مفتی نذیر احمد قاسمی
اوقاتِ سحری و افطار میں تقدیم و تاخیر
س: -۱: سحری و افطار کے لئے جو وقت متعین ہے کیا ایک دو منٹ کم زیادہ ہونے سے روزے میں کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں ایک دو منٹ آگے پیچھے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں
س: – ۲: افطار اور سحری کے لئے جو میقات اور کلینڈر مسجدوں میں آویزاں رکھے جاتے ہیں، اُن کے مابین کہیں کہیں کچھ منٹوں کا فرق ہوتا ہے،ایسی صورت میں کونسا کلینڈر اعتماد کے قابل ہے؟
عبد العزیز…شوپیان
ج: -۱: سحری کھانے کا آخری وقت صبح صادق کا طلوع ہے اور یہ طلوع فجر کہلاتا ہے۔ اس وقت کے ہو جانے پر کھانا پینا بند کرنا لازمی ہے۔صبح صادق کا یہ وقت اختتام سحر، اختتام تہجد، آغاز روزہ اور آغازِ نماز فجر کا وقت ہے۔ اس سلسلے میں یہ امر ملحوظ رہے کہ سحری کے لئے اصل وقت کون سا ہے۔ اس کے لئے محققین جن میں خاص طور پر علامہ تقی الدین ابن دقیق العید ہیں، نے یہ لکھا ہے کہ پوری رات کے غروب آفتاب سے طلوع صبح صادق تک کے پورے وقفہ شب کے چھ برابر حصے کئے جائیں۔ ان میں اٰخری چھٹا حصہ، جو تقریباً دو گھنٹے ہوں گے یہی دوگھنٹے تہجد کا وقت ہے اور یہی سحری کا بھی وقت ہے۔ اب اس پورے وقت میں کبھی بھی سحری کھاسکتے ہیں۔ اس وقت کا اختتام جس منٹ پر ہوگا یعنی جس منٹ پر صبح صادق کا طلوع ہوگا۔ اُس منٹ سے پہلے ہی سحری سے فارغ ہونا ضروری ہے۔ اگر اس اختتامی لمحہ سے آگے سلسلۂ اکل و شرب باقی رکھاگیا تو وہ روزہ درست نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں حدیث ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم کو بلال کی اذان سحری کھانے سے نہیں روکنی چاہئے۔ اس لئے کہ وہ رات میں ہی اذان دیتے ہیں یعنی حضرت بلال کی اذان اس غرض سے ہوتی تھی تاکہ سوئے ہوئے افراد بیدار ہو جائیں اور جو تہجد میں مشغول ہوں وہ سحری کھانے کے لئے نماز کا اختتام کریں۔بہرحال اذانِ بلال اختتام سحری کے لئے ہوتی ہی نہیں تھی۔ اسی لئے اسی حدیث میں آگے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عبد اللہ ابن ام مکتوم کی اذان پر سحری ختم کرو۔ اس لئے بہرحال ختم سحری کا جو وقت درج ہے اُس سے ایک منٹ بھی آگے کھانے پینے کا سلسلہ جاری رکھنا درست نہیں ہے۔ وہ تو پورے وقفۂ سحری کا اختتامیہ ہے۔اس میں مزید توسع کیسے ہوسکتا ہے۔ اس لئے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چند منٹ آگے پیچھے ہونے سے کچھ نہیں ہوتا وہ غلط کہتے ہیں، اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اذان صبح کے بعد بھی کھا سکتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں۔اس سے یقینا روزہ خراب ہوگا۔چنانچہ تمام فقہاء نے روزے کے مسائل میں لکھا ہے کہ اگر صبح صادق کے بعد یا غروب آفتاب سے پہلے کسی نے کچھ کھالیا تو اُس کا روزہ درست نہ ہوگا۔
دیکھئے نور الایضاع، عالمگیری، درمختار، الجرالرائق، مجمع الاہز،ملتقی الابحر،فتاویٰ تاتا رخانیہ، فتاویٰ قاضی خان، خلاصتہ الفتاوی اور یہی بات تمام شارحین حدیث نے لکھی۔ ملاحظہ ہو فتح الباری شرح بخاری، عمدۃ القاری شرح بخاری،فتح اللہم شرح مسلم ،بذل المجہودشرح ابودائود۔ مرقات شرح مشکوٰۃ وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-چست لباس پہننے کا رجحان عام ہورہاہے ، خاص کر زین پینٹ،جس میں بیٹھ کر پیشاب پھیرنا مشکل ہوتاہے تو لوگ کھڑے ہو کر پیشاب پھیرتے ہیں ۔ اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
سوال:۲-متعدد لوگ پیشاب پھیرتے وقت اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جس طرف منہ کرکے وہ پیشاب کررہے ہیں کہیں اس طرف قبلہ تو نہیں ؟اس کے بارے میں کیا حکم ہے ۔
فاروق احمد خان …سرینگر
چست لباس کے بارے میں شرعی حکم
جواب:۱-ایسا تنگ لباس جس میں جسم کا حجم خاص کر ران اور سرین کا پورا نشیب وفراز ظاہر ہو یہ لباس غیر شرعی ہے۔اس غیر شرعی لباس کا ایک خطرناک نقصان یہ ہے کہ جب پیشاب کرنا ہو تو چونکہ سخت چست ہونے کی وجہ سے بیٹھنا مشکل ہوتاہے اس لئے کھڑے ہوکر ہی پیشاب پھیرنا پڑتاہے ۔ اب دیکھئے حدیث میں کیا ہے ۔
بخاری شریف میں حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوقبروں کے پاس سے گزرے۔ پھر آپ نے ان دونوں قبروالوں کے متعلق فرمایا ان کوعذاب ہورہاہے۔ایک کو اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا ۔
کھڑے ہوکر پیشاب کرنے پر لازماً کپڑوں اور پائوں پر چھینٹیں آتی ہیں اور اس طرح وہ عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے۔
دوسری حدیث جو ترمذی میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے روایت کی کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جناب رسول اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے تو ہرگز یہ بات مت ماننا۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے ۔
حضرت علامہ انورشاہ نے فرمایا کھڑے ہو کرپیشاب کرنا کفار کا شعارہے ۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کا شعار اختیار کرکے کھڑے ہوکرپیشاب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبلہ رو ہوکرپیشاب پھیرنا حرام
جواب:۲- بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابودائود ، نسانی ، ابن ماجہ اور دوسری تقریباً تمام حدیث کی کتابوں میں ہے ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم غائط (پیشاب پاخانہ کی ضرورت پوری کرنے کی جگہ) میں جائو تو نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرنا اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرنا۔
اس لئے جب گھروں میں یا دفتروں میں پیشاب خانے یا بیت الخلاء بنائے جائیں تو وہ شمالاً جنوباً بنائے جائیں تاکہ قبلہ کی طرف نہ تو منہ ہو جائے نہ پیٹھ ہو۔ اسی طرح جب کوئی کھلی جگہ پر پیشاب کرے تو قبلہ کی طرف نہ استقبال کرے نہ بیٹھ کر کرے۔حدیث کی ممانعت کی وجہ سے یہ حرام ہے اور شعائر اللہ کعبہ کی توہین کی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ میں دوائی ڈالنا اور روزے کا عمل
ایک وضاحت اور تصحیح
کشمیر عظمی کے یکم اپریل کے شمارے میں اسی کالم میں لکھا گیا تھا کہ آنکھ میں دوائی ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی وجہ یہ لکھی گئی تھی کہ جدید طبّی تحقیقات کی رو سے یہ واضح ہوا ہے کہ آنکھ اور معدہ کے درمیان باریک رگوں (veins) کا رابطہ ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دوائی جو آنکھ میں ڈالی جاتی ہے ۔ اس کے اثرات براہ راست معدہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس لئے روزہ فاسد ہوجائے گا ۔ اس کے بعد متعدد اہل علم اور کچھ نوجوان اہلِ فتویٰ نے اس مسئلہ پر مزید تحقیق کرنے کی رائے دی اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام کتب فقہ میں یہی لکھا ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
اس کے بعد غور و خوض ہوا ، بحث و تمحیص ہوئی اور قدیم و جدید تحقیقات کو پڑھا گیا ۔ اب فیصلہ یہ ہے:
آنکھ میں دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ، متداول کتب فتاوی میں یہی مرقوم ہے۔ چناں چہ دار العلوم دیوبند اور جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کراچی کا فتوی بھی یہی ہے۔ فقہ و فتاوی کی اکثر کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے کہ آنکھ میں سرمہ ڈالا جائے یا دوائی اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
رہی وہ پہلی بات کہ روزہ فاسد ہوجائے گا ، اس کی وجہ علم تشریح الاعضاء کی جدید تحقیقات ہیں ، مگر وہ ابھی تک تمام علماء و فقہاء خصوصاً فقہ و فتاوی کے ماہرین کے یہاں متفقہ طور پر تسلیم نہیں ہے ۔ اس لیے جب تک اتفاق سے طے نہ ہوجائے ، اس وقت تک وہ حکمِ شرعی نہیں ہو سکتا۔ بلاشبہ آنکھ میں ڈالی گئی دوائی کے اثرات مثلا کڑواہٹ حلق میں محسوس ہوتی ہے مگر اس میں اس بات کا امکان ہے کہ یہ مسامات کے ذریعہ حلق تک پہنچنا پایا جائے، نہ کہ vein کے ذریعہ ، جیسا کہ بہت سے ماہرین کی رائے ہے۔
غرض کہ یہ تصحیح یا رجوع سب کے لیے وضاحت ہے کہ آنکھ میں جیسے سرمہ ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ، اسی طرح قطرے ڈالنے سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔