خاندانی نظام میں حُسنِ سلوک او ر
باہمی راحت رسانی اہم، حقوق وفرائض کی رسہ کشی ثانوی
سوال:۱-کیا شادی کے بعد سسرال والوں کی خدمت کرنا بہوکا فرض ہے یا سنت ؟ میرے شوہر مجھے اپنے گھر والوں کی خدمت کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں ۔کہتے ہیں اگر تم نہیں کروگی تو پھر کون کرے گا؟ میں والدین کے لئے خدمت گار رکھنا گناہ سمجھتاہوں ۔قرآن وسنت کی روشنی میں جواب چاہئے ؟
سوال:۲-کیا بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد ماں بیٹے اکٹھے سوسکتے ہیں ؟ کیا ان کا بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلنا ،اُٹھنا بیٹھنا ، کھاناپینا اکھٹے ہونا جائز ہے ۔ جب کہ بیٹے کی بیوی بھی ہو ؟
ایک خاتونِ خانہ ۔۔اننت ناگ
جواب:۱-خاتون پر شرعاً تو یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے سسرال والوں کی خدمت کرے او رشوہر کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی منکوحہ سے جبرواصرارسے اپنے والدین کی خدمت کرائے لیکن زوجہ کو اپنا گھر ٹھیک طرح سے بسانے، اپنے شوہر کو خوش رکھنے ، اپنے گھر کا ماحول دُرست رکھنے ،اپنے حُسن اخلاق او راپنے اچھے خادمانہ جذبہ کا مظاہرہ کرنے کے لئے از خوداپنی صحت اور فرصت کے مطابق اپنے ساس سسر کی خدمت کرنی چاہئے ۔ خصوصاً جب کہ وہ بڑھاپے میں ہوں اور خود اپنے ضروری کام کرپانے میں بھی مشکلات محسوس کرتے ہوں ۔
آج اگر بہو اپنے ساس سسر کی خدمت خود اپنے جذبہ سے کرنے پر آمادہ نہ ہو تو مستقبل قریب میں جب وہ خود ساس بنے گی اور خدمت کی محتاج ہوگی اُس وقت اس کی بہو اُس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی ۔اس لئے ایک طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ شوہر کو یہ حق نہیں کہ وہ زوجہ کو حکم کرے گی وہ اس کے والدین کی خدمت کرے اور دوسری طرف یہ بھی حق ہے کہ زوجہ خود اپنے شوق وجذبہ سے خوب خدمت کرے ۔ اُس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اُس کا شوہراُس کاا حسان مند ہوگااور اس کے دل میں اپنی زوجہ کا مرتبہ اور بڑھ جائے گا ۔ گھر میں راحت وخوشی کا ماحول بنے گا۔ تنائو ، ناراضگی اور پریشان حالی سے محفوظ رہیںگے ۔ چنانچہ تجربہ کرکے دیکھ لیں ۔ زوجہ نے ساس سسر کو ستایا ، اُن کی خدمت نہ کی تو اس کا اثر شوہر پر ہی پڑے گا اور وہ یا تو پریشان ، غمزدہ ،دل ملول ہوجائے گا یا لعن طعن بلکہ لڑائی جھگڑا کرے گا اور یہ دونوں حالتیں گھر کے لئے تباہ کن ہیں ۔
اس کے مقابلے میں اگرزوجہ نے اپنی بساط اور صحت کی حدتک ساس سسر کی خدمت کی تو لازماً اس کا اثر اس کے شوہر پر پڑے گا اور وہ بھی اور پورا گھر خوش رہے گا ۔
دراصل خاندانی نظام میں حسن اخلاق ،خدمت وشفقت ، محبت اور احترام اور ایک دوسرے کی راحت رسانی اہم ہیں ۔ حقوق وفرائض کی رسہ کشی ثانوی چیز ہے ۔
ایک ہی چادر میں 2مَردوں کا سونابھی منع
جواب:۲-بیٹا بالغ ہوجائے تو اُس کوالگ سُلانے کا حکم ہے ۔ ایک ہی بستر میںایک ہی چادر یا لحاف میں دو مَردوں کا ایک ساتھ سونا حدیث کی رو سے منع ہے ۔ اگر کوئی مرد اور عورت ہوں چاہے وہ ماں بیٹا ہویا باپ بیٹی ، یا بھائی بہن اُن کو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ ایک ساتھ ایک ہی بستر میں ایک ہی چادر کے نیچے سوئیں ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نیندمیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح بوس وکنارکربیٹھیں جو اُن کے لئے غیر شرعی اور غیر اخلاقی بھی ہو اور باعث ندامت بھی۔بانہیں ایک دوسرے پر آویزاں کرکے چلنا بچوں کے لئے تو کسی نہ کسی درجے میں دُرست ہے ۔ ان کے علاوہ اسلامی معاشرے میں میاں بیوی کے لئے بھی پسندیدہ نہیں اور ماں بیٹے کے لئے بھی نہیں ، بھائی بہن کے لئے بھی نہیں ۔یہ ایک قسم کے آوارہ مزاج اور غیر مہذب بلکہ بے سلیقہ وبدتمیز ہونے کی علامت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہمارے دینی طبقوںمیں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے کہتے ایک دوسرے کو کافر بھی قرار دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بات بات پر دوسروںکو مشرک ،کافر ،بدعتی ،گمراہ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ بول دیئے جاتے ہیں۔اس صورت حال کو آپ بھی سمجھتے ہونگے ۔براہ کرم اس بارے میں شرعی اصول تکفیر آسان لفظوں میں ضرور بیان کیا جائے۔
عبدالرشید خان۔سرینگر
شرعی اصولِ تکفیر ۔۔۔
معاملات کی وضاحت
جواب :کسی مسلمان کو کافر قرار دینے کا معاملہ نہایت سنگین اور خطرناک معاملہ ہے ۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،جو شخص کسی مسلمان بھائی کو کافر کہہ دے تو یا تو وہ شخص کافر ہوگا
جس کو کافر کہا گیا اور یا وہ کافر کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے ۔خود قرآن کریم میں بھی ارشاد ہے :(ترجمہ)اے ایمان والو !جس شخص نے تم کو سلام کیا اُس کو مت کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو ،(النسا)اس کے علاوہ بھی احادیث ہیں،مثلاًایک جہاد میں دورانِ جنگ ایک شخص نے مسلمانوں سے خوف زدہ ہوکر پہلے اُن کو سلام کیا پھر کلمہ پڑھا ،اُس کے کلمہ پڑھنے کے بعد ایک مسلمان نے یہ سوچ کر اُس کو قتل کردیا کہ اس شخص نے محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا ہے،بلا شبہ بظاہر صورت حال یہی تھی اور اس کےگمان کرنے کی وجہ موجود تھی ،اس لئے کہ جنگی حالت تھی اورہوسکتا ہے کہ اس شخص کے دل میں ایمان تھا ہی نہیں ،صرف جان بچانے کے لئے اُس نے کلمہ پڑھا ہو اوریہ کلمہ اُس نے اپنے بچائو کے لئے بغرض ڈھال استعمال کیا ہو ۔مگر جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایسا ہوا ہے تو آپؐ نہ صرف ناراض بلکہ سخت غضب ناک ہوگئے اور فرمایا کہ کیا تم نے کلمہ پڑھنے کے باوجود اُس کو قتل کردیا ؟عرض کیا گیا کہ اُس نے جا ن بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ،دِل سے کہاں پڑھا ہوگا ۔آپ ؐ نے فرمایا :کیا تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا ،اس کا مطلب بالکل واضح ہے۔
دراصل یہ حقیقت اللہ ہی کے علم میں ہے کہ کون شخص مومن ہے اور کون نہیں۔ہر مسلمان اس کا ذمہ دار ہے کہ کلمہ پڑھنے والے مسلمان، جو تمام ضروریات دین کی تصدیق کرتا ہو، کو مومن تصور کرےاور اُس کی طرف کفر کی نسبت نہ کرے۔یہی وجہ ہے کہ محتاط اہل ِ علم کافرانہ خیالات کے حامل شخص کو کافر کہنے میں احتیاط برتتے ہیں ۔ہاں! صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خیالات کافرانہ و ملحدانہ ہیں۔وہ اپنے فرض ِ منصبی کی بنا پر مشرکانہ خیالات کو شرک ،کافرانہ خیالات کو کفر ،ضلالت کو ضلالت کہنے میں کوئی جھجھک نہیں برتتے مگر اُس شخص کو کافر یا مشرک کہنے کی جرأت نہیں کرتے ،جب تک اُس کے کافر ہونے کا پورا یقین نہ ہو۔خدا ترس اور خوف خدا وندی سے لرزنے والے علماء اس خیال سے ہی گھبرا جاتے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کی طرف کوئی کفر کی نسبت کریں جو حقیقت میں صاحب ایمان ہواور وہ کفر واپس اُنہی پر آجائے۔اگر کسی شخص کے عقائد و خیالات میں کفر و شرک کی آمیزش محسوس ہو تو اُس کو کافر قرار دینے کے بجائے امت کو بچانے کے لئے اُن خیالات کو کفر، باطل، شرک اور ضلالت قرار دینے پر اکتفا کرتے تھےاور جب تک کسی شخص سے صریح کفر مثلاً ختم نبوت کا انکار یا کسی عقیدہ ٔمسلمہ کا انکار نہ ہو اور اُس کی کوئی تاویل کی گنجائش نہ ہو ،اُس وقت تک اُس کو کافر قرار نہیں دیتے۔۔۔مثلاً جو شخص قرآن کو کتاب اللہ تسلیم کرتا ہو پھر بھی اُس کو زبردستی منکر قرآن قرار دیا جائے۔اسلام کے وہ بنیادی اصول جو مدار ایمان ہیں،اُن میں اللہ کی وحدانیت ،اللہ کی صفات ،رسالت و ختم نبوت پر ایمان ،کتب سماویہ اور انبیا علیہم السلام کی تصدیق ،آخرت پر ایمان اور وہ عقائد جو دلائل قطعیہ احادیث متواتر ہ سے ثابت ہوں ،اُن عقائد کا انکار کرنا مؤجب کفر ہےمگر جو شخص اُن عقائد کو تسلیم کرتا ہو اُس کودائرہ ٔ ایمان سے خارج کرنا سخت خطرناک اور خود اسلام کے اصول ِ تکفیر کے خلاف ہے۔جو شخص راہ حق سے ہٹا ہوا ہو، اُس سے دلائل کے ساتھ اختلاف کرنا درست ہے مگر کسی باطل خیال کی تردید الگ چیز ہے اور کسی مسلمان کی تکفیر جداگانہ مسئلہ ہے۔بہر حال کسی کو کافر کہنا نہایت پُر خطر اور کئی طرح سے سنگین مسئلہ ہے۔اس میں حد درجہ احتیاط بھی ضروری ہے اور جہاں واقعتاً کفر ثابت اور واضح ہو وہاں اس کا اظہار بھی ضروری ہے مگر اظہار میں فرد پر حکم لگانے کے بجائے اُس کے اظہار باطل پرتنقیدکی جائےاور اُس کے کفر ہونے کے اظہار پر اکتفا کرنے کو ترجیح دی جائے، الا یہ کہ کوئی محرک ہو توشخص پر بھی حکم لگے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۔ایک عام مسلمان پر کتنا علم ِ دین سیکھنافرض ہے؟
راشد سوپور
علم دین حاصل کرنے کا فریضہ
جواب:۔ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اتنا دین جانتا ہو جس سے تمام فرائض ادا کرے اور تمام حرام چیزوں سے بچ جائے ۔اس میں وضو ،غسل ،نماز ،روزہ ،زکوٰۃ اور حج بھی ہےکہ وہ ان اعمال کے فرض ہونے اور ان کو انجام دینے کے طریقوں سے واقف ہو۔اسی طرح اخلاقی ،معاشی اور گھریلو زندگی میں جو احکام اسلام نے ہر مسلمان پر فرض کئے ہیں ،وہ اُن کو جانتا ہو اور جو چیز یںحرام کی ہیں اُن سے بھی واقف ہو،مثلاً شرک ،بدعت ،والدین کی نافرمانی ،جھوٹ ،غیبت ،چوری ،رشوت ،سود ،زنا ،شراب ،ناحق قتل ،کسی کو ایذا پہنچانا ،ملازمت میں کام چوری ،وعدہ خلافی،تجارت میں ملاوٹ ،کمائی میںحرام ذرائع اختیا رکرنا ،غرض کہ تمام حرام چیزوں کو جاننا ضروری ہے ۔یہ عمل مستند کتابوں سے پڑھ کر یا معتبرعلما سے پوچھ پوچھ کرہو ۔غرض کہ اتنا علمِ دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ مسلمان بن کر زندگی گذار سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- سگریٹ ،نسوار ، عاشقی، نیولا، کُبیر مطلب جو چیزیں نشہ کرنے کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہے ،ان تمام چیزوں کو قرآن میں ممنوع اور حرام قراردیاگیا ہے ۔ پھر بھی نہ جانے ہم لوگ ان کا استعمال کیوں کرتے ہیں ۔ کبھی کبھار کوئی عام انسان ، جو نشہ نہیں کرتا ، نمازکے دوران ان نشہ کرنے والوں کے بیچ صف میں لگ جاتاہے تو اس عام انسان(جو نشہ نہیں کرتاہو)کو دُور سے بو آجاتی ہے جو اُ س سے برداشت نہیں ہوتی ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ان لوگو ں، جو نشہ کرتے ہیں ، کے لئے کیا حکم ہے ؟
شوکت احمد…پٹن
سگریٹ ، گٹکا اور نسوار جیسی نشہ آورچیزوں سے گریز لازم
جواب:-تمباکو سے بنی ہوئی تمام نشہ کی چیزیں مثلاً حقہ ،سگریٹ ، نسوار ، گٹکا، نیولا وغیرہ سخت مضر صحت ہیں ۔ اس میں طرح طرح کی شدید نقصانات ہیں ۔ یہ خطرناک بیماریاں لاحق ہونے کا سبب ہیں چنانچہ ماہرین صحت اس سلسلے میں تفصیل سے ان بیماریوں کا حال بیان کرتے ہیں جو تمباکو کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں ۔سگریٹ نوشی سے منہ ، حلق،سینے ، سانس کی نالی ، کھانے کی نالی وغیرہ کو جوامراض لاحق ہوتے ہیں ان کی تفصیلات تو نہایت خوفناک ہیں ۔ سگریٹ نوشی وغیرہ میں اصل انسان اپنی رقم خرچ کرکے طرح طرح کی بیماریاں خریدتاہے ۔ قرآن کریم میں بھی اور احادیث میں بھی اسراف کی سخت ممانعت ہے ۔سگریٹ نوشی پر خرچ ہونے والی رقمیں ظاہرہے کہ یہ انسان کی بنیادی ضروریات پر خرچ نہیں ہوتی ۔ اس لئے اس کو اسراف کہہ سکتے ہیں ۔اس کی وجہ سے منہ میں شدید قسم کی بدبو پیدا ہوتی ہے اور اس بدبو کے اثرات جب اندر تک سرایت کرتے ہیں تو پھر سگریٹ نہ پینے کے باوجود نہایت بری بدبو آتی ہے ۔چنانچہ روزے کی حالت میں سگریٹ نوشی کے عادی افراد سے نہایت قبیح بدبو آتی ہے ۔ یہ دوسرے انسانوں کی اذیت کا بھی سبب ہونا بالکل واضح چیز ہے ۔ اس لئے سگریٹ ، گٹکا ، نیولا وغیرہ چونکہ مضر صحت ہے ، یہ رقم بے جا خرچ کرنے کا سبب بھی ہے ۔ دوسروں کی اذیت کا سبب بھی ۔ منہ سے بدبو آنے کا ذریعہ بھی ہے ،اس لئے اس سے پرہیز کرنا اور جس شخص کو اس کی لت پڑ گئی ہو اُسے اس سے پیچھا چھڑانا بہت زیادہ ضروری ہے۔
سگریٹ نوش شخص اگر منہ کی بدبو صاف کئے بغیر نماز میں کھڑا ہو جائے اور دوسرے نمازی کو اس سے اذیت وتکلیف ہوجائے تو یہ عین عبادت کے دوران دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا سبب ہے حالانکہ مومن کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے ۔