پانی مخلوقاتِ عالم کا مدارِ حیات
اس کو آلودہ کرنے پر لعنت کی وعید
سوال :-کشمیر میںجہاںدیکھیں جھیلیں ،ندی نالے،چشمے اور دریاموجود ہیںاوران سے وافر مقدار میں پانی برآمد ہوتا ہے ،جو زندگی کی رفتار کو آگے بڑھانے کا ایک بنیادی ذریعہ ہے ،لیکن برسہا برس سے پانی کے ان ذرائع اور ذخائر کے ساتھ ہم نے کیا کچھ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔آج بھی اس حوالے سے ہمارا رویہ کیسا ،وہ عیاں و بیاں ہے۔ تقریباً پورا کشمیر پاک و صاف اور بہترین پانی کے ذخیروں کے خزانوں سے بھر پور ہے مگر اس پانی کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے ۔اس کی تفصیل بتایئے اور اس رویہ کی خرابیاں اور اُس کے نتایج بھی بتایئے اوراس بارے میں اسلام کا حکم بھی بتایئے ۔میں ایک سوشل ادارے سے وابستہ ہوں اور بہت درد مندی سے یہ سوال کررہا ہوں۔
فہیم احمد خان ۔سرینگر
جواب :-پانی اللہ کی وہ نعمت جس کی بنیاد پر ہر مخلوق کی زندگی قائم ہے ،کیڑوں سے لے کر ہاتھیوں تک ،تتلی سے لے کر مچھلی تک اور جانوروں سے لے کر انسان تک ہر چیز کی حیات کا مدار یہی پانی ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر پانی کے مدارِ حیات ہونے کا بیان کیا ہے ۔آج کی سائنس اور انسانوں کا مشاہدہ بھی یہی ہے ۔اس پانی کے ساتھ عموماً جو غیر شرعی رویے پائے جاتے ہیں اُن میں سب سے بدترین رویہ یہ ہے کہ آج ہر قسم کی گندگیاں اسی پانی میں ڈالی جاتی ہیں۔چنانچہ عام گھر والے ،ہاوس بوٹ والے ،جھیلوں کے کناروں پر ہوٹلوں والے وہ تمام دریا اور نالے جو بستیوں میں سے گزرتے ہیں تو عموماً ہر قصبے ،شہر اور بستی والے اپنے گھروں کی ہر قسم کی گندگی اسی پانی میں ڈال دیتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں سے یہ پانی نکلتا ہے وہاں شفاف تو ہوتا ہے اور پھر انسانوں کی بستیوں سے گذر کر آگے پہنچتا ہے تو سخت گندہ ہوچکا ہوتا ہے ۔اس کا مضر ،آلودہ اور زہریلا ہونا طے ہے ۔غسل خانوں اوربیت الخلا ئوں کا فضلہ، اسی طرح پلاسٹک کی بوتلیں اور پالیتھین کے استعمال شدہ ٹکڑے اسی پانی میں ڈال کر اس پانی کو آلودہ بھی کیا جارہا ہے اور زہریلا بھی بنایا جارہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ پوری قوم کی اکثریت اس جرم کے احساس سے بھی محروم ہوچکی ہے ۔پانی کو آلودہ کرتے ہوئے قوم کی اکثریت کی سوچ یہ ہے کہ گویا یہ کوئی جرم ہی نہیں ہے ۔اس سلسلے میں حدیث یہ ہے: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین ایسے جرائم سے اجتناب کرو جو جرم تم کولعنت کا مستحق بنادیں گی ۔ایک پانی میں پاخانہ کرنا ،دوسرے راستوں میں پاخانہ کرنا ،تیسرا پھل دار درختوں کے نیچے پاخانہ کرنا ۔یہ حدیث مشکوٰۃ شریف میں ہے ،پانی میں ایک مرتبہ پاخانہ کرنا یا پاخانہ ڈالنا لعنت کا مستحق بنادیتا ہے تو جب سارے بیت الخلائوں کا رُخ ہی اور تمام نکاسی ہمیشہ اسی پانی میں ہو تو یقیناً یہ پوری قوم کے لعنت میںگرفتار کرنے کے لئے کافی ہے۔چنانچہ اس وقت ہم پر مختلف قسم کی مصیبتیں مسلط ہیں اور آئندہ بھی ان مصیبتوں کے کم ہونے یا ختم ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔اُس کے بہت سارے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جرائم پر لعنت نازل ہونے کی وعید یں سنائی ہیں ،اُن بہت سارے جرائم میں قوم کی اکثریت مبتلا ہے ۔اُن جرائم میں سے ایک جرم پانی کو گندہ کرنا بھی ہے ۔لہٰذا پاخانہ ،گھروں کا کوڑا کرکٹ ،کچرا اور خاص کر پانی کی استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلیں اور پالی تھین ہرگز ہرگز پانی میں ڈالنے سے پر ہیز کریںاور اسی کو جرم محسوس کریں اور اس جرم کو لعنت کا مستحق بنانے والا جرم سمجھ کر ترک کریں۔
دوسرا جرم جو پانی کے سلسلے میں پایا جاتا ہے وہ پانی کا اسراف اور اس کو ضائع کرنا ہے۔یہ جرم اتنا پھیل گیا ہے کہ نمازیوں میں سے بھی اکثریت پانی کے نلکے کھلا چھوڑ کر اس طرح وضو کرتے ہیں کہ پانی کی بہت بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے۔پانی کو ضائع کرنے کا جرم یہ بھی ہے کہ واٹر سپلائی کا پینے کا پانی گاڑیوں کے دھونے ،پارکوں کو سیراب کرنے اور گھر کے پاتھ کو صاف کرنے میں استعمال کیا جائے۔حالانکہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہتے ہوئے دریا پر بھی وضو کرتے وقت وہاں پر بھی پانی کے اسراف سے منع کیا ہے ۔لہٰذا ہر شخص پانی کا استعمال کرتے ہوئے بار بار دیکھے کہ وہ پانی کو ضائع کرنے کے جرم میں مبتلا تو نہیں۔خصوصاًخواتین اپنے کپڑے یا برتن دھوتے وقت باربار اس کا دھیان رکھیں کہ پانی کا ضیاع یا اسراف اگر ہورہا ہے تو اللہ کو ناراض کرنے کا جرم ہورہا ہے ،اس سے پرہیز کریں ،وضو اور غسل کرنے والے بھی دھیان دیں کہ ضرورت کتنے پانی کی ہے اور استعمال کتنا ہوا ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مُد (درمیانی درجہ کے مگ کے برابر)پانی سے پورا وضو کرتے تھے اور ایک صاع (چار مُد)یعنی چار درمیانہ درجے کے مگ میں جتنے پانی کی مقدار ہوگی اُس سے غسل کرتے تھے ۔یہ حدیث بخاری ترمذی مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔ہم پانی کے کثرت استعمال کی بُری عادت کا اس درجہ شکار ہیںکہ اب ہمارا ذہن بھی یہ بات قبول کرنے کو تیار نہیں کہ اتنے تھوڑے پانی سے وضو اور غسل کیسے ہوگا ،راقم نے خود عرفات اور مزدلفہ میں حج کے دوران حبشی لوگوں کو صرف اُسی بوتل سے وضو کرتے دیکھا ہے جس میں آدھا لیٹر پانی سماتا ہے۔بہر حال پانی کے اسراف سے اور اس کو ضائع کرنے سے اجتناب ضروری ہے اور یہ دین کا حکم ہے ۔خلاصہ یہ پانی میں گندگیاں ڈالنے کے جرم سے پرہیز کریں اور پانی کو ضائع کرنے اور اسراف کے ساتھ استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- خودکشی کرنا کتنا سنگین جرم ہے ؟
سوال:۲-اگرخدانخواستہ کسی نے ایسا ناپاک عمل کرلیا تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے کی کیا صورت ہوگی ؟
ایم جمال
خودکشی کرنا سخت ترین حرام
جواب:۱-خودکشی کرناسخت ترین حرام کام ہے ۔ حدیب میں ہے کہ جس شخص نے خودکشی کی وہ قیامت تک اُسی عذاب میں مبتلارہے جس سے اُس نے خودکشی کی ہو۔غزوہ خیبر میں حضرت نبی کریم علیہ السلام نے ایک شخص کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ جہنم میں جائے گا ۔ حالانکہ وہ شخص بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہاتھا۔ اس لئے صحابہؓ کو یہ سن کر بہت حیرانی ہوئی کہ اس شخص کے جہنمی ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ ایک صحابیؓ نے اُس شخص کی صورتحال جاننے کے لئے اس کا پیچھا کرنا شروع کیا۔ اُس کو ایک معمولی زخم لگ گیا ۔ اس پر اُس شخص نے اپنی تلوار سے خودکشی کرلی ۔ وہ صحابیؓ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں شخص کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھاکہ وہ جہنم میں جائے گا ۔ میں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بچے رسول ہیں ۔میں نے آپ کا ارشاد سچ ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔ اُس شخص نے خودکشی کرلی۔ (بخاری، خیبرکابیان)
حضرت خبّابؓ بن الارت ایک عظیم صحابی تھے ۔پیٹ کی ایک سخت تکلیف میں مبتلا تھے ۔ سالہا سال یہ تکلیف جھیلتے رہے اور باربار وہ دربارِ رسالتؐ میں حاضر ہوکر عرض کرتے تھے کہ مجھے خودکشی کی اجازت عنایت ہو۔ مگر حضرت نبی کریم علیہ السلام نے ہمیشہ سختی سے منع کیا۔ اس لئے یہ بات طے ہے کہ خودکشی حرام ہے اور خود کشی کرنے والا یقیناً جہنم میں جائے گا۔ یہ وہ بدترین جُرم ہے کہ اس کے بعد توبہ و استغفار کا موقعہ بھی نہیں رہتا۔
جواب:۲- خودکشی کرنے والے کو بغیر جنازے کے دفن کرنا جائز نہیں ہے ۔اس لئے اُس کے گھر والوں اور رشتہ داروں پر لازم ہے کہ وہ اُس کا جنازہ ضرورپڑھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :-بہت سارے نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں بہت بُرے بُرے خیالات آتے ہیں ۔ میرا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یہ خیالات اللہ کی ذات کے بارے میں ،حضرت نبی علیہ السلام کے متعلق ، ازواج مطہراتؓ کے متعلق ،قرآن کے متعلق ہوتے ہیں۔اُن خیالات کوزبان پر لانا بھی مشکل ہے ،اُن خیالات کو دفع کرنے کے جتنی بھی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی وہ دل میں ،دماغ میں مسلط ہوتے ہیں ۔اب کیا یا جائے ؟
کامران شوکت
بُرے خیالات
شیطان وہیں حملہ کرتاہے جہاں ایمان کی دولت ہو
جواب :-بُرے خیالات آنا دراصل شیطان کا حملہ ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابیؒ نے یہی صورتحال عرض کرکے کہاکہ یا رسول اللہ ؐ میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر میں اُن کو ظاہر کروں تو آپؐ ہم کو کافر یا منافق قرار دیں گے ۔
اس پر حضرت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ واقعتاً تمہارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ایسے خیالات آتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایمان کی علامت ہے ۔ عرض کیا گیا کیسے ؟تو ارشاد فرمایاچور وہاں ہی آتاہے کہ جہاں مال ہوتاہے ۔ جب ایسابُرے خیال آئیں تو باربار استغفار اور لاحول پڑھنے کا اہتمام کریں اور اپنے آپ کو مطمئن رکھیں کہ یہ آپ کا اپنا خیال ہے ہی نہیں ۔ آپ کاخیال تو وہ ہے جو آپ کی پسند کے مطابق ہو ۔ یہ خیال آپ کو نہ پسند ہے نہ قبول ہے تو اس کا وبال بھی آپ کے سر پر نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-فرائض نماز میں سلام پھیرنے کے فوراً بعد کچھ لوگ اللہ اکبر پڑھتے ہیں او رکچھ لوگ استغفراللہ پڑھتے ہیں ۔
مہربانی کرکے جمعہ ایڈیشن میں اس کی وضاحت کریں ۔ عام لوگوں کے لئے بہترکیاہے اور کیا کرنا چاہئے جبکہ نوجوان طبقہ اس بات سے باخبرہوناچاہئے اور عام مساجد میں خاص کر حنفی مساجد میں ایک طریقہ رائج ہو جائے تو کتنابہتر ہے۔
ابوعمران سرینگر
نماز کے بعد مسنون اذکار
جواب: نماز کی سلام پھیرنے کے بعد یہ دعائیں مسنون ہیں ۔ کلمہ استغفراللہ تین مرتبہ پھر اللہم انت السلام…الخ ۔ یہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے ۔ کلمہ توحید اور پھر اللہم لا مانع…الخ۔ یہ بخاری ومسلم میں ہے۔ آیت الکرسی ۔اس کے متعلق ابودائود میں حدیث ہے کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے اُس کے دخولِ جنت میں صرف مرنے کی دیر ہے ۔
تسبیح فاطمہ یعنی سبحان اللہ 33بار ،الحمد للہ 33بار، اللہ اکبر 33بار اور پھر کلمہ توحید ایک بار ۔یہ مسلم شریف میں ہے اور دوسری حدیث میں اللہ اکبر 34بارہے ۔
جب کہ بخاری کی ایک روایت میں دس دس بار اور مسلم کی حدیث میں گیارہ گیارہ مرتبہ ہے ۔
نماز سے فراغت پر کلمہ اللہ اکبر پڑھنا حضرت نبی کریم علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے ۔ بس ایک حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس سے بخاری شریف میں مروی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں تکبیر سن کر سمجھ لیتا تھاکہ نماز ختم ہوگئی ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سلام کے بعد اونچی آواز میں اللہ اکبر پڑھنے کا معمول تھا؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں ۔ چنانچہ اس حدیث کی شرح میں کسی نے بھی نہیں لکھاکہ نماز کے بعد اللہ اکبر پڑھنا مسنون ہے اسی لئے دورِ صحابہ سے آج تک حرمین میں بھی اس پر عمل نہیں پایا گیا کہ سلام کے بعد جہراً اللہ اکبر پڑھیں ۔
جواذکار نماز کے بعد پڑھنے مسنون ہیں اُن کے متعلق احادیث میں ثبوت موجود ہیں ۔اختصار کے ساتھ اوپر حوالے بھی درج کردئے ہیں ۔