سوال:-غسل میں نیت کیا کرنی چاہئے؟غسل کن کن چیزوں سے فرض ہوتاہے ؟غسل میں کتنے فرض ، سنت اور مکروہ ہیں ؟کیا فرض چھوٹ جانے سے غسل ہوتاہے ؟غسل کا صحیح (مسنون)طریقہ کیاہے ؟کیا عورت کے بال بھی غسل میں دھونے ہیں؟ روزے میں کس طرح غسل کریں ؟جمعہ دن غسل کرنا کیساہے ؟اس کاثواب بتائیں ۔
شبیر احمد …اسلام آباد ،کشمیر
غسل کی فرضیت اور مسائل
جواب:-کسی مسلمان کو جب ناپاکی لاحق ہوجائے جس کی بناء پر وہ نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے لائق نہیں رہتا۔ اُس ناپاکی سے پاک ہوکر نماز کے قابل بننے کے لئے بھی غسل لازم ہوتاہے اور کبھی وضو لازم ہوتاہے ۔ اب چاہے وضو کرنا ہو یا غسل دونوں میں ایک ہی نیت کرنی ہوتی ہے ۔
غسل کرنے میں دل سے یہ ارادہ کریں کہ میں اپنے جسم کو شریعت اسلامیہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق پاک کرتاہوں تاکہ میں نماز کے قابل ہوجائوں ۔یہی غسل کی نیت ہے ۔
غسل لازم ہونے کی وجوہات یہ ہیں : احتلام ہونا ۔ یہ مرد کوہو یا عورت کو ۔ اگلی شرمگاہ سے شہوت کے ساتھ منی خارج ہونے کواحتلام کہتے ہیں ۔ اس سے غسل کرنا فرض ہوجاتاہے ۔ دوسرے مرد وعورت کا ہمبسترہونا۔اس میں صرف دخول کرنے سے دونوں پر غسل لازم ہوتاہے چاہے انزال ہوا یا نہ ہوا ہو۔
ان دوامور کے علاوہ عورتوں پر غسل لازم ہونے کی دو وجوہات اور بھی ہیں ۔ ایک حیض آنا ، دوسرے نفاس آنا۔
حیض ہرماہ آنے والے نسوانی عذر کو کہاجاتاہے اور نفاس اُس خون کو کہتے ہیں جو بچہ پیدا ہونے کے بعد آتاہے ۔اس حیض ونفاس میں حکم یہ ہے کہ اس خون کے ختم ہونے کے بعد غسل کرنا لازم ہوتاہے ۔ حیض زیادہ سے زیادہ دس دن اور یا پھرعادت کے ایام کے بقدر ہوتاہے اور نفاس زیادہ سے زیادہ چالیس دن ایامِ عادت کے بقدر ہوتاہے ۔
غسل میں تین فرض ہیں ۔ اچھی طرح غرغرہ کے ساتھ کلی کرنا ، ناک میں نرم ہڈی تک پانی پہنچانا،سارے جسم کے ہر ہر حصے کو پانی سے تر کرنا ۔
غسل میں یہ چیزیں سنتیں ہیں ۔ بسم اللہ پڑھنا ، دونوں ہاتھوں کو دھونا پھر استنجاء کرنا ۔جسم پر اگر ناپاکی لگی ہو تو اُس کو دھونا پھر پورا وضو کرنا ۔پھر سر پر پانی بہانا ۔ اُس کے بعد پہلے دایاں کندھاں پھر بایاں کندھا دھونا۔ پھر پورے جسم پرپانی بہانا ۔ تسلسل کے ساتھ غسل کرنا۔ جسم کو رگڑنا اور مَل مَل کردھونا۔ پورے جسم پر تین بار پانی بہانا ۔ کم سے کم پانی خرچ کرنا یعنی پانی کے اسراف سے بچنا ۔
غسل کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے جیسے غسل کی سنتیں بیان ہوئیں ۔ اسی ترتیب کے مطابق غسل کرنا سنت ہے ۔
غسل کے اخیر میں پھر دوبارہ وضو کرنا ہرگز لازم نہیں ہے ۔ ہاں اگر غسل کے فارغ ہونے پر پیشاب کے قطرے نکل آئیں تو پھر غسل کرنے کے بعد وضو بھی لازم ہوگا ۔
عورت کو اپنے غسل میں سارے جسم کے ساتھ سراور سر کے سارے بال دھونا بھی لازم ہے ۔ ایک بال بھی یا اُس کی جڑ بھی اگر خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہربال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتاہے ۔
البتہ اگر عورت نے بالوں میں بہت ساری مینڈیاں گندھی ہوں جن کو کھولنا دِقّت طلب بھی ہو اور وقت طلب بھی جیسے کہ عام طور ہمارے کشمیر میں بکروالوں کی خواتین کرتی ہیں تو اس صورت میں وہ مینڈیاں(لٹیں) کھولنا ضروری نہیں ۔البتہ بالوں کی جڑوں کو ترکرنا ضروری ہے اور یہ ہرحال میں ضروری ہے ورنہ غسل نہ ہوگا ۔
روزے میں غسل اُسی طرح کرناہے جس طرح باقی ایام میں ۔ البتہ کلی میں غرارہ ضروری نہیں ہے ۔ اس لئے جب روزے کی حالت میں غسل کیا جائے تو غرارہ نہ کیا جائے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی حلق سے نیچے چلا جائے اور روزہ فاسد ہوجائے ۔جمعہ کے دن غسل کی بہت فضیلت ہے اور تاکید کے ساتھ غسل کرنے کا حکم احادیث میں موجود ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کا غسل ہرمسلمان بالغ پر لازم ہے ۔ (بخاری ومسلم)
اس لئے حدیث پر عمل کرنے اور سنت انجام دینے کی نیت سے جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہئے ۔ ہاں بیماری ، سفر یاپانی سرد ہونے کے باعث غسل نہ کرپائیں تو کم ازکم اس کا احساس اور افسوس ہونا چاہئے کہ ایک سنت پر عمل نہ ہوپایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔آج کل مسجدوں میں ائرکنڈیشنز لگائے جاتے ہیں۔ التماس ہے کہ اگرمحکمہ بجلی کو فیس ادانہ کی جائے تو ایسی مسجدوں میں نمازوں کا کیا حال ہوگا ؟
غلام مصطفی علوی …سرینگر
مساجد میں بجلی کا استعمال ،فیس کی ادائیگی لازمی
جواب:-مسجد میں ائرکنڈیشن کا انتظام دُرست ہے لیکن جیسے روشنی کے انتظام کے لئے بجلی فیس اداکرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح ائرکنڈیشن میں صرف ہونے والی بجلی ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔ اگرخدانخواستہ بجلی فیس ادا نہ کی جائے تو نماز تو پھر بھی ادا ہوجاتی ہے مگر بجلی کی فیس ادا نہ کرنے کا گناہ برقرار رہے گا ۔
بجلی کی فیس ادا کرنے کا سب سے بہتر اورمحتاط طریقہ میٹر لگانا ہے تاکہ روشنی ، پنکھوں اور ائرکنڈیشن میں جتنی بجلی خرچ ہو میٹر کے ذ ریعہ اُس کی پوری مقدار سامنے آئے اور پھر اتنی ہی فیس ادا کریں ۔
یہ بات ایمانی غیرت کے خلاف ہے کہ مسلمان اللہ کے گھر میں اپنی راحت کا انتظام کریں مگر اُس کا غیر شرعی طریقہ اپنائیں ۔
جیسے چوری کی لکڑی سے حمام گرم کرنا ، چوری کے پنکھوں سے ٹھنڈک کا انتظام کرنا یا چوری کے قالین نما جائے نماز مسجد میں بچھانا غلط ہے ۔ ایسے ہی بجلی استعمال کرکے اُس کی فیس ادا نہ کرنا غیر شرعی ہے۔ ایسی عبادت جس میں کسی غیر شرعی چیز کی آمیزش ہو وہ کیسے اللہ کی رضا کا سبب بن سکے گی ۔ اس لئے اپنی مساجد کا بہتر سے بہتر انتظام کرنا جیسے تقاضۂ ایمان ہے ۔ایسے ہی اُس انتظام کو حلال طریقہ سے چلانا بھی مقتضائے دین وایمان ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔وادی کشمیر ،جسے عرف عام میں ’’پیرواری‘‘ کہاجاتاہے ، میں روز بروز حیاء ،شرم ، ایمان اور باقی اچھائیاں سب اوجھل ہورہی ہیں ،بے راہ روی کا دور دورہ ہے ۔مہربانی کرکے بے راہ روی کی وضاحت کریں ، اس کے بُرے نتائج اور حل بھی تجویز کریں ۔
ارشدحسین …پلوامہ
بے راہ روی :اسباب وتدارک
جواب:- کشمیریقیناً سرزمین اولیا رہی ہے ۔انہی اولیاء کی دعوت اور ہجرت ومحنت سے یہاں اسلام کی دولت آئی ، انہی کی مہاجرت اور پھر یہاں سکونت سے اسلامی تہذیب پروان چڑھی اور انہی کی مساعی سے یہاں علم ، عمل ،صلاح، تقویٰ ، تمدن ، صنعت اور معیشت کے چراغ روشن ہوئے لیکن اس وقت یہاں کے لوگ اپنی اس روشن تاریخ اور اُسکے تقاضوں سے مسلسل دورہوتے جارہے ہیں ۔ ایک زمانے میں یہاں کے غیر شادی شدہ نوجوان بھی عمامہ باندھا کرتے تھے اور غیر شادی شدہ خواتین کے سرپر قصابہ ہواکرتا تھا ۔لیکن آج عریانیت ، فیشن ، برہنگی کی دوڑ ہے اور روز افزوں ہے ۔ اسکے متعدد اسباب ہیں ۔ ایک تو مغرب پرستی ، دوسرے نظامِ تعلیم میں اخلاقیات کا فقدان ، تیسرے مخلوط نظام تعلیم ، چوتھے بازاروں میں مصنوعی اور ریڈی میڈ کپڑوں کی بھرمار ، پانچویں اسلامی اور غیر اسلامی تہذیب کی جنگ کی حقیقت اور اُس کے اثرات کا ادراک نہ ہونا۔چھٹے اسلامی تہذیب اور اس کے روشن نقوش حیاء ، عفت ، پردہ،احترام ،حرام سے پرہیز ، ادائیگی فرض وغیرہ کے تحفظ سے بے پروا ہونا، ساتویں اسلام مٹانے والی سرگرمیوں کا بے شعوری کی وجہ سے آلہ کار بننا۔ یہ اور اس جیسے دوسرے متنوع اسباب ہیں جس کے تلخ نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ اس کا علا ج اولاً نظامِ تعلیم کی درستگی ہے ۔ اس میں اسلامی اخلاقیات کی ترجیح ، مغربی تہذیب کی یلغار سے پوری طرح دامن جھاڑ دینا ،نوجوانوںکا جلد سے جلد نکاح کردینا،میڈیا میں بے حیائی وجنسی بے راہ روی کے سارے مواد پر قدغن لگانا اور سنت نبویؐ کا احیاء ہے ۔ غیر اسلامی حرکات سے اجتناب ، نوجوان نسل کے اختلاط کو ختم کرنا او راسلام کی تہذیب (لباس زبان عادات میں )اپنا کر تعلیم ، ملازمت ،تجارت اور شادی بیاہ کرنا ، یہ سب اساسی امور ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-حلال جانور کے ’’خصیتین‘‘ کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔ عام خیال میں ان کے کھانے میں کوئی قباحت نہیں ، اس میں تھوڑی کراہت ہے ۔ جس کی وجہ سے شادی بیاہ کے موقع پر لوگ ان کو آشپازوں سے چھلوا کر اور پھر تلوا کر مزے لوٹ لوٹ کر کھاتے ہیں ۔اب اسی پر بس نہیں رہا ، آشپاز ان کو اب رستہ اور گشتابہ کے گوشت کے ساتھ کوٹ کر ملاتے ہیں ۔
سوال:۲- اوجڑی کے استعمال کے بارے میں شرعی حیثیت کیا ہے کیونکہ عرصۂ دراز سے جب سے وازہ وان کا وجود ظہور پذیر ہوا ہے تب سے اوجڑی کی ایک ضیافت ’’میتھی‘‘ ترامی پر سر فہرست ہوتی ہے ۔
سوال:۳- اگر چند افراد پیش امام کے پیچھے اقتداء کے بعد اس کے پیٹھ پیچھے دشنام ترازی اور بُرا بھلا کہیں یا تواتر کے ساتھ یہ عمل کرتے رہیں ۔ ان چند نمازیوں کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا وہ امام مذکورہ کے پیچھے برابر اقتداء بھی کرتے رہیںگے اور دشنام درازی کا سلسلہ بھی جاری وساری رکھیں ۔ وضاحتاً جواب سے مستفید فرمائیں ۔
بشارت احمد بابا ،چھتہ بل ، سرینگر
’’خصیتیں ‘‘ و اُجڑی کا حکم
جواب:۱-حلال جانور کی سات چیزیں کھانا حدیث کی رو سے منع ہیں ۔ یہ حدیث بیہقی ،طبرانی میں موجود ہے ۔ اُن سات چیزوں میں سے ایک خصیتین بھی ہیں لہٰذا یہ کھانا بھی ممنوع ہیں ۔ فقہ اسلامی کی کتابوں میں یہی لکھا ہے ۔
جواب:۲- اوجڑی اچھی طرح صاف کی جائے تو وہ کھانا جائز ہے ۔نہ کسی حدیث میں اس کی ممانعت ہے نہ کسی امام مجتہد نے اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا حکم لکھاہے اور نہ ہی دنیا میں کسی جگہ کے علماء یا عوام اس کو مکروہ یا حرام قرار دیتے ہیں۔ اسی لئے کشمیر میں صدیوں سے اس کو کھانے وکھلانے کا رواج ہے ۔ آج تک کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ کوئی ناجائز ہے ۔فقہ اسلامی کی کسی بھی مستند کتاب میں بھی اس کے ممنوع ہونے کی کوئی بات کہیں منقول نہیں ۔فتاویٰ کی کتابوں میں صراحتاً موجود ہے کہ یہ حلال ہے ۔ اس لئے اوجڑی کھانے میں مضائقہ نہیں ہے ۔
امام کو دشنام کرنا گناہ ِ کبیرہ
جواب:۳- حدیث میں ہے کہ مومن کو گالی دنیا فسق ہے ۔(بخاری)
امام کا حق تو عام نمازیوں سے کہیں برتر ہے ۔ اس لئے اس کو دشنام طرازی کا نشانہ بنانا زیادہ بُرا ہے ۔ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اس پر توبہ لازم ہے ۔ امام میں کوئی کمی یا نقص ہو تو حکمت او رنرمی سے اُس کو بتایا جائے کہ یہ کمی دور کریں مگر غیبت کرنا ، پس پشت بُرا بھلا کہنا ،لعن وطعن کرنا اور بہتان طرازی سخت گناہ ہے ۔
ایسا شخص جو اُس امام کے پیچھے نماز بھی پڑھے اور اُسی پر طعن وتشنیع بھی کرے ، وہ کئی گناہوں کامرتکب ہوجاتاہے اس کے لئے توبہ استغفاربھی لازم ہے اور اپنی اصلاح کرنا اور اس غیر شرعی طرز عمل سے اجتناب کرنا بھی لازم ہے ۔