سوال: ۱سحری و افطار کے لئے جو وقت متعین ہے کیا ایک دو منٹ کم زیادہ ہونے سے روزے میں کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں ایک دو منٹ آگے پیچھے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے رہنمائی فرمائیں۔
سوال: ۲:۔افطار اور سحری کے لئے جو میقات او کلینڈر مسجدوں میں آویزاں رکھے جاتے ہیں، اُن کے مابین کہیں کہیں کچھ منٹوں کا فرق ہوتا ہے،ایسی صورت میں کونسا کلینڈر اعتماد کے قابل ہے؟
عبد العزیز…شوپیان
اوقاتِ سحری و افطار میں تقدیم و تاخیردرست نہیں
جواب: ۱-: سحری کھانے کا آخری وقت صبح صادق کا طلوع ہے اور یہ طلوع فجر کہلاتا ہے۔ اس وقت کے ہو جانے پر کھانا پینا بند کرنا لازمی ہے۔صبح صادق کا یہ وقت اختتام سحر، اختتام تہجد، آغاز روزہ اور آغازِ نماز فجر کا وقت ہے۔ اس سلسلے میں یہ امر ملحوظ رہے کہ سحری کے لئے اصل وقت کون سا ہے۔ اس کے لئے محققین، جن میں خاص طور پر علامہ تقی الدین ابن دقیق العید ہیں، نے یہ لکھا ہے کہ پوری رات کے غروب آفتاب سے طلوع صبح صادق تک کے پورے وقفہ شب کے چھ برابر حصے کئے جائیں۔ ان میں اٰخری چھٹا حصہ، جو تقریباً دو گھنٹے ہوں گے یہی دوگھنٹے تہجد کا وقت ہے اور یہی سحری کا بھی وقت ہے۔ اب اس پورے وقت میں کبھی بھی سحری کھاسکتے ہیں۔ اس وقت کا اختتام جس منٹ پر ہوگا یعنی جس منٹ پر صبح صادق کا طلوع ہوگا۔ اُس منٹ سے پہلے ہی سحری سے فارغ ہونا ضروری ہے۔ اگر اس اختتامی لمحہ سے آگے سلسلۂ اکل و شرب باقی رکھاگیا تو وہ روزہ درست نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں حدیث ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم کو بلال کی اذان سحری کھانے سے نہیں روکنی چاہئے۔ اس لئے کہ وہ رات میں ہی اذان دیتے ہیں یعنی حضرت بلال کی اذان اس غرض سے ہوتی تھی تاکہ سوئے ہوئے افراد بیدار ہو جائیں اور جو تہجد میں مشغول ہوں وہ سحری کھانے کے لئے نماز کا اختتام کریں۔بہرحال اذانِ بلال اختتام سحری کے لئے ہوتی ہی نہیں تھی۔ اسی لئے اسی حدیث میں آگے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عبد اللہ ابن ام مکتوم کی اذان پر سحری ختم کرو۔ اس لئے بہرحال ختم سحری کا جو وقت درج ہے اُس سے ایک منٹ بھی آگے کھانے پینے کا سلسلہ جاری رکھنا درست نہیں ہے۔ وہ تو پورے وقفۂ سحری کا اختتامیہ ہے۔اس میں مزید توسع کیسے ہوسکتی ہے۔ اس لئے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چند منٹ آگے پیچھے ہونے سے کچھ نہیں ہوتا وہ غلط کہتے ہیں، اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اذان صبح کے بعد بھی کھا سکتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں۔اس سے یقینا روزہ خراب ہوگا۔چنانچہ تمام فقہاء نے روزے کے مسائل میں لکھا ہے کہ اگر صبح صادق کے بعد یا غروب آفتاب سے پہلے کسی نے کچھ کھالیا تو اُس کا روزہ درست نہ ہوگا۔
دیکھئے نور الایضاع، عالمگیری، درمختار، الجرالرائق، مجمع الاہز،ملتقی الابحر،فتاویٰ تاتا رخانیہ، فتاویٰ قاضی خان، خلاصتہ الفتاوی اور یہی بات تمام شارحین حدیث نے لکھی۔ ملاحظہ ہو فتح الباری شرح بخاری، عمدۃ القاری شرح بخاری،فتح اللہم شرح مسلم ،بذل المجہودشرح ابودائود۔ مرقات شرح مشکوٰۃ وغیرہ۔
کون سامیقات قابلِ اعتماد ہے
جواب۲ -: کلینڈر انسانوں کے بنائے ہوئے وہ حسابات ہیں جو بہرحال انسانی علم کے تابع ہیں۔ اب جب ان کے بتائے ہوئے وقت میں اختلاف ہو جائے تو اب روزے کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے احتیاط برتنا ضروری ہے اور وہ اس طرح کہ جس نقشہ میں اختتام سحری پہلے دکھایاگیا ہو اُس پر سحری کے باب میں عمل کیا جائے اور جس میں افطار میں تاخیر دکھائی گئی ہو اُس میں افطار کے باب میں عمل کیا جائے۔ ll
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-فجر کی جماعت کب شروع کرنی چاہئے ؟ رمضان میں اگردیر سے جماعت کرتے ہیں تو بہت سارے لوگ انتظار کرتے کرتے تنگ آجاتے ہیں اور کچھ پہلے ہی اپنی نماز علیحدہ پڑھ کر آرام کرتے ہیں۔اس لئے سوال یہ ہے کہ فجر کی جماعت کے لئے اسلام کا حکم کیاہے؟ رمضان میں اور رمضان کے علاوہ دونوں کے متعلق جواب دیجئے۔
عبدالرشید …نوشہرہ ،سری نگر
رمضان میں نمازِ فجر جلد ادا کرنادرست
جواب:-رمضان المبارک کے ایام میں فجر کی نما ز جلد ادا کرنا درست ہے بلکہ بہت افضل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی جماعت اذانِ فجر کے متصلاً بعد اداکی جاتی تھی ۔ چنانچہ اذان اور اقامت ِ فجر کے درمیان اتنا وقفہ ہوا کرتا تھاکہ اطمینان سے ساٹھ سے لے کر سو آیات کی تلاوت کی جائیں ۔
نیز حضرت عائشہ صدیقہؓکا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر ایسے وقت میں ادا کرتے تھے کہ عورتیں اپنی چادروں کولپیٹ کر واپس ہوتیں تووہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔(بخاری، ترمذی وغیرہ)
اس لئے رمضان میں اذان کے دس پندرہ منٹ کے بعد جماعت شروع کرنا بہت بہترہے ۔ رمضان کے علاوہ دیگر ایام میں چونکہ نمازیوں کی اکثریت دیر سے مسجد میں پہنچتی ہے اور اگر اوّل وقت میں جماعت پڑھی گئی تو کچھ لوگوں کو اوّل وقت جماعت کی فضیلت مل جائے گی لیکن اکثریت جماعت سے محروم رہ جائے گی ۔اس لئے پورے سال میں جماعت فجر دیر سے اداکی جائے ۔اس کے متعلق صحیح حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نمازِ فجر دیر سے پڑھو اس میں اجر زیادہ ہوگا۔ (ترمذی) اس لئے پورے سال میں طلوع آفتاب سے نصف گھنٹہ پہلے جماعت کھڑی کرنا افضل ہے تاکہ حدیث پر بھی عمل ہو اور جماعت بھی بڑی سے بڑی ہوسکے ۔ یہی اُمت کا عمومی طرز ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۱- آنکھ میں دوائی ڈالنے سے روزہ پر کیا اثر پڑے گا ؟
سوال۲-کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں ؟کچھ کتابوں میں لکھاہے کہ ٹوٹ جائے گا۔
سوال۳- ناک میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں ؟
سوال۴-زنانہ مخصوص معائنہ P.V.جس میں رحم بچہ دانی میںدوائی رکھی جاتی ہے ۔ اس سے روزہ ٹوٹے گایا نہیں؟
سوال۵-روزہ میں Inhaller استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟
محمد عرفان بٹ
دورانِ روزہ آنکھ ،کان اور ناک میں دوائی ڈالنا
جواب:۱-آنکھ میں دوائی ڈالنے کے متعلق تمام قدیم کتابوں میں لکھاہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتاہے ۔ لیکن اُس وقت چونکہ طبّی تحقیقات خصوصاً علم تشریح الاعضاء اس درجہ ترقی یافتہ نہ تھا جس درجہ آج ہے ۔ اس لئے فقہاء نے اُس وقت کے اطباء اورماہرین جسم انسانی کی یہ رائے قبول کی کہ آنکھ کا معدہ سے کوئی تعلق نہیں ان کے درمیان کوئی منفذ نہیں۔اس لئے تمام فقہی کتابوں میں ہی لکھا گیا کہ روزہ نہیں ٹوٹے گا اور یہی تمام فقہی کتابوں میں درج ہوتا رہاہے ۔ آج کا علم تشریح الاعضاء (Anotomy) بہت ترقی یافتہ اور کہیں زیادہ تحقیقی ہے ۔ اس سے آج یہ ثابت ہے کہ آنکھ کے کنارے سے ایک بار یک VIENسیدھے ناک میں آتی ہے اور اُس سے آنکھ کا پانی معدہ تک پہنچاتاہے ۔ اس لئے جب دوائی ڈالی جائے گی تو وہ بھی اسی رگ کے ذریعہ ناک سے گذرتے ہوئے معدہ تک پہنچ جاتاہے ۔ اس لئے آنکھ میں دوائی ڈالنے سے یقیناً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ راقم نے خود بھی متعدد مستندماہرین فقہ و ماہرین طب جدید سے استصواب رائے کیا ہے ۔
جواب:۲-کان کے متعلق قدیم اطباء کی رائے یہ تھی کہ کان کا براہ راست راستہ معدہ تک ہے اور اندر سے ایک منفذ (گذر گاہ)بھی ہے ۔اس لئے تمام قدیم کتابوں میں لکھا گیا کہ کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا لیکن اس وقت کی Anotomy اور خصوصاً طب کے شعبہ E.N.T.کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ کان کے اندر سے معدہ تک کوئی گذر گاہ نہیں ۔ اس لئے خود راقم نے بھی متعدد طبی کتابوں اور طب کے مستند ماہرین سے استفادہ کیا ہے ۔لہٰذا کان میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا البتہ قدیم تمام کتابوں میں چونکہ روزہ ٹوٹ جانے کا حکم لکھا گیا ہے اس لئے اگر اس قدیم قول کی رعایت کرکے دن میں دوائی استعمال نہ کی جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔
جواب:۳-ناک میں دوائی ڈالنے سے یقیناً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ اس میں قدیم اطباء اور آج کے E.N.T.ماہرین سبھی متفق ہیں اور خود ہر انسان کانتیجہ یہ بھی کہ ناک کے ذریعہ سے معدہ تک جائے نقوذ ہے ۔ لہٰذا روزہ میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جانا یقینی ہے ۔ اس لئے روزہ کی حالت میں ناک میں ہرگز دوائی نہ ڈالی جائے اوراگر دوائی ڈالنے کی مجبور ی ہو تو سمجھ لیا جائے کہ روزہ ٹوٹ گیا ہے اور آئندہ اس روزہ کی قضا رکھنی ہوگی ۔
جواب:۴-عورتوں کے امراض مخصوصہ کی جانچ کے لئے اگر رحم یعنی بچہ دانی میں کوئی دوائی پہنچائی گئی تو چونکہ یہ منفذفطری سے اندر جسم انسانی کے اندر ایک ایسی چیز پہنچ گئی جس کا اثر جسم پرپڑے گا اس لئے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔اسلامک فقہ اکیڈیمی میں یہی فیصلہ ہواہے جس میں امراضِ نسواں کے ماہر اطباء کی رائے سے بھی بھرپور استفادہ کیا گیا اور پھر یہ فیصلہ ہواہے کہ اگر صرف آلہ پہنچایا گیا تو روزہ سلامت ہے اگر دوائی بھی ساتھ میں پہنچائی گئی تو روزہ ٹوٹ گیا ۔
جواب:۵-فقہ اکیڈیمی کے ایک تحقیقی اجلاس میں امراضِ تنفس کے متعدد ماہرین اطباء کی تحقیقی آراء سے یہ واضح ہواکہInhallerکا کام پھیپھڑوں کو راحت پہنچاناہے اس لئے ایک قسم کی گیس جوآگے پہنچ کر مائع (Liquid) بن جاتی ہے اندر پہنچائی جاتی ہے لیکن اس گیس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور معدہ تک پہنچ جاتاہے ۔ اس تحقیق پر فقہ اکیڈمی میں فیصلہ ہواکہ Inhaller کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-عموماً لوگ حمام کے غسل خانوں میں بغیر طہارت کے داخل ہوتے ہیں۔ کیا اس جگہ نماز یا کلمات پڑھنا جائز ہوگا؟
( منظور احمد قریشی …باغات برزلہ)
مسجد کے حمام میں نماز و تلاوت کامسئلہ
جواب: -کشمیر میں مساجد میں غسل خانوں سے ملحق پتھر کی سلو ں کا وہ حصہ جس کو حمام کہاجاتاہے ،دراصل اس کو حمام کہنا ہی غلط ہے او ریہ غلط العوام کی وہ قسم ہے جس سے شرعی مسائل تک متاثر ہوجاتے ہیں ۔ حمام کے معنی غسل خانے کے ہیں ۔ چنانچہ جہاں گرم پانی سے نہانے کا انتظام ہو اور ایک بڑے ہال کو چاروں طرف سے بند کردیا گیا ہو پھر چاروں طرف گرم پانی کے نلکے ہوںیا گرم پانی کا حوض ہو اُس ہال میں داخل ہوکر نہانے کا ،بدن کوگرم کرنے کا کام لیا جاتاہے ۔ اسی کو حمام کہاجاتا ہے۔ حمام دراصل صرف نہانے کا ہوٹل ہے ۔ (شرح ترمذی) احادیث میں جس حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے وہ یہی حمام ہے ۔ یہاں کشمیر میں مساجد یا گھروں میں جو حصہ پتھر کی سلوں سے تیار شدہ ہوتاہے اس کا اصلی نام صفّہ ہے جس کو یہاں کے شرفاء ’’صوفہ ‘‘کہا کرتے تھے ، جو مسجد نبوی کے صفّہ سے ماخوذ ہے ۔ اُس صوفہ پر نماز ، تلاوت ، تسبیح وغیرہ سب جائز ہے ۔ مساجد میں جو صفہ یعنی یہاں کے عرف میں حمام ہے اُس میں یقیناً بے وضو وغسل آدمی داخل ہوتاہے مگر اُس کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع قرار نہیں پائے گا۔ جیسے کہ اپنے گھروں میں میاں بیوی کے مخصوص کمرے میں بھی انسان بے وضو وبے غسل ہوتاہے تو اُس وجوہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع نہیں ہوتا ۔اسی طرح مساجد کے صفہ(حمام)کا معاملہ ہے کہ یہ مسجد کا حصہ بھی ہے مگر مسجد کے حکم میں نہیں ۔اُس گرم حصہ پر اگر صف بچھائی جائے اور اس صف پر سنتیں ، نوافل ،تلاوت ،تسبیح ، ذکر وغیرہ کیا جائے تو یقیناً یہ جائز ہے، بلکہ اس کی وجہ سے وہ لغوباتوں کے بجائے محل عبادت بن سکتاہے ۔ ورنہ یہ صفہ طرح طرح کی لغویات کا مرکز بن جاتاہے ۔