کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

مفتی نذیر احمد قاسمی
سوال:-دوئم یہ کہ منتقلی جائیداد کے وقت بیٹے اور بیٹیوں کو سراجلاس بلا کر انتقالِ وراثت تصدیق کیا جاتاہے ۔یہاں پر بھی بیٹیاں اکثر اپنے براداران کے حق میں جائیداد سے دستبردار ہوجاتی ہیں جب کہ وہ ابھی جائیداد کی مالک ہی نہیں ہوتیں اور ’’بخش دیتے ہیں ‘‘کا جملہ استعمال کیاجاتاہے ۔ بعض اوقات بیٹیوںکویہ کہہ کرمجبور کیا جاتاہے کہ آپ کو اپنے میکے میں یعنی بھائیوں کے پاس آنا جانا ہے اگر آپ نے حصہ لے لیا تو میکے میں آمد ورفت سے دستبردار ہوناہوگا اور اسی عوامی ذہنیت کی بناء پر بیٹیاں بھی سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے حصہ لے لیا تو ہم نے میکے آنے کا راستہ بند کردیا۔

اس صورت حال کو مدنظر رکھ کر آپ سے گزارش ہے کہ منتقلی وراثت کا مسنون طریقہ کیا ہے ۔ براہ کرم تفصیلاً جواب سے آگاہ فرمائیں ۔

ایک سائل… سرینگر

قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرانا غیر درست 

جواب:-والد کے فوت ہونے کے بعد جیسے بیٹے وراثت کے مستحق ہوتے ہیں اُسی طرح بیٹیاں بھی مستحق ہوتی ہیںاور یہ حق قرآن کریم نے صاف اور صریح طور پر واضح کیا ہے ۔ وراثت کا استحقاق بیان کرنے کے ساتھ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کا مقررکردہ فریضہ ہے ۔یہ بھی فرمایا کہ یہ اللہ کی قائم کردہ حدود ہیں اور جواِن حدود کی خلاف ورزی کرکے معصیت کا ارتکاب کرے اُس کے لئے دردناک عذاب ہوگا ۔تقسیم وراثت میں شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے پر دشمنانِ اسلام کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ بھی ہاتھ آتاہے اور یہ مسلمانوں کی غلط کاری کا نتیجہ ہوتاہے کہ وہ اپنی بدعملی سے اسلام پر اعتراضات کراتے ہیں ۔کسی شخص کے فوت ہونے پربیٹے کو دوحصے اور بیٹی کو ایک حصہ حقِ وراثت قرآن کریم نے مقرر کیا ہے ۔ بھائی کا بہن کو حصہ دینا کوئی احسان نہیں بلکہ حکم قرآنی پر عمل ہے ۔ اب اگر کوئی بہن دل کی رضامندی سے از خود اپنا حصہ اپنے بھائی کو بخش دینا چاہے تو اُس کے لئے بہتر اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے اُس کا حصہ اُس کے قبضہ میں دے دیا جائے ۔جب وہ اپنے حصہ پر قابض اور متصرف ہوجائے اُس کے بعد جب چاہے اپنے بھائی کو بطورِ ہبہ کے دے سکتی ہے ۔تقسیم سے پہلے اور قبضہ میں لینے سے پہلے ہبہ کرنا غیر منقسم اور متعین مال کا ہبہ ہے جس کو شریعت کی اصطلاح میں ہبہ مشاع کہاجاتاہے اور یہ ہبہ مشاع درست نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پائجامہ اور پینٹ موڑ کر

نماز پڑھنا مکروہ نہیں 

سوال:-میں ایک کالج اسٹوڈنٹ ہوں اور ماڈرن ہوں ۔ پچھلے کچھ عرصہ سے نماز پڑھنا شروع کردی ہے۔میں چونکہ تنگ وچست جینز پہنتاہوں اس لئے نماز کے وقت ٹخنوں سے موڑ دیتاہوں ۔ ایک صاحب نے مجھ سے یوں کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا سمیٹنے اور موڑنے سے منع کیا ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نہ کپڑوں کو سمیٹوں اور نہ بالوں کو۔(بخاری)

مسائل کی کتابوں میں لکھاہے کہ کپڑا موڑنا مکروہ ہے اس لئے پائجامہ اور پینٹ موڑ کرنماز پڑھنا مکروہ ہے اور ایسی حالتوں میں پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے کیونکہ مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے۔اب میرا سوال یہ ہے کہ ٹخنوں سے موڑنا کیاہے؟

محمد محسن …… جموں

جواب:-ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے کے متعلق احادیث میں سخت ممانعت ہے ۔ یہ احادیث بخاری، مسلم، ترمذی ،ابودائود ،موطا مالک ، ابن ماجہ ، نسائی ، مسند احمد ، بیہقی ، جمع الفوائد او رشمائل ترمذی میںہیں ۔ یہ احادیث حضرت ابوہریرہؓ ، حضرت ابوسعید ؓ ، حضرت جابرؓ ، حضرت خدیفہ ؓ، حضرت سمرہؓ ، حضرت ابوذرؓ،حضرت عائشہؓ ، حضرت ھُبیبؓ،حضرت مغیرہ ؓ،حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہیں (رضی اللہ عنہم)۔ چند احادیث یہ ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ازار کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں جائے گا ۔ (بخاری)۔حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار کے متعلق جو فرمایا وہی حکم قمیص کے متعلق بھی ہے ۔ (دائود)۔اس سے معلوم ہواکہ یہی حکم پتلون کے متعلق بھی ہے ۔ 

حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ کپڑے کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے گا وہ جہنم میں جائے گا ۔(نسائی ، ابو دائود وغیرہ)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ازار ٹخنوں تک ہونا چاہئے اور اگر اس سے نیچے ہوا تو اس میں کوئی خیر نہیں ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میرا ازار زمین سے لگ کر آواز دے رہا تھا توحضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں عبداللہ ہوں تو ارشاد فرمایا اگر تم عبداللہ ہو تو اپنا ازار اُوپر رکھو ۔ میں نے فوراً اوپر کردیا پھر موت تک کبھی بھی ٹخنوں سے نیچے نہیں رکھا۔ (مسنداحمد)

حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین افرا د کی طرف اللہ نظرِ رحمت نہیں فرمائیں گے ۔ نہ اُن کو پاک کریں گے اورنہ ان سے ہم کلام ہوں گے۔ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ۔ احسان کرکے احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا دوکاندار ۔ (مسلم ، ترمذی ،ابودائو ، نسائی ، ابن ماجہ)

حضرت ابوہرہ سے روایت سے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اُس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے ہوئے ہو۔ (ابودائود)۔

حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز میں اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے رکھے وہ اللہ کے غضب سے نہ حرم شریف میں محفوظ رہے گا نہ حرم کے باہر محفوظ رہے گا۔(ابودائود)

اِن تمام احادیث سے ثابت ہواکہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا چاہے قمیص ہو،ازار بند ہو ،شلوار ہو ،پتلون ہو ، تہہ بند ہو یا لمبا کوٹ ہو ہرگز دُرست نہیں ۔اور آخری دوحدیثوں سے تو یہ معلوم ہواکہ نماز بھی قبول نہ ہوگی۔

اب اگر کسی شخص کی چست پتلون یاشلوار ٹخنوں سے نیچے ہو تو اس کے لئے نماز پڑھنے میںدو ہی صورتیں ہیں یا تو ٹخنوں سے موڑ کر وہ نماز اداکرے گا یا ٹخنوں سے نیچے جوں کا توں رکھ کر نماز پڑھے گا ۔اس دوسری صورت میں وہ درج بالا تمام احادیث کی خلاف ورزی کرے گا ۔اس لئے اُس کے لئے اصل حکم تو یہ ہے کہ کپڑا اتنا لمبا ہوناہی نہیں چاہئے کہ جوٹخنوں سے نیچے ہو ۔اور اگر وہ ٹخنوں سے نیچے ہو تو نما زمیں وہ نیچے سے موڑ دے تاکہ کم از کم نماز میں ٹخنے کھلے رہیں اور اوپر کی احادیث پر نماز کے اندر عمل ہوسکے۔

اب یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا موڑنے سے منع کیاہے یہ صریحاً غلط ہے ۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔مختلف کپڑا موڑنے کی بہت ساری صورتیں رائج ہیں مثلاًقمیص یا شرٹ کا کالرموڑا ہوا ہوتاہے ، کوٹ کا کالر سینے سے موڑا ہوا ہوتاہے ۔ آستین لمبی ہوتو کلائی سے موڑی ہوئی ہوتی ہے ۔لمبی گرم بنیان پیٹ کے پاس ناف کے نیچے موڑ دی جاتی ہے ۔آج کل گرم ٹوپیاں دوہری کرکے موڑ دی جاتیں۔ اسپتالوں میں اَپرن موڑنا کھلا مشاہدہ ہے ۔اُوورکوٹ کا پورا کالر سینے کے نیچے تک موڑا ہواہوتا ہے۔توکیا یہ سب لوگ اپنی پڑھی ہوئی نمازیں محض اس لئے دوبارہ پڑھیں گے کہ اُن کے یہ مختلف کپڑے موڑے گئے تھے ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ موڑنے کی ممانعت صرف پائجامہ ، شلواراور پینٹ پتلون کے لئے ہے تو یہ تخصیص خودساختہ اور بلادلیل ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ارشاد مبارک کیا ہے اور اس کے معنی کیا ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ ارشاد گرامی یہ ہے  لا یکف ثوبہ ولا مثبعرہ  نہ اپنے کپڑوں کو سمیٹے نہ اپنے بالوں کو۔اس کے معنی موڑنا ہرگز نہیں اس لئے بال موڑنا نہ ممکن ہے ۔نہ اس کی ممانعت کی کوئی وجہ ہے ۔ نہ کسی لغت نے یہ معنی بیان کئے ہیں ۔

دراصل اہل عرب بہت لمبے چوڑے کپڑے پہننے کے عادی تھے ۔جیسے کہ آج بھی بہت سے عرب اور حبشی نہایت لمبی چوڑی عبائیں ،قبائیں ، حُبّے پہنتے ہیں جن کو ہروقت سمیٹ کر رکھنا پڑتاہے ۔ جیسے مختلف عرب شاہوں کو زیب تن کرنا آج بھی رائج ہے اور سمیٹے بغیر ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے ۔ایسے کپڑے پہن کر اُن کو سمیٹ کر رکھیں اور نماز پڑھیں اس کو اللہ کے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا کہ یہ خشوع وخضوع میں مُحل ہوتاہے اور رکوع سجدے میں سمیٹے رکھنے کا تکلف کرنا پڑتاہے۔ لہٰذا جس شخص نے یہ لکھاہے کہ پاجامہ اور پینٹ کو موڑ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور یہ نماز واجب الاعادہ ہے یہ سراسر غلط ہے۔ یہ خودساختہ اور غلط تشریح ہے او رٹخنے سے نیچے کپڑے پتلون پینٹ پاجامہ کے جو ممنوع ہونے کا حکم ہے اُس میں تحریف کرکے اس کی خلاف ورزی کرنے کا غلط مسئلہ لکھا گیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ یوں لکھاجاتاکہ ٹخنوں سے نیچے ہرگز کوئی کپڑا نہ ہو اور کم از کم نماز میں اس سے اجتناب کیا جائے۔لیکن کہایہ جارہاہے کہ ٹخنوں سے کپڑا نہ موڑا جائے ۔ یعنی جس فعل سے روکاجانا ضروری ہے اُس کا بالواسطہ حکم دیا جارہاہے ۔ اور غضب یہ کہ اس کو حکم شرعی قرار دیا جارہاہے ۔

ولا یکف ثوبہ جو حکم رسولؐ ہے اس کے معنی فتح الباری عمدۃ القاری ، ارشاد الساری وغیرہ اُن کتابوں میں دیکھے جائیں جو بخاری کی عظیم مستند شروحات ہیں ۔ نیز لغاتِ حدیث کی مستند کتاب مثلاً الفہار یہ فی غریب الحدیث از علامہ ابن اثیر،الفائق از علامہ زمخشری ،مجمع البحار از علامہ طاہر پٹنی ملاحظہ کی جائیں ۔ 

خلاصہ یہ کہ ٹخنوں سے کپڑا رکھنا حدیث کی خلاف ورزی ہے اور کم از کم نماز میں موڑ کر ٹخنوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال:-  کئی مساجد میں گرمی کی شدت کے دوران ائرکنڈیشنز لگائے جاتے ہیں۔ التماس ہے کہ اگرمحکمہ بجلی کو فیس ادانہ کی جائے تو ایسی مسجدوں میں نمازوں کا کیا حال ہوگا ؟

غلام مصطفی …سرینگر

متفرق سوالات

جواب:-مسجد میں ائرکنڈیشن کا انتظام دُرست ہے لیکن جیسے روشنی کے انتظام کے لئے بجلی فیس اداکرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ائرکنڈیشن میں صرف ہونے والی بجلی ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔ اگرخدانخواستہ بجلی فیس ادا نہ کی جائے تو نماز تو پھر بھی ادا ہوجاتی ہے مگر بجلی کی فیس ادا نہ کرنے کا گناہ برقرار رہے گا ۔

بجلی کی فیس ادا کرنے کا سب سے بہتر اورمحتاط طریقہ میٹر لگانا ہے تاکہ روشنی ، پنکھوں اور ائرکنڈیشن میں جتنی بجلی خرچ ہو میٹر کے ذ ریعہ اُس کی پوری مقدار سامنے آئے اور پھر اتنی ہی فیس ادا کریں ۔

یہ بات ایمانی غیرت کے خلاف ہے کہ مسلمان اللہ کے گھر میں اپنی راحت کا انتظام کریں مگر اُس کا غیر شرعی طریقہ اپنائیں ۔

جیسے چوری کی لکڑی سے حمام گرم کرنا ، چوری کے پنکھوں سے ٹھنڈک کا انتظام کرنا یا چوری کے قالین نما جائے نماز مسجد میں بچھانا غلط ہے ۔ ایسے ہی بجلی استعمال کرکے اُس کی فیس ادا نہ کرنا غیر شرعی ہے۔ ایسی عبادت جس میں کسی غیر شرعی چیز کی آمیزش ہو وہ کیسے اللہ کی رضا کا سبب بن سکے گی ۔ اس لئے اپنے مساجد کا بہتر سے بہتر انتظام کرنا جیسے تقاضۂ ایمان ہے ۔ایسے ہی اُس انتظام کو حلال طریقہ سے چلانا بھی مقتضائے دین وایمان ہے ۔

سوال:۳- کچھ گھرانوں میں یہ رسم بھی عام ہے کہ لڑکے لڑکی کی شادی دوعیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کے درمیان کرنا ناجائز سمجھا جاتاہے ۔

سوال:۴-کچھ لوگ اسلامی کلینڈر کے حساب  سے چھ تاریخیں یعنی 28،18،8،23،13،3 کو منحوس سمجھتے ہیں اور اکثر وبیشتر شادی بیاہ کی تاریخ مقرر کرتے وقت مذکورہ تاریخوں کا دھیان رکھاجاتاہے ۔ 

الیاس احمد عباسی …کشمیر

 

عیدین کے درمیان نکاح ورخصتی درست 

جواب:۳- دوعیدوں کے درمیان نکاح بھی درست ہے اور رخصتی بھی درست ہے ۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مبارک نکاح جو حضرت عائشہؓ کے ساتھ ہوا تھا ، وہ نکاح بھی شوال یعنی دوعیدوں کے درمیان ہوا تھا اور رخصتی بھی دوعیدوں کے درمیان ہی ہوئی تھی ۔ اس لئے اس باطل تصور کو سختی سے ردّ بھی کرنا ضروری ہے اور سماج میں اس کی بار بار یاددہانی کرانا بھی ضروری ہے تاکہ یہ باطل خیال مٹ جائے۔

کسی مخصوص تاریخ کو منحوس سمجھنا مشرکانہ 

جواب:۴- حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام میں طیرہ کی کوئی جگہ نہیں ۔(بخاری ومسلم)طیرہ کے معنی کسی تاریخ ،یا دن ،یا جگہ ،یا چیز کو منحوس سمجھنا ۔جب صحیح حدیث رسولؐ میں سے اس کی نفی ثابت ہے تو اس کے بعد کسی تاریخ کو منحوس سمجھنا سرار غیر شرعی ہے ۔ لہٰذا ۳، ۱۳،۲۳… یا ۸،۱۸،۲۸ کو منحوس سمجھنے اور پھر ان تاریخوں میں کسی کام مثلاً نکاح ، رخصتی یا آپریشن یا کسی خریداری سے اجتناب کرنا یہ سراسر مشرکانہ تصور ہے ۔