سوال :کچھ لوگ جادو اور جنات کا بالکل انکار کرتے ہیں اور ساتھ ہی کبھی کہتے ہیں کہ سحر ،آسیب اور جنات کےتصرُف کا عقیدہ شرک ہے۔اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔اب اس بارے میں صحیح عقیدہ کیا ہے اور اگر کسی پر جادو کیا گیا ہو یا کسی پر جنات کے اثرات ہوں تو اس کا علاج کیا ہے اور کس سے علاج کرانا چاہئے؟
محمد خلیل ۔ بارہمولہ
جنات اللہ کی مخلوق
تصرفات سے بچنے کے لئے مخصوص آیات ِ قرآنی کا وِرُد ضروری
جواب :جادو کی حقیقت یہ ہے کہ شرک وکفر کے کلمات و حرکات کے ذریعہ دوسرے پر ایک قسم کا تصرف کیا جاتا ہے اور اس میں شیاطین اور جنّات سے مدد لی جاتی ہے۔قرآن کریم میں سحر کا تذکرہ موجود ہے ۔سحر اور جادو ایک ہی چیز ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق پہلے پارے میں جو بیان ہے ،اُس میں جادو یعنی سحر کا تذکرہ ہے اور یہ بیان ہوا ہے کہ وہ اس جادو کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان جدائیگی کراتے تھے۔اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے متعلق کئی جگہ آیات مبارکہ ہیںکہ فرعون جادو گروں کے ذریعہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا ۔اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جادو کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہے۔حضرت نبی کریم علیہ السلام نے کبیرہ گناہ شمار کرتے ہوئے سحر کا تذکرہ بھی فرمایا اور حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ حضرت نبی کریم علیہ السلام پر یہودیوں نے جادو کیا تھا،اُس کے علاج کے لئے سورہ خلق و سورہ ناس نازل ہوئی تھی۔جنّات اُسی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے جس طرح انسان ہیں۔قرآن کریم میں پوری ایک سورت ،سورہ جِن کے نام سے موجود ہے۔
حضرت نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں بارہا جنات کی آمد اور اُن کے اسلام قبول کرنے کے واقعات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔جنات کے ذریعہ تکالیف کا پہنچنااور پریشانی میں تعاون ملنا ایک حقیقت ہےاور یہ ایسے ہی ہے جیسے اچھے انسان سے انسان کو راحت بھی ملتی ہےاوربُرے انسان سے بڑی تکلیف اور مصیبت بھی آتی ہے۔جیسے انسان دوسرے انسان کو تکلیف پہنچنا سکتا ہے،اسی طرح جنات کا معاملہ بھی ہے۔حضرت سعد بن عبادہ جو انصار مدینہ کے سرداروں میں سے تھے،اُن کو جنات نے ہی شہید کیا تھا،جیساکہ اُن کی سوانح میں لکھا گیا ہے۔بہر حال یہ بات حق ہے کہ جنات ایک مخلوق ہے اور انسانوں کی طرح وہ اللہ کے احکام کے مکلّف ہیںاور وہ انسانوں پر قسم قسم کے تصرفات کرتے ہیں۔اس کا مشاہدہ ہردور میں پایا گیا اور آج بھی ۔اب اُن کے بُرے تصرفات سے بچنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جائیں ،اُس کے لئے قرآن کریم کی اُن آیات ِ مُبارکہ کے ورد کا مستقل معمول بنایا جائےجو جنّات ،جادو اور اس طرح کے اثرات مثلاً نظرِبَد ،بھوت ،پری کے نقصانات سے بچنے کے لئے ہیں۔یہ مبارک آیات’’ منزل ‘‘کے نام سے ایک ہی کتابچہ میں جمع کی گئی ہیں۔ اُن کی تلاوت صبح و شام کی جائےاور اپنے جسم پر دَم کیا جائے۔اسی طرح احادیث مبارکہ میں جو دعائیں آئی ہیں اُن کو کثرت سے پڑھا جائے۔اگر اس سے افاقہ نہ ہو تو پھر کسی عامل سے علاج کرایا جائےمگر عامل کے لئے شرط ہے کہ وہ صحیح مسلمان ہو ،دیندار اور ماہر ہواور اس کام میں جو ناقص اور نقلی افراد سرگرم ہیں، اُن کے پاس جانے سے پرہیز کریں۔جو افراد جادو جنّات کا علاج کرنے میں مہارت نہیں رکھتے ،اُن کے لئے بھی جائز نہیںوہ لوگوں کو دھوکہ دیں اور جو لوگ اس کام کو صرف متاثرہ افراد سے رقمیں وصول کرنے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اُن سے دور رہنا بھی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-ہم بہت سارے دوست عمومی تعلیم سے وابستہ ہیں او رساتھ ہی دینی علوم کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ ہم کن کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہماری دینی فکر درست بھی اور پختہ بھی ہو ۔
ند یم احمد — جموں
پختہ دینی فکر کیلئے حصولِ علم کی ضرورت
جواب:-دینی علم دراصل بہت سارے علوم کا مجموعہ ہے اور جب تک باقاعدہ اُن تمام علوم کو کسی مستند ادارے میں حاصل نہ کیا جائے اُس وقت تک مکمل رسوخ واعتماد حاصل نہیں ہوپاتا ۔تاہم دینی فکر کو پختہ کرنے اور اسے تمام طرح کے افراط وتفریط سے محفوظ رکھ کر مضبوط بنانے کے لئے ایسے افراد جو عصری علوم سے وابستہ ہوں، کیلئے درج ذیل کتابیں یک گونہ ضرور فائدہ مند ہوں گی ۔تفسیر میں آسان ترجمہ قرآن اُردو وانگریزی از مولانا محمد تقی عثمانی ۔ پھر تفسیر معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع ؒ (اردو انگریزی ،علوم القرآن از مولانا تقی عثمانی ، معارف الحدیث (اردو انگریزی) از مولانا منظور نعمانی ۔ الادب المفرد از امام بخاریؒ،ریاض الصالحین (اردو وانگریزی ) از امام نوریؒ۔ محاضرات حدیث از ڈاکٹر محمود احمد ۔عقائد میں عقیدۃ الطحاویؒ اور عقائداسلام از مولانا محمدادریس کاندھلویؒ۔سیرت طیبہ میں سیرت النبی ؐاز علامہ شبلی ؒ وعلامہ سید سلیمان ندوی اور الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمٰن نیز رحمتہ اللعالمینؐ۔ تاریخ اسلا م میں مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی تاریخ اور تاریخ ملت حیات الصحابہ از مولانا محمد یوسف کاندھلوی ۔ مواعظ میں ، اصلاحی خطبات ، خطبات فقیر، خطباب حکیم الاسلام ، مواعظ فقیہ الامت نیز پیر ذوالفقار احمد کی تمام کتابیں ۔متفرقات میں اختلافات امت اور صراط مستقیم ، سنت نبوی اور جدید سائنس ، مغربی میڈیا ، جہانِ دیدہ ،آپ کے مسائل اور ان کا حل ۔ ثبوت حاضرہیں ۔فتاویٰ محمودیہ اور مولانا محمد رفعت قاسمی کی تمام کتابیں۔ان کے بعد کسی مستند عالم سے رہنمائی لی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کو نذر کہتے ہیں ۔ نذر رکھنے کا شرعی طریقہ کیاہے ؟ کیا نذرکی رقم یا چیز مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کودی جاسکتی ہے ۔ اگر نذر کوئی جانور ہو تو اس کےگوشت کو کن لوگوں میں بانٹاجائے ۔
ابوعقیل … سوپور
نذراداکرنے کا شرعی طریقہ
جواب:-نذرکاشرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے کسی مشکل مرحلے کے لئے یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس طرح زبان سے نیت کی جائے ۔ اگر میرا یہ معاملہ حل ہوگیا ، یا میری یہ ضرورت پوری ہوگئی یا ہمارا فلاںبیمار تندرست ہوگیا تو میں اللہ کی راہ میں اتنی رقم صدقہ کروں گا یا جانور قربان کروں گا یا یہ مجھ پر لازم ہے ۔ پھر جب وہ معاملہ حل ہوجائے یا وہ مشکل حل ہوجائےتواتنی رقم صرف غریبوں میں تقسیم کی جائے ۔ یہ رقم مسجد میں خرچ کرنا درست نہیں ہے ، ہاں جس مدرسہ میں غریب بچوں پر کھانے پینے میں یہ رقم خرچ ہوسکتی ہواُس مدرسہ میں نذر کی یہ رقم دینا درست ہے جیسے زکوٰۃ وصدقہ فطر کی رقم اُن مدارس میں دینا درست ہے ۔اگر قربانی کی نذر مانی تو اس جانور کا گوشت سارے کاساراغرباء میں تقسیم کرنا ضروری ہے ۔نذرکے لئے ضروری ہے کہ جس کام کو انسان اپنے اوپر لازم کرے اُس کی کوئی قسم شریعت سے پہلے ہی لازم کی ہو ۔مثلاً نماز، روز ہ، صدقہ ، حج ، قربانی ، خیرات انہی کاموں کو جب کوئی شخص اپنے اوپر لازم کرے گا تو وہ شرعی نذر بن جائے گی۔اگر کسی ایسے کام کو اپنے اوپر لازم کیا گیا جو شریعت نے نہیں بھی لازم نہ کیا ہوتو وہ نذر نہیں بنے گی۔ اس لئے وہ عبادت نہ ہوگی اور نذر عبادت کے قبیل سے ہے چاہے بدنی عبادت ہویا مالی عبادت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-بہو ،ساس ، داماد ،سسر اگر غریب ہوں تو کیا ان کو زکوٰۃ ،عشر یا صدقہ فطر دے سکتے ہیں ؟
غلام عباس، بانڈی پورہ ، کشمیر
اصول اور فروع کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
جواب:-زکوٰۃکی رقوم ساس ، سسر ، داماد ،بہو ،بہنوئی او ربرادرِ نسبتی کو دینا درست ہے بشرطیکہ وہ مستحق ہوں ۔ جیسے دادا ،دادی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے اسی طرح نانا نانی کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے ۔ اس لئے اصول اور فروع کو زکوٰۃدینا درست نہیں ہے اصول میں والدین اور والدین کے والدین آتے ہیں جبکہ فروع میں اولاد اور اولاد کی اولاد آتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-نیم آستین والے قمیص میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں اور آ ج کل کے نوجوانوں میں کڑھے پہننے کا فیشن ہے ، کیا اسے پہنے ہوئے نماز پڑھنادرست ہے ؟
ایک سائیل
شرعی لباس میں نماز پڑھنا افضل
جواب:- افضل اور شرعی طور پرپسندیدہ یہ ہے کہ شرعی لباس میں نماز ادا کی جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ہر سجدہ کے وقت اچھی زیب وزینت کرو ۔ (سورہ الاعراف )۔ظاہرہے یہاں شرعی زیب وزینت ہی مراد ہے۔ شرعی لباس یہ ہے کہ پوری آستین والی قمیض جو ستر کرنے والی ہو اور ایسا پاجامہ یا پتلون جو ٹخنوں سے اوپر اور رانوں اور سر ینو کے مقام پر ڈھیلی ڈھالی ہو تاکہ ستر کے حصے کا حجم ظاہرنہ ہو اور سرپر عمامہ یا ٹوپی ہو ۔بس اس طرح کے لباس میں نماز پڑھناشریعت کا مطلوب ہے۔ مجبوری میں جب نصف آستین میں نماز پڑھی گئی تو وہ ادا ہوجاتی ہے اور جب کوئی ایسی حالت میں ہوکہ یا تو نماز چھوڑ دینی پڑے یا نصف آستین والی شرٹ میں نماز پڑھنی پڑے تو ایسی حالت میں اُسی شرٹ میں نماز پڑھیں مگر نماز ترک نہ کی جائے ۔ہاتھوں پر کڑا یا دھاگا باندھنا اہل کفر کا شعار ہے ۔اس سے سختی سے پرہیز کرنا لازم ہے اس لئے کہ اس سے ایمان کو خطرہ ہوتا ہے۔اہل کفر کا کوئی شعار مثلاً قشقہ کھینچنا ،ماتھے پر ٹیکہ کرنا،صلیب لٹکانا ، زنار باندھنا ،ہاتھوں میں کڑے ڈالنایا کلائی میں لال یا سیاہ رنگ کے دھاگے باندھنا یا منکوں یعنی لکڑی کے دانوں کے ربن باندھنا یہ سب مختلف غیر مسلم اقوام کے مذہبی شعار ہیں ۔ مسلمانوں کو ان سے ایسے دور رہناضروری ہے جیسے کسی زہریلی چیز سے انسان دور رہتاہے ۔ زہرجان کے لئے خطرہ ہے او رکفر کا شعار اختیار کرنا ایمان کے لئے خطرہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:آج کل بکثرت یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص پر سحر کیا گیا ہے یا کسی عورت کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ سحر کراتی ہےیا کچھ لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں پر سحر کرتا ہے،تعویز کرتا ہے اور لوگ اُس کے پاس اس لئے جاتے ہیں تاکہ وہ دوسروں پر تعویز کروائیں۔اس گھمبیر مسئلہ کے متعلق تفصیل سے جواب تحریر فرمائیں۔
ایک سائل ۔بمنہ سرینگر
جادو اور سحرہ گری حرام عمل
جادوگر اور کاہن کے پاس جانے سے ۴۰روز تک نمازیں قبول نہیں ہوتیں
جواب :کسی شخص پر خود یا کسی اور کے ذریعہ سحر کرانا سخت ترین حرام ہے ۔اس بدترین جُرم کی وجہ سے بعض دفعہ انسان کُفر تک پہنچ جاتا ہے ۔یہ ایسا خطرناک اور بُرا کام ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ جادو اور سحر کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے اسلامی حکومت میں سزائے موت ہے۔جادو سیکھنا ،جادو کرنا ،جادو کرانا اور اس کے ذریعہ پیسے کمانا یہ سب حرام ،گناہ ِ کبیرہ تو ہے ہی ،اس کی کچھ صورتوں میں ایمان بھی ختم ہوسکتا ہے۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب شرح الفقہ الاکبر اور ردالمختار شامی میں ہے ،سحر کرنے والے کا سحر کرنا جب ثابت ہو یا خود اقرار کرے تو وہ سزائے موت کا مستحق ہےاور اُس کی توبہ بھی قبول نہ کی جائے گی۔یہی حکم اسلامی نظامِ حکومت کے لئے لکھی گئی مشہور کتاب مُعین الجکام میں ہے،لہٰذا سحر کرنے والا شخص چاہے وہ سحر کرانےوالا مرد ہو یا عورت ،وہ سمجھ لیں یہ کام گناہِ کبیرہ تو یقیناً ہے اور کچھ خاص صورتوں میں اس پر کفر کا حکم بھی لگتا ہےاور کسی کی صحت کو خراب کرنے،کسی کا رشتہ متاثر کرنے،میاں بیوی یا بھائیوں یا رشتہ داروں کے درمیان نفرتیں اور دشمنیاں پیدا کرنے یا کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کے لئے سحر کرنا یا کرانا ہر حال میں سخت ترین حرام کام ہے۔حدیث میں زناکاری کے ذریعہ کمائی کرنے اور جادو و کہانت کے ذریعہ کی جانے والی کمائی کو ایک ہی درجہ کا حرام قرار دیا ہے۔ایک حدیث میں ہے جو کسی عراف،جادو گر اور آئندہ کی خبریں بتانے والے کا ہن کے پاس جائے ،اُس کی نماز یں چالیس دن تک قبول نہ ہوں گی۔(مسلم)ایک حدیث میں ہے کہ اُس نے اُس دین کے ساتھ کفر کیا جو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔خلاصہ یہ کہ اس جُرم کا ارتکاب کرنے اور دوسروں پر یہ مجرمانہ کام اور ظلم کرنے ،کرانے سے ہر مسلمان کو پرہیز کرنا لازم ہے۔البتہ سحر زدہ لوگوں کا جادو اُتارنے اور اُن کا علاج کرانے ،اسی طرح جنات اور آسیب سے متاثرافراد کا علاج کرنے کی نیت سے عملیات سیکھنا درست ہے اور پھر متاثرہ مصیبت زدہ افراد کا علاج کرنا درست ہے بلکہ یہ عمدہ خدمتِ خلق ہے اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔