سوال:-میں ایک کالج اسٹوڈنٹ ہوں اور ماڈرن ہوں ۔ پچھلے کچھ عرصہ سے نماز پڑھنا شروع کردی ہے۔میں چونکہ تنگ وچست جینز پہنتاہوں اس لئے نماز کے وقت ٹخنوں سے موڑ دیتاہوں ۔ ایک صاحب نے مجھ سے یوں کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا سمیٹنے اور موڑنے سے منع کیا ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نہ کپڑوں کو سمیٹوں اور نہ بالوں کو۔(بخاری)
مسائل کی کتابوں میں لکھاہے کہ کپڑا موڑنا مکروہ ہے اس لئے پائجامہ اور پینٹ موڑ کرنماز پڑھنا مکروہ ہے اور ایسی حالتوں میں پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے۔اب میرا سوال یہ ہے کہ ٹخنوں سے موڑنا کیاہے؟
محمد محسن۔ جموں
پائجامہ اور پینٹ موڑ کر نماز پڑھنا مکروہ نہیں
جواب:-ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے کے متعلق احادیث میں سخت ممانعت ہے ۔ یہ احادیث بخاری، مسلم، ترمذی ،ابودائود ،موطا مالک ، ابن ماجہ ، نسائی ، مسند احمد ، بیہقی ، جمع الفوائد او رشمائل ترمذی میںہیں ۔ یہ احادیث حضرت ابوہریرہؓ ، حضرت ابوسعید ؓ ، حضرت جابرؓ ، حضرت خدیفہ ؓ، حضرت سمرہؓ ، حضرت ابوذرؓ،حضرت عائشہؓ ، حضرت ھُبیبؓ،حضرت مغیرہ ؓ،حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہیں (رضی اللہ عنہم)۔ چند احادیث یہ ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ازار کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں جائے گا ۔ (بخاری)۔حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار کے متعلق جو فرمایا وہی حکم قمیص کے متعلق بھی ہے ۔ (دائود)۔اس سے معلوم ہواکہ یہی حکم پتلون کے متعلق بھی ہے ۔
حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ کپڑے کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے گا وہ جہنم میں جائے گا ۔(نسائی ، ابو دائود وغیرہ)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ازار ٹخنوں تک ہونا چاہئے اور اگر اس سے نیچے ہوا تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میرا ازار زمین سے لگ کر آواز دے رہا تھا ۔ توحضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں عبداللہ ہوں تو ارشاد فرمایا اگر تم عبداللہ ہو تو اپنا ازار اُوپر رکھو ۔ میں نے فوراً اوپر کردیا پھر موت تک کبھی بھی ٹخنوں سے نیچے نہیں رکھا۔ (مسنداحمد)
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین افرا د کی طرف اللہ نظرِ رحمت نہیں فرمائیں گے ۔ نہ اُن کو پاک کریں گے اورنہ ان سے ہم کلام ہوں گے۔ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ۔ احسان کرکے احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا دوکاندار ۔ (مسلم ، ترمذی ،ابودائو ، نسائی ، ابن ماجہ)
حضرت عبداللہ بن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کبروبڑائی کی وجہ سے کوئی بھی کپڑا ٹخنوں سے نیچے رکھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی طرف نگاہ بھی نہ کریں گے ۔ابودائود ، نسائی وغیرہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سفیان کی کمر پکڑ کر فرمایا ۔ اے سفیان اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے مت رکھنا ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں فرماتے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا رکھتے ہیں۔حضرت جابرفرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت کے فاصلے تک پہنچتی ہے ۔پھرفرمایا کہ اللہ کی قسم ماں باپ کا نافرمانی کرنے والا ،رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا بوڑھا زناکار،اور ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ایسے لوگ ہیں جو جنت کی بُو بھی نہ پائیں گے ۔ (طبرانی)
حضرت ابوہرہ سے روایت سے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اُس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے ہوئے ہو۔ (ابودائود)۔
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز میں اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے رکھے وہ اللہ کے غضب سے نہ حرم شریف میں محفوظ رہے گا نہ حرم کے باہر محفوظ رہے گا۔(ابودائود)
اِن تمام احادیث سے ثابت ہواکہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا چاہے قمیص ہو،ازار بند ہو ،شلوار ہو ،پتلون ہو ، تہہ بند ہو یا لمبا کوٹ ہو ہرگز دُرست نہیں ۔اور آخری دوحدیثوں سے تو یہ معلوم ہواکہ نماز بھی قبول نہ ہوگی۔
اب اگر کسی شخص کی چست پتلون یاشلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو اس کے لئے نماز پڑھنے میںدو ہی صورتیں ہیں یا تو ٹخنوں سے موڑ کر وہ نماز اداکرے گا یا ٹخنوں سے نیچے جوں کا توں رکھ کر نماز پڑھے گا ۔اس دوسری صورت میں وہ درج بالا تمام احادیث کی خلاف ورزی کرے گا ۔اس لئے اُس کے لئے اصل حکم تو یہ ہے کہ کپڑا اتنا لمبا ہوناہی نہیں چاہئے کہ جوٹخنوں سے نیچے ہو ۔اور اگر وہ ٹخنوں سے نیچے ہو تو نما زمیں وہ نیچے سے موڑ دے تاکہ کم از کم نماز میں ٹخنے کھلے رہیں اور اوپر کی احادیث پر نماز کے اندر عمل ہوسکے۔
اب یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا موڑنے سے منع کیاہے یہ صریحاً غلط ہے ۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔مختلف کپڑا موڑنے کی بہت ساری صورتیں رائج ہیں مثلاًقمیص یا شرٹ کا کالرموڑا ہوا ہوتاہے ، کوٹ کا کالر سینے سے موڑا ہوا ہوتاہے ۔ آستین لمبی ہوتو کلائی سے موڑی ہوئی ہوتی ہے ۔لمبی گرم بنیان پیٹ کے پاس ناف کے نیچے موڑ دی جاتی ہے ۔آج کل گرم ٹوپیاں دوہری کرکے موڑ دی جاتیں۔ اسپتالوں میں اَپرن موڑنا کھلا مشاہدہ ہے ۔اُوورکوٹ کا پورا کالر سینے کے نیچے تک موڑا ہواہوتا ہے۔توکیا یہ سب لوگ اپنی پڑھی ہوئی نمازیں محض اس لئے دوبارہ پڑھیں گے کہ اُن کے یہ مختلف کپڑے موڑے گئے تھے ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ موڑنے کی ممانعت صرف پائجامہ ، شلواراور پینٹ پتلون کے لئے ہے تو یہ تخصیص خودساختہ اور بلادلیل ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ارشاد مبارک کیا ہے اور اس کے معنی کیا ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ ارشاد گرامی یہ ہے لا یکف ثوبہ ولا مثبعرہ نہ اپنے کپڑوں کو سمیٹو نہ اپنے بالوں کو۔اس کے معنی موڑنا ہرگز نہیں اس لئے بال موڑنا نہ ممکن ہے نہ اس کی ممانعت کی کوئی وجہ ہے اورنہ کسی لغت نے یہ معنی بیان کئے ہیں ۔دراصل اہل عرب بہت لمبے چوڑے کپڑے پہننے کے عادی تھے ۔جیسے کہ آج بھی بہت سے عرب اور حبشی نہایت لمبی چوڑی عبائیں ،قبائیں ، حُبّے پہنتے ہیں جن کو ہروقت سمیٹ کر رکھنا پڑتاہے ۔ جیسے مختلف عرب شاہوں کا زیب تن کرنا آج بھی رائج ہے اور سمیٹے بغیر ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے ۔ایسے کپڑے پہن کر اُن کو سمیٹ کر رکھیں اور نماز پڑھیں اس کو اللہ کے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا کہ یہ خشوع وخضوع میں مُحل ہوتاہے اور رکوع سجدے میں سمیٹے رکھنے کا تکلف کرنا پڑتاہے۔ لہٰذا جس شخص نے یہ لکھاہے کہ پاجامہ اور پینٹ کو موڑ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور یہ نماز واجب الاعادہ ہے یہ سراسر غلط ہے۔ یہ خودساختہ اور غلط تشریح ہے او رٹخنے سے نیچے کپڑے، پتلون، پینٹ، پاجامہ کے جو ممنوع ہونے کا حکم ہے اُس میں تحریف کرکے اس کی خلاف ورزی کرنے کا غلط مسئلہ لکھا گیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ یوں لکھاجاتاکہ ٹخنوں سے نیچے ہرگز کوئی کپڑا نہ ہو اور کم از کم نماز میں اس سے اجتناب کیا جائے۔لیکن کہایہ جارہاہے کہ ٹخنوں سے کپڑا نہ موڑا جائے ۔ یعنی جس فعل سے روکاجانا ضروری ہے اُس کا بالواسطہ حکم دیا جارہاہے ۔ اور غضب یہ کہ اس کو حکم شرعی قرار دیا جارہاہے ۔ولا یکف ثوبہ جو حکم رسولؐ ہے اس کے معنی فتح الباری عمدۃ القاری ، ارشاد الساری وغیرہ اُن کتابوں میں دیکھے جائیں جو بخاری کی عظیم مستند شروحات ہیں ۔ نیز لغاتِ حدیث کی مستند کتاب مثلاً الفہار یہ فی غریب الحدیث از علامہ ابن اثیر،الفائق از علامہ زمخشری ،مجمع البحار از علامہ طاہر پٹنی ملاحظہ کی جائیں ۔
خلاصہ یہ کہ ٹخنوں سے نیچےکپڑا رکھنا حدیث کی خلاف ورزی ہے اور کم از کم نماز میں موڑ کر ٹخنوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :۱بہت ساری خواتین اپنے بالوں کے ساتھ مصنوعی بال جوڑتی ہیں ۔اب جب وہ وضو کرتے ہوئے اپنے سَر پر مسح کرتی ہیں تو کیا اُن مصنوعی بالوں پر مسح ہوتا ہےاور بعض خواتین اپنے فطری بالوں پر مسح کرتی ہیں ۔ہماراسوال یہ ہے کہ اگر کسی نے اُن مصنوعی بالوں پر مسح کیا تو کیا مسح ادا ہوجاتا ہے یا نہیں؟
سوال ۲: ۔کیا عورتوں کو بھی پورے سَر کا مسح کرنا اُسی طرح سنت ہے کہ جیسے مَردوں کو ؟عورتوں کو بالوں کا وہ حصہ جو پیچھے سے لٹکا ہوا ہوتا ہے ،کیا اُس حصے پر بھی مسح لازم ہے؟
سوال:۳۔بہت ساری خواتین آرائش کے لئے اپنے ناخن پر نیل پالش لگاتی ہیں ،جو عموماً بہت گاڑھا لیکوڈ ہوتا ہے ۔یہ پینٹ کی طرح ہوتا ہے ۔کیا ناخن پالش پر وضو ہوجاتا ہے۔اس طرح اگر ہاتھوں یا بالوں پر مہندی لگی ہوئی ہو تو کیا وضو ہوجاتا ہے؟
مریم سُلطان ۔سرینگر
مصنوعی بالوں اور نیل پالش کا استعمال
خواتین کے وضو اور غسل کے مسائل
جواب۱ :خواتین کے جو فطری بال ہوتے ہیں اُن بالوں پر اس طرح مسح کیا جائے کہ بھیگے ہوئے ہاتھ پورے سَر پر گذر جائیں۔مسح کے معنیٰ یہی ہیں کہ بھیگا ہوا ہاتھ کسی عضو پر گذار دیا جائے۔اب اگر کسی عورت نے’’وِگ‘‘ استعمال کیا ہواہو تو اس میں دو خرابیاں ہیں ۔ایک یہ کہ ایسے مصنوعی بال استعمال کرنا جائز نہیں اور اگر ان مصنوعی بالوں پر مسح کیا جائے تو یہ مسح بھی ادا نہ ہوگا ۔یہ بال چونکہ جسم کاِ فطری حصہ نہیں ہوتے ہیں،اسلئے اُن پر مسح گویا اپنے جسم پر مسح نہ ہوگا۔
جواب۲۔ پورے سَر کا مسح کرنا سنت ہے اور اس سنت پر پورے اہتمام سے عمل کرنا چاہئے۔ پورے سَر کا مسح جس طرح مَردوں کے لئے سنت ہے ،اُسی طرح عورتوں کے لئے بھی سنت ہے۔،البتہ خواتین کے سَر کے پیچھے جو لٹکے ہوئے بال ہوتے ہیں اُن پر مسح نہیں کرنا ہے۔سَر کے پیچھے اُس حصہ جہاں بال نیچے کی طرف لٹکے ہوئے ہوتے ہیں ،وہاں تک مسح کرکے پھر لٹکے ہوئے بالوں کے نیچے گردن پر مسح کرکے پھر کانوں پر مسح کرنا چاہئے۔
جواب۳۔ ناخن پر نیل پالش ہوتو اس پر نہ غسل ہوتا ہے اور نہ وضو ہوتا ہے،دراصل نیل پالش ایک گاڑھا پینٹ ہے جو پانی کو ناخن تک نہیں پہنچنے دیتا ،اس لئے جس خاتون کے ناخن پر یہ پینٹ لگا ہوا ہو وہ اگر غسل کرے گی اور نیل پالش لگا رہ گیا تو غسل ادا نہ ہوگااور وضو کرے تو وہ بھی ادا نہ ہوگا ۔اس لئےکہ اُس کے ناخن در حقیقت خشک رہ گئے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے تنگ انگوٹھی لگی ہوئی ہو تو نہ غسل ہوگا اور نہ وضو ہوگا ۔
????????????????
سوال : سونے کے وقت کیا کیا دعائیں پڑھ سکتے ہیںاور وہ دعائیں بغیر وضو پڑھنا جائز ہےیا نہیں؟
غلام محی الدین وانی ۔ترال
سوتے وقت دعائیں پڑھنا او وضو کا مسئلہ
جواب:سونے کے وقت سورہ فاتحہ ،آیت الکرسی ،سورہ ملک ،چار قل ،تسبیح فاطمہ پڑھنا مسنون ہے ۔احادیث میں ان کے پڑھنے کی ترغیب بھی ہے اور فضیلت بھی ہے۔لہٰذا یہ سب پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔مزید یہ کہ بخاری و مسلم میں حدیث ہے ۔حضرت برأبن عاذب کہتے ہیںکہ۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم سونے کا ارادہ کرو تو پھر دائیں کروٹ لیٹ کر یہ دعا پڑھو ’’اَللّھُم اَسلمُت نفسی۔۔۔۔ الخ ۔یہ دعا مکمل بخاری شریف میں وضو کے بیان میں موجود ہے۔اس لئےکوشش کی جائے کہ باوضو سوئیں۔ تاہم اگر کوئی بے وضو سوئے تو یہ بھی جائز ہے اور اوپر کی ساری دعائیں بے وضو پڑھنا بھی جائز ہے۔سورہ الم سجدہ پڑھنےکی تاکید بھی احادیث میں آتی ہے ۔سونے کے وقت کی اوربھی دعائیں ہیں،جودعائوں کی کتاب مثلاً حصن المسلم اور مسنون دعائیں میں موجود ہیں۔
????????????????
سوال:پہلے ٹیلی فون اور اب موبائیل فون کا استعمال زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔اس کے بہت سارے مسائل میں سے ایک مسئلہ سلام کا بھی ہے۔برائے کرم فون پر سلام کے متعلق ضروری مسائل تحریر فرمائیں۔
بشیر احمد ۔بھدرواہ
ٹیلیفون رابطہ ،سلام اورجواب ِ سلام کا طریقہ
جواب:سلام مسلمانوں کا شعار ہے۔ اس لئے فون پر پہلے سلام کیا جائے پھر بات کی جائے۔جب فون سے رابطہ کیا جائے تو رابطہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہیلو کیا جائے ،جب جواب میں ہیلو آجائے تو یہ رابطہ ہونے کی علامت ہے اوراب سلام کیا جائے۔فون پر اگر کوئی خاتون ہو تو چونکہ عموماً فتنہ کا خطرہ نہیں ہوتا ،اس لئے سلام کرنے اور سلام کا جواب دینے میںکوئی حرج نہیں ۔لیکن اگر فتنہ کا خطرہ ہو ،مثلاً یہی سلام و کلام غلط روابط قائم ہوجانے کا سبب بنے تو یہ سلام کرنا بھی منع ہےاور سلام کا جواب دینا بھی منع ہے،یہ مردوں کے لئے بھی ہے اور،عورتوں کے لئے بھی۔آج کل غیر محرم کے ساتھ غلط روابط کا بڑا ذریعہ یہ فون ہی ہے۔
با ت چیت ختم کر کے پھر سلام کرنا بھی حدیث سے ثابت ہے۔ لہٰذا جیسے ملاقات کرکے رخصت ہوتے وقت سلام کرنا سنت ہے ،ایسے ہی فون پر بات چیت ختم کرکے سلام پر اختتام کرنا سنت ہوگا ۔اس طرح ہر شخص کے لئے سلام کے الفاظ کا درست کرنا بہت ضروری ہے۔بہت سارے لوگ سلام تو کرتے ہیں مگر الفاظ میں سخت غلطیاں ہوتی ہیں۔مثلاًسلام علیکم ،یا ساں ولیم ،یا سا علیکم یا سا ملیکم وغیرہ ۔یہ سب غلط ہیں ۔اس طرح کے غلط کلمات سلام کے نام پر غیر سلام ہے۔صحیح یہ ہے ’’السلام علیکم ‘‘۔اس کو انگریزی میں یوں لکھا جائے۔ASSA-LAMU.ALAIKUM۔بہت سارے لوگ سلام کے جواب میں بھی سلام ہی کرتے ہیں ۔یاد رہے سلام کرنا سنت اور جواب دینا واجب ہے۔سلام کے الفاظ یہ ہیں ’’السلام علیکم‘‘۔۔۔ا سکا جواب یہ ہے ’’وعلیکم السلام ‘‘اگر سلام یا جواب ِسلام میں یہ اضافہ کیا جائےتو بہتر ہے۔ورحمتہ اللہ و بر کا تہٗ
??????????????????
کپڑوں پر پیشاب کی چھینٹوں کا مسئلہ
سوال :پیشاب کرتے ہوئے کبھی چھینٹیں جسم یا کپڑوں پر گرتی ہیں ،کبھی یہ چھینٹیں معلوم ہوتی نظر آتی ہیں اور کبھی بہت چھوٹی ہوتی ہیں کہ نظر بھی نہیں آتیں ۔اب سوال یہ ہے کہ ایسے کپڑوں میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
محمد حسین خان ۔اسلام آباد
جواب :جسم یا کپڑوں پر ایسی چھوٹی چھوٹی چھینٹیں جو نظر نہیں آتی ،وہ معاف ہیں ۔ایسے کپڑوں میں نماز پڑھی جائے تو ادا ہوجاتی ہے ۔ملاخطہ ہو فتاویٰ دارالعلوم دیو بند جلد اول۔اور جسم یا کپڑوں پر وہ چھینٹیں جو نظر آتی ہیں اُن کا پاک کرنا ضروری ہے بشرطیکہ یہ پیشاب کی چھینٹیں ہوں ۔اگر وضو کی چھینٹیں ہو تو اُن میں کوئی حرج نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- اگرکسی ماں باپ کی اولاد،خاص کر بالغ بیٹا یا بیٹی ، نافرمانی کے سبب ان کی بدنامی کا باعث بن جائے تو والدین کو کیا کرنا چاہئے؟
سوال:۲-نماز ظہر کی چار رکعت، جو امام صاحب پڑھاتے ہیں ، میں مقتدی کو کیا کرنا چاہئے ۔
عمرمختار…سرینگر
اولاد نافرمان ہوجائے تو والدین کیا کریں
جواب:۱-نافرمان اور بدنامی کا باعث بننے والی اولاد کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ اُن کو دیندارصالح اور بااخلاق بنانے کی سعی کرنے کے ساتھ بُری صحبت سے دور رکھا جائے ۔ یہ لڑکا ہو تو دعوت کے کام کے ساتھ جوڑ ا جائے تاکہ اُس میں اطاعت والدین کی فرمان برداری کا مزاج پیدا ہو ۔
کوئی بھی انتقامی کارروائی اُس کی خرابی کی اصلاح نہیں بلکہ اُس کے مزید خراب ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔
اصلاحی کتابیں پڑھانے کا اہتمام بھی مفید ہے ۔مثلاً ’’مثالی نوجوان‘‘ ،’’نوجوان تباہی کے راستے پر‘‘ ، ’’عمل سے زندگی بنتی ہے‘‘ اور’’ حیا وپاکدامنی ‘‘ایسے نوجوانوں کے لئے مفید ہیں۔
نمازِ ظہر میں اقتداء
جواب:۲-امام کی اقتداء میں مقتدی کلمات افتتاح (سبحانک) پڑھے ۔ اگر امام کے تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی مقتدی نے بھی تکبیرتحریمہ پڑھی ہو تو امام و مقتد ی کاافتتاح پڑھانا ایک ہی وقت پر ہوگا ۔ اگر مقتدی تاخیر سے شامل ہوا تو امام کے رکوع میں جانے سے پہلے تک یہ کلمات افتتاح پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ حکم ظہر وعصر کی پہلی رکعت میں شرکت کرنے کی حدیث میں ہے جن نمازوں میں جہری قرأت ہوتی ہے اُن نمازوں میں امام کی قرأت شروع کرنے سے پہلے پہلے افتتاح (کنجی)پڑھیں ۔ امام کے قرأت شروع کرنے کے بعد نہیں ۔