سوال :شبِ برأت کی فضیلت کے متعلق احادیث بیان فرمایئے،نیز یہ بھی فرمایئے کہ و ہ احادیث صحیح ہیں یا ضعیف؟
یہ سوال بہت سارے اماموں،خطیبوں کی نمائندگی میں پیش کیا گیا ۔آپ کا تحقیقی جواب وہ حضرات اپنے بیانات میں پیش کریںگے۔
حافظ قاری محمد اسلم ۔امام مسجد بال گارڈن سرینگر
شبِ برأت کی فضیلت ،احادیث کی روشنی میں
جواب : شعبان المعظم کی درمیانی رات یعنی شب ِبرأت کے متعلق بہت ساری احادیث ہیں۔اُن میں سے چند یہ ہیں:
(۱) حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی نصف رات کو اپنی مخلوق کی طرف (رحمت کی) توجہ فرماتے ہیں ،پھر مشرک اور کینہ رکھنے والے کے علاوہ تمام مخلوق (انسانوں) کو معاف فرمادیتے ہیں۔یہ حدیث صحیح ابن حبان ،معجم لااوسط ،سنن بیہقی اور الترغیب میں ہے۔اس حدیث کو نقل کرنے والےصحابہ میں حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت ابو ہریرہ ،حضرت ابوموسیٰ اشعری ،عبداللہ بن عمر ،ابو ثعلبہ اور حضرت عائشہ بھی ہیں۔اس حدیث کو امام ہیثمی ،امام منذری اور شیخ شعیب ارنائوط نے صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ ناصر الدین البانی نے بھی اپنی مشہور سلسلہ الاحادیث الصحیحہ میں اس کو صحیح کہا ہے اور کہا ہے کہ متعدد صحابہ کی مختلف سندوں کی وجہ سے یہ حدیث ایک دوسرے کی تقویت و تائید کرتی ہے۔
(۲)حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شعبان کی نصف رات اللہ جل شانہٗ بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیںاور دو بندوں کے علاوہ سب کی مغفرت فرماتے ہیں۔ایک کینہ پرور اور دوسرے کسی انسان کا قاتل۔یہ روایت مسند احمد اور الترغیب میں ہے ۔امام ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں،صرف ایک شخص لین الحدیث ہے۔شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن اور شیخ شعیب نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
(۳) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے بستر پر آرام فرما نہیں پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی،میں نے آپ ؐ کو جنت البقیع (قبرستان) میں پایا ۔آپ نے فرمایا ،کیا تجھے یہ ڈر ہوا کہ اللہ اور اُس کا رسول تمہاری حق تلفی کرے گا ۔پھر کچھ دیر کے بعد آپ نے فرمایا ،شعبان کی پندرہویں رات اللہ تعالیٰ اپنی خاص شان کے ساتھ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں۔پھر بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے بقدر یا اس سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔
یہ روایت ترمذی ،ابن ماجہ ،مسند احمد ،مسند عبدبن حُمید اور طبرانی میں ہے۔اس حدیث کو متعدد سندوں کی وجہ سے علامہ ناصر الدین البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔اس حدیث کے ذیل میں مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ پندر ہویں رات کی فضیلت میں بہت ساری روایات وارد ہوئی ہیں۔یہ روایات اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی اصل موجود ہے،یعنی فضیلت ثابت ہے ۔
(۴) حضرت عثمان بن ابو العاص سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جب پندرہویں شعبان کی رات آتی ہے تو ایک ندا دینے والا ندا کرتا ہےکہ ہے کوئی معافی مانگنے والا۔میں اُس کو معاف کروں گا۔ہے کوئی سوال کرنے والا ،میں اس کو عطا کروں گا ۔پس جو کوئی شخص بھی جو کچھ مانگتا ہے اللہ اُس کو عطا فرمادیتے ہیں۔لیکن زنا کرنے والے اور شرک کرنے والے کو نہیں۔یہ حدیث امام بیہقی نے شعیب الایمان میں نقل فرمائی ہے نیز الجامع الصغیر اور کنزالعمال میں بھی ہے۔علامہ ناصر الدین نے اس کو ضعیف الجامع الصغیر میں نقل کیا ہے،اور ضعیف قرار دیا ہے۔
(۵)حضرت علی نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو(نمازیں پڑھو،اور اس کے دن کو روزہ رکھو)اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس رات غروب آفتاب کے وقت آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں۔پھر اعلان فرماتے ہیںکہ : ہے کوئی رزق طلب کرنے والا ،میں اس کو رزق عطا کروں گا ۔ہے کوئی مصیبت میں مبتلا شخص ،میں اُس کو معافی عطا کروں گا ۔ہے کوئی ایسا ۔۔۔ہے کوئی ایسا۔۔۔۔ یہ اعلان صبح صادق تک ہوتا ہے۔یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں ہے۔
علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات اُن حضرات کے خلاف دلیل ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس رات کی کوئی فضیلت ثابت نہیں۔
(۶)امام بیہقی نے شعب الایمان میں حدیث کے الفاظ یہ نقل فرمائے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس رات مشرک ،کینہ پرور ،رشتوں کو توڑنے والے ،ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والے،والدین کی نا فرمانی کرنے والے ،شراب کے عادی مجرم کی طرف نظر نہیں فرماتے ہیں۔اوپر درج شدہ احادیث کے علاوہ علامہ ابن رجب کی کتاب لطائف المعارف میں مزید روایات ہیں،جن سے ثابت ہے کہ اس رات کی فضیلت یقینی ہے۔ان احادیث میں صحیح بھی ہیں،حسن بھی اور ضعیف بھی۔اور مجموعہ سے شبِ برأت کی فضیلت یقیناً ثابت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برأت کہتے ہیں ،اسی رات کے متعلق چاروں فقہ اور دوسرے محقق اہلِ علم کی تصریحات کی ضرورت ہے۔امید ہے کہ مکمل تحقیق کرکے مستند کتابوں کے حوالوں سے نقل فرمائیں گے ۔ان شاء اللہ اس سے علمی و عملی دونوں فائدے ہوں گے۔
نصر اللہ ۔لال بازار سرینگر
فضیلت ِ شبِ برأت کے متعلق چاروں فقہ متفق
جواب : فقہ حنفی کی مشہور کتاب البحرالرائق میں ہے کہ رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں،عیدین کی راتوں میں، ذی الحجہ کی دس راتوں میںاور شبِ برأت میں جاگنا اور عبادت میں مشغول رہنا نہایت پسندیدہ عمل ہے۔جیساکہ احادیث میں وارد ہے۔
حضرت امام شافعی نے اپنی مشہور کتاب (الام) میں فرمایا ہے کہ ہم تک دین کی یہ بات پہنچ گئی ہے کہ پانچ راتوں میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔جمعہ کی رات،عیدالفطر کی رات ،عید الاضحیٰ کی رات ،رجب کی پہلی رات،اور شعبان کی نصف رات۔امام محمدبن اسحٰق فرماتے ہیں کہ اہل ِ مکہ کا یہ عمل پہلے سے ہے کہ وہ شبِ برأت میں مسجد حرام میں مردوزن جمع ہوتے ہیں۔نمازیں پڑھتے ہیں ،طواف کرتے ہیں اور صبح تک مسجد حرام میں قیام کرتے ہیں۔علامی ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں: شعبان کی نصف رات کی فضیلت ثابت ہے اور سلف ہمیشہ سے اس رات نمازیں پڑھتے آئے ہیں۔مجموع الفتاویٰ ابن تیمیہ ؒ ،علامہ ابن تیمیہ نے اقتضاءالصراط المستقیم فرمایا ہے۔
شعبان کی نصف رات کے متعلق احادیث مرفوعہ اور آثار منقول ہیں،جن کا مقتضاء یہ ہے کہ اس رات کی فضیلت ثابت ہے اور امام احمد بن حنبلؒ سے بھی اس کی صراحت منقول ہے۔
موسوعہ فقہیہ میں ہے ۔جمہور فقہا ء اسی پر متفق ہیں کہ نصف شعبان کی رات میں عبادت مندوب و مستحسن ہے اور اس کے قیام کے استحباب کے جمہور قائل ہیں۔اس وجہ سے کہ احادیث صحیحہ سے اس کی فضیلت ثابت ہے۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں ۔یہ رات توبرأت کی رات ہے اور برأت کی اس شب کی فضیلت احادیث ِ صحیہ سے ثابت ہے۔علامہ کشمیری نے یہ بات ترمذی کی شرح العرف الشذی میں فرمائی ہے۔فقہ حنبلی کی مشہور کتاب الاقناع میں ہے۔شعبان کی نصف شب کی فضیلت تو ثابت ہے اور سلفاء اس رات نمازوں کا خوب اہتمام کرتے تھے۔شیخ عبدالرحمان مبارک پوری ترمذی کی شرح تحفتہ الاحوزی میں فرماتے ہیں ۔یہ بات جان لینی چاہئے کہ شعبان کی نصف رات کے متعلق بڑی تعداد میں احادیث وارد ہوئی ہیں۔اُن احادیث سے مجموعی طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس شب کی کچھ نہ کچھ اصل یعنی فضیلات ضرور ہے۔ملک شام کے علامہ شیخ جمال الدین قاسمی نے لکھا ۔مختلف طرق کی مختلف احادیث کے مجموعہ سے یہ ثابت ہے کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت یقیناً ثابت ہے۔ماضی قریب کے عظیم فقیہیہ او ر محقق شیخ ھبہ زحیلی نے لکھا :عیدین ،ذی الحجہ کی دس راتیں او رمضان کے آخری عشرے کی راتیں اور نصف شعبان کی رات میں مکمل یا اکثر حصہ میں عبادت کی جائے ،یہ احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : ہم ہر سال پندرہ شعبان کو روزہ رکھتے ہیں۔سال ِگذشتہ ہمارے ایک رشتہ دار نے کہا کہ پندرہ شعبان کو روزہ رکھنا بدعت ہے،اس لئے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اس تاریخ کو روزہ رکھنا واقعی بدعت ہے؟اگر بدعت نہیں ہے تو کیا جائز اور باعث ثواب ہوگا یا نہیں اور اس کے لئے ثبوت کیا ہے۔وہ احادیث ضرور بیان فرمائیں جو اس سلسلے میںارشاد فرمائی گئی ہیں۔
محمد اشرف ،ریاض احمد شیخ۔پلوامہ
شعبان کا روزہ بدعت اور غیر شرعی نہیں
جواب : پندرہ شعبان کے روزہ کے متعلق فیصلہ یہ ہےکہ یہ سنت بھی نہیں ہے اور بدعت بھی نہیں ہے اور جو شخص روزہ رکھے گا وہ ضرور مستحقِ اَجر ہوگا ۔اس روزے کے ثبوت کے لئے تین قسم کی احادیث ہیں۔پہلی قسم یہ کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ اور کسی ماہ میں اتنی کثرت سے روزے نہیں رکھتے تھےجتنا شعبان میں۔یہ مسلم شریف میں ہے کہ شعبان کے روزوں میں نصف شعبان کی شب بھی آگئی تو یہ فعل رسولؐ سے ثابت ہوگیا ۔دوسرے وہ احادیث جن میں ایام بیض میں روزے رکھنے کی فضیلت بیان ہوئی اور اُن ایام میں پندرہ شعبان کا روزہ بھی ہے۔ ان دو قسم کی احادیث سے پندرہ شعبان کا روزہ ثابت ہے۔تیسری حدیث جو اسی تاریخ کے متعلق ہےحضرت علیؓ سے مروی کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس میں شب بیداری کرو ۔دن میں روزہ رکھو کیونکہ اس رات اللہ تعالیٰ آسمان ِ اول پر غروب آفتاب ہی کے وقت اُتر آتے ہیں اور نِدا کرتے ہیں کہ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں بخش دوں۔ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اُس کو عافیت دوں۔ہے کوئی جو اپنی حاجات میں مجھے پُکارے ۔یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں ہے۔اس حدیث میں صراحتاً حکم ہے کہ اس رات شب بیداری کرکے عبادت کرواور دن کو روزہ رکھو۔اس سے بظاہر
روزہ رکھنے کا واضح ثبوت مل گیا ،مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث بہت ضعیف ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر سب محدثین متفق ہیں۔اس لئے اس حدیث سے پندرہ تاریخ کے روزہ کا ثبوت نہیں نکل سکتا۔لہٰذا صرف پہلی دو احادیث سے ہی ثبوت ہے۔اب وہ دونوں قسم کی احادیث چونکہ متعین طور پر پندرہ شعبان کے متعلق نہیں ہیں ،اس لئے پندرہ کا روزہ ان احادیث کی بناء سنت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔مگر پورے شعبان روزہ رکھنے کی حدیث موجود ہےاور ایامِ بیض کے روزے رکھنے کی حدیث بھی ثابت ہے۔لہٰذا اس کو بدعت یا غیر شرعی بھی نہیں کہہ سکتے۔اب اگر کوئی روزہ رکھے تو ضرور مستحقَ ثواب ہوگا اور اگر نہ رکھے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تارک سنت ہے،البتہ افضل یہ ہوگا کہ ۱۳؍،۱۴؍اور۱۵؍ شعبان کو روزہ رکھا جائےتو ایام بیض کا اجر بھی ہوگا اور اسی میں پندرہ شعبان کا روزہ بھی ہوگا۔