی اور اب اُس شخص پر کفارہ لازم ہوگیا۔کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائےیا دو وقت کے کھانے کی قیمت ادا کرے۔
۴۔ اللہ کی ذاتِ عالی کے علاوہ جو قسمیں کھائی جاتی ہیں ،اُن سے مکمل پرہیز لازم ہے۔مثلاً باپ کی قسم ،ماں کی قسم ،جوانی کی قسم،بیٹے کی قسم، آستان کی قسم ،فلاں بزرگ کی قسم ،آنکھوں کی قسم وغیرہ وٖغیرہ۔
۵۔اگر کسی شخص نے گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق اللہ کی قسم جھوٹی کھائی ،مثلاًیوں کہا ،اللہ کی قسم میں نے نماز پڑھی حالانکہ اُس نے نماز نہیں پڑھی تھی۔یا مثلاً کسی نے یوں کہا ’’اللہ کی قسم میں فلاں کے گھر نہیں گیا ہوں حالانکہ وہ اُس کے گھر گیا ہے،تو یہ جھوٹی قسم ہوگئی ۔ان دونوں جھوٹی قسموںپر یہ شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا قرار پائے گا ۔اس پر توبہ لازم ہے۔
۶۔ اگر کسی نے اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور ذات کی قسم کھائی تو شرعاًیہ قسم منعقدہوئی ہی نہیں،لہٰذا خلاف ورزی پرکفارہ بھی لازم نہ ہوگا ۔مگر غیر اللہ کی قسم کھانے کا گناہ رہے گا ۔اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔
۷۔اگر کسی شخص نے گناہ کرنے کی قسم کھائی ،مثلاًیوں کہا اللہ کی قسم میں نماز نہیں پڑھو گا ،یا قسم خدا کی میں فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا یا یوں کہا ماں باپ سے نہیں بولوں گا تو اس طرح کے کسی گناہ کے کام کرنے کے متعلق قسم کھانا گناہ ہے۔پھر اس قسم کے قسم کو توڑنا ضروری ہے اور قسم توڑ کر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔
۸۔ اگر کسی نے قسم کھائی کہ فلاں چیز نہیں کھائوں گا یا فلاں چیز نہیں پیوں گا پھر بھول کر وہ چیز کھالی یا کسی نے قسم کھائی کہ فلاں کے گھر نہ جائوں گا پھر اس کے گھر چلا گیا تو قسم ٹوٹ گئی اور کفارہ لازم ہوگیا ۔یعنی کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھالی پھر اُس کے خلاف کیا ۔
۹۔اگر کسی دوسرے شخص نے قسم دلائی ، مثلاًکسی اور نے کہا کہ تم کو اللہ کی قسم ،تو یہ قسم ہوئی ہی نہیںہے۔اس طرح اگر کسی نے دوسرے سے کہا تم کو نبی علیہ السلام کی قسم ،کعبہ شریف کی قسم ،مسجد کی قسم ،میری قسم ،ماں باپ کی قسم وغیرہ، تو یہ قسم بھی شرعی قسم نہیں ہوگی،مگر اس طرح کی قسم دوسرے کو دلانا گناہ ہے۔اس لئےکہ غیر اللہ کی قسم کھانا اور کھلانا سخت منع ہے ،جیساکہ اوپر حدیث لکھی گئی۔
۱۰۔تجارت کرتے ہوئے یا کوئی بھی چیز فروخت کرنے کے لئے عموماً طرح طرح کی جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں،خصوصاً قیمتوں پر جب رسہ کشی ہوتی ہےتوخرید ار قیمت کم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور بیچنے والا قسمیں کھا کھا نرخ صحیح ہونے کی بات کرتا ہے۔بکثرت دکاندار حلف کاذب (جھوٹی قسمیں)کھا کر بز نس کرتے ہیں ۔یہ طرز عمل سخت نا مناسب اور گناہ ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جھوٹی قسم کھاکر مال بیچنا ،ظاہر میں تجارت ہے مگر حقیقت میںبرکت کو مٹا دیتا ہے (بخاری)اور بھی کئی احادیث میں جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنے کو سخت ناپسند کیا گیا ۔در حقیقت جھوٹی قسم کھاکر خریدار کو مال خریدنے پر آمادہ کرنا ایک قسم کا دھوکہ ہے ،اس لئے اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۔ایک عام مسلمان پر کتنا علم ِ دین سیکھنافرض ہے؟
راشد، سوپور
علم دین حاصل کرنے کا فریضہ
جواب:۔ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اتنا دین جانتا ہو جس سے تمام فرائض ادا کرے اور تمام حرام چیزوں سے بچ جائے ۔اس میں وضو ،غسل ،نماز ،روزہ ،زکوٰۃ اور حج بھی ہےکہ وہ ان اعمال کے فرض ہونے اور ان کو انجام دینے کے طریقوں سے واقف ہو۔اسی طرح اخلاقی ،معاشی اور گھریلو زندگی میں جو احکام اسلام نے ہر مسلمان پر فرض کئے ہیں ،وہ اُن کو جانتا ہو اور جو چیز یںحرام کی ہیں اُن سے بھی واقف ہو،مثلاً شرک ،بدعت ،والدین کی نافرمانی ،جھوٹ ،غیبت ،چوری ،رشوت ،سود ،زنا ،شراب ،ناحق قتل ،کسی کو ایذا پہنچانا ،ملازمت میں کام چوری ،وعدہ خلافی،تجارت میں ملاوٹ ،کمائی میںحرام ذرائع اختیا رکرنا ،غرض کہ تمام حرام چیزوں کو جاننا ضروری ہے ۔یہ عمل مستند کتابوں سے پڑھ کر یا معتبرعلما سے پوچھ پوچھ کرہو ۔غرض کہ اتنا علمِ دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ مسلمان بن کر زندگی گذار سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-میرے شوہر مجھے اپنی پندرہ ہزار ماہانہ کی آمدنی سے کوئی خرچہ نہیں دیتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ تیری اپنی آمدنی ہے اور وہ میری آمدنی کو مجھ سے لے کر اپنے نجی اور والدین کے گھرکے اخراجات کے لئے خرچ کرتے ہیں ۔کیا یہ سب کچھ وہ صحیح کرتے ہیں ؟
سوال:۲-کیا بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد ماں بیٹے اکٹھے سوسکتے ہیں ؟ کیا ان کا بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلنا ،اُٹھنا بیٹھنا ، کھاناپینا اکھٹے ہونا جائز ہے ۔ جب کہ بیٹے کی بیوی بھی ہو ؟
سوال:۳-کیا بیوی شوہر سے یہ تقاضا کرسکتی ہے کہ میں سسرال والوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہوں ، میرا اُن سے الگ رہنے کا انتظام کردیجئے ۔ ان حالات میں شوہر کن کے ساتھ رہے ۔ خصوصاً رات کے اوقات میں ۔ اس کا کھانا پینا والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہو کہ بیوی بچوں کے ساتھ ؟
ایک خاتون خانہ …اننت ناگ
عورت کی اپنی آمدنی کے باوجود نفقہ شوہر پر لازم
جواب:۱-زوجہ سے اُس کی رضامندی کے بغیر اس کی آمدنی لینا اپنے اوپر یا اپنے دوسرے اقارب پر خرچ کرنا ہرگز درست نہیں ہے ۔ زوجہ از خود کچھ رقم دے تو لینے میں حرج نہیں مگر جبر واصرار سے لینا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ حدیث میں ہے کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا مال اُس کے دل کی رضا کے بغیر اپنے اوپر خرچ کرے ۔شریعت اسلامیہ نے عورت کا نفقہ اور تمام ضروری اخراجات شوہر پر لازم کئے ہیں ۔اگر عورت کی اپنی کوئی آمدنی ہوتو بھی اُس کا نفقہ شوہر پر ہی لازم رہتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی چادر میں 2افراد کا سونا منع
جواب:۲-بیٹا بالغ ہوجائے تو اُس کوالگ سُلانے کا حکم ہے ۔ ایک ہی بستر میںایک ہی چادر یا لحاف میں دوافراد کا ایک ساتھ سونا حدیث کی رو سے منع ہے ۔ اگر کوئی مرد اور عورت ہوں چاہے وہ ماں بیٹا ہویا باپ بیٹی ، یا بھائی بہن اُن کو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ ایک ساتھ ایک ہی بستر میں ایک ہی چادر کے نیچے سوئیں ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نیندمیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح بوس وکنارکربیٹھیں جو اُن کے لئے غیر شرعی اور غیر اخلاقی بھی ہو اور باعث ندامت بھی۔بانہیں ایک دوسرے پر آویزاں کرکے چلنا بچوں کے لئے تو کسی نہ کسی درجے میں دُرست ہے ۔ ان کے علاوہ اسلامی معاشرے میں میاں بیوی کے لئے بھی پسندیدہ نہیں اور ماں بیٹے کے لئے بھی نہیں ، بھائی بہن کے لئے بھی نہیں ۔یہ ایک قسم کے آوارہ مزاج اور غیر مہذب بلکہ بے سلیقہ وبدتمیز ہونے کی علامت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات بیوی بچوں کے ساتھ گزارنا شوہر کیلئے لازم
جواب:۳- زوجہ اگر سسرال والوں سے الگ رہنے کا مطالبہ کرے اور شوہر کے لئے اس مطالبہ کے پورا کرنے میں کوئی واقعی مشکل نہ ہو تو پھر یہ مطالبہ دُرست ہے ۔ اس صورت میں شوہر کو رات اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی گزارنا لازم ہے اگر شوہر کے الگ رہنے میں واقعتاً مشکلات ہوں تو زوجہ کا علیحدگی کا مطالبہ کرنا ہی غلط ہے ۔ دراصل یہ حکم حالات کے مطابق ہوتا ہے ۔