سوال(۱) : امام کے پیچھے قرأت کا حکم کیا ہے؟
سوال (۲) : داڑھی کی شرعی مقدار کیا ہے۔کچھ حضرات کہتے ہیں کہ داڑھی کی کوئی شرعی مقدار نہیں ہے؟
سوال (۳) : گود لئے ہوئے بچے کے ساتھ عمرہ یا حج کرسکتے ہیں یا نہیں؟
فرحت احمد ۔ ہندوارہ
امام کی اقتدا ء میں مقتدی کیا کرے؟
احادیث کی روشنی میں
جواب۔۱۔ امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے والا مقتدی کیا کرے گا ،اس کے متعلق چند احادیث ملاخطہ ہوں۔حضرت ابو موسیٰ الشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔یہ حدیث مسلم(۴۰۴) ،سنن ابن ماجہ،حدیث (۷۴۸) ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لئے ہوتا ہے تاکہ اْس کی اقتداء کی جائے،لہٰذا جب امام تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔(ابن ماجہ حدیث ۸۴۷) نیز ابن ماجہ میں حدیث ۸۵۰ یہ ہے ،جس شخص کا امام ہو تو امام کی قرأت ہی اْس کی قرأت ہے۔اس حدیث کو علامہ ناصر الدین نے صفتہ الصلوٰۃ صفحہ۔۸۱ میں لکھا ،پھر آگے یہ بھی لکھا ،اس روایت کو ابن ابی شیبہ،جلد۔۱ ،صفحہ۔۹۷ پر۔دارقطنی نے اور مسند احمد ابن ماجہ اورطحاوی نے بھی نقل کیا ہے۔ یہ حدیث مسند و مرسل دونوں طرح ہے۔
حضرت جابر عبداللہ کہتے ہیں کہ جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اْس کی نماز ادا نہیں اِلا یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو۔(یعنی اْس کا مقتدی ہونے کی صورت میں سورہ فاتحہ پڑھنا لازم نہیں،یہ حدیث ترمذی صفحہ ۳۱۳ ہے۔حضرت ابودرداء کہتے ہیں ،ایک مرتبہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ہر نماز میں قرأت کرنا ضروری ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ ہاں۔پھر فرمایا اگر کوئی امام جماعت پڑھا رہا ہو تو امام کی قرأت لوگوں (مقتدیوں) کے لئے کافی ہے۔(سنن نسائی ،حدیث۔۹۲۳)۔حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اْس شخص کی نماز درست نہ ہوگی جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی۔(بخاری) اس حدیث کے روایت کرنے والے حضرت سفیان فرماتے ہیں کہ یہ حکم اْس شخص کے لئے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔ابوداؤد حدیث ۸۲۲،باب۱۳۱ میں یہ وضاحت موجود ہے۔اس حدیث کو شیخ البانی ؒ نے صحیح کہا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ،حضرت عبداللہ سے پوچھا گیا کہ کیا امام کے پیچھے قرأت کرنی ہے۔آپ نے فرمایا ،جب تم میں سے کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اْس کے لئے کافی ہے۔حضرت ابن عمر امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے تھے۔امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم میں لکھا کہ عطاء بن یسار نے حضرت زید بن ثابت سے پوچھا کہ کیا امام کے پیچھے مقتدی کوقرأت کرنی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ امام کے پیچھے کچھ بھی (قرأت) کرنے کی اجازت نہیں ہے۔بیہقی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے پوچھا گیا ،کیا مقتدی قرأت کرے گا؟ آپ نے فرمایا ،قرآن کے لئے خاموش رہو۔یہ تحقیق مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ جلد۔۱۲،صفحہ ۱۵۷ اور جلد۱۳،صفحہ۱۸۴میں ہے۔خلاصہ یہ کہ مقتدی امام کے پیچھے کوئی قرأت نہ کرے۔
داڑھی کی شرعی مقدار
جواب۔۲ ۔ داڑھی اسلام کا شعار ہے ،اس پر پوری اْمّت کے فقہاء ،محدثین ،متکلمین اور اولیاء کا اجماع ہے کہ داڑھی رکھنا واجب اور لازم ہے۔اس سلسلے میں اتنی احادیث ہیں کہ وہ تواتر کے درجہ میں ہیں۔اْن میںسے چند احادیث یہ ہیں :حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اپنے آپ کو مشرکین کی وضع قطع سے بالکل دور رکھو ،اپنی مونچھوں کو کترائو اور اپنی داڑھی کو بڑھائو۔(صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر سے مروّی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجوسیوں ،آتش پرستوں کے برخلاف اپنے مونچھیں کٹوائو اور داڑھی بڑھائو(مسلم شریف)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شاہِ ایران کے حکم سے ایک وفد پہنچا ،وفد کے لوگ کلین شیوتھے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیرت سے پوچھا ،تم کو ایسا کرنے کا حکم کس نے دیا ہے؟ وہ بولے کہ ہمارے آقا نے۔اْن کا اشارہ شاہِ ایران خسرو کی طرف تھا۔آپ ؐ نے جواب میں فرمایا ،ہمارے ربّ نے ہم کو حکم دیا کہ داڑھی رکھیں اور مونچھیں کاٹ دیں۔(ابن جریر طبری)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،دس چیزیں امور ِ فطرت میں سے ہیں۔اْن میں ایک داڑھی بڑھانا اور مونچھیں کترنا بھی ہے۔( مسلم) اس کے علاوہ اور بہت ساری احادیث ہیں، جن میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ داڑھی کتنی بڑھانی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی داڑھی رکھی تھی، وہی عملِ رسول ؐ قولِ رسولؐ کی توضیح اور تشریح ہے اور وہ یہ کہ آپ نے داڑھی کبھی نہیں کاٹی۔ہاں کوئی بال الگ سے لمبا ہوتا تو کاٹ دیتے۔حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھنی داڑھی تھی۔(مسلم)
حضرت خباب ؓ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی نماز میں قرأت فرماتے تھے اور ہم کو یہ بات اس لئے معلوم ہوتی تھی کہ آپؐ کی داڑھی مبارک قرأت کی وجہ سے ہلتی رہتی تھی۔(ابو داؤد)اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی مبارک داڑھی اتنی دراز تھی کہ وہ پڑھتے ہوئے ہِل جاتی تھی۔غرض کہ امت کے تمام اہم طبقات ،صحابہ ،تابعین ،تبع تابعین ،چاروں فقہائے مجتہدین ،تمام محدثین اور تمام صوفیاء و مشائخ کا فیصلہ اور تعامل یہی تھا کہ داڑھی واجب ہے۔
گود لیا ہوا بچہ نہ وارث نہ محرم
جواب۔۳۔ جو بچہ گود لیا گیا ،وہ اْس خاتون ،جس نے گود لیا ہے، کے لئے اگر نامحرم ہے تو اْس کے ساتھ سفر کرنا نا محرم کے ساتھ سفر کرنا ہے اور یہ ناجائز ہے۔اگر کوئی گود لیا گیا بچہ لڑکی ہے تو جس مرد نے اْس کو گود لیا ہے ،اْس مرد کے لئے اگر یہ بچی نا محرم ہے تو اْس کے ساتھ سفر کرنا ناجائز ہے۔
یاد رکھیں بچہ گود لینے سے وہ بچہ نہ تو وارث بنتا ہے اور نہ ہی محرم بنتا ہے۔ہاں اگر گود لینے سے پہلے ہی یہ بچہ محرم تھا ،مثلاً وہ کسی عورت کا بھتیجہ یا بھانجا تھا ،اْس صورت میں خاتون اْس بچے کے ساتھ سفر ِحج کرسکتی ہے ،کیونکہ وہ پہلے سے محرم ہے۔اسی طرح اگر مردنے اپنی بھتیجی یا بھانجی گود لی ہو تو وہ پہلے سے ہی اْس کی محرم ہے تو اْس کے ساتھ سفرکرنا دْرست ہے۔دراصل گود لینے کے نتیجے میں یہ بچہ نہ وارث بنتا ہے ،نہ وہ بچہ بنتا ہے ،نہ وہ محرم بنتا ہے۔شریعت کے احکام کے مطابق گودلیا گیا بچہ اْسی طرح کا اجنبی بچہ ہوتا جیسے وہ بچہ ،جسے گود نہ لیا گیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۔۱) نماز ِمغرب اور نمازِ عشاء کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہئے۔کیا ایک گھنٹہ 15منٹ فاصلہ رکھنے کے بعد نماز عشاء ادا کرسکتے ہیں؟
سوال۔۲) میقات الصلوٰۃ کے متعلق علماء کی کیا رائے ہے۔اگر کوئی عالم میقات الصلوٰۃ پر عمل نہیں کرتا ہے ،کہتا ہے یہ درست نہیں ہے ،اُس صورت میں عوام کو کیا کرنا چاہئے؟
سوال۔۳) نماز فجر کی جماعت طلوع ِ آفتاب سے پہلے 15یا 20 منٹ ہمیشہ ادا ہوتی ہے ۔کئی بار ہم نے فجر نماز کی سلام پھیر لی تو طلوع ِ آفتاب میں دو یا تین منٹ باقی رہتا ہے ۔اس کے لئے شرعی جواز کیا ہے؟
امتیاز احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔حاجن بانڈی پورہ
مغرب اور عشاء کی نمازوں میں وقفے کا معاملہ
جواب۔۱۔ نماز مغرب کی سنتوں سے فارغ ہوکر پھر کم از کم سوا گھنٹے کے بعد عشاء کی اذان پڑھنا اور اُس اذان کے دس یا پندرہ منٹ کے بعد جماعت کھڑا کرنا درست ہے۔
میقات الصلوٰۃ معتبر و مستند ٹائم ٹیبل
جواب۔۲۔ میقات الصلوٰۃ میں جو اوقات دکھائے گئے ہیں وہ تمام علماء کے نزدیک معتبر ہیں اور اگر کوئی اس کو معتبر نہ مانے تو اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرا کوئی معتبر و مستند ٹائم ٹیبل لائے۔صرف غیر معتبر کہہ کر اپنی مرضی کا وقت بیان کرنا غیر صحیح ہے،جو عالم یہ کہے کہ میقات الصلوٰۃ صحیح نہیں،اُس سے مطالبہ کیا جائےکہ اس پر کشمیر کے ہر طبقے کے علماء مطمئن ہیں اور اس میں بیان کردہ اوقات حدیث و فقہ کے عین مطابق ہیں۔اب اگر آپ اس پر مطمئن نہیں ہیں تو دوسرا کوئی چارٹ خود یا کسی مستند ادارے یا معتبر ما ہر عالم کا لائیں جو حدیث میں بیان شدہ اوقات اور حنفی مسلک کے عین مطابق ہو۔پھر دیکھا جائے کہ وہ عین وہی ہوگا جو میقات الصلوٰۃہے۔
نماز ِ فجر کا افضل وقت
جواب۔۳۔ نمازِ فجر کی جماعت طلوع ِآفتاب سے پچیس منٹ پہلے یا نصف گھنٹہ پہلے کھڑی کرنی چاہئے ۔احادیث شریف اور فقہی اصول کی روشنی میں یہی افضل وقت ہے۔اس کی تفصیل اور دلائل حدیث کی شرح اور فقہ کی کتابوں میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال۔۱ : کیا صلوٰۃ و سلام پڑھ سکتے ہیں ۔اس میں کسی قسم کا کوئی شرک تو نہیں؟کیا جمعہ کے دن ہی اس کو پڑھنا بہتر ہے یا کسی اور دن بھی۔ اس میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
شوکت احمد ۔کوکر ناگ
سوال۔۲ :نماز جنازہ میں کچھ تکبیرات کے چھوٹنےکے بعد شامل ہونے والا کس ترتیب سے نماز ِ جنازہ ادا کرے گا ؟
محمد طاہر۔ سوپور
صلوٰۃ و سلام پڑھنا مبارک عمل
جواب ۔۱ :صلوٰۃ و سلام پڑھنا بہت مبارک عمل ہے اور اس کے لئے یہ افضل ہے کہ وہ کلمات پڑھے جائیں جو کلمات احادیث سے ثابت ہیں۔تاہم اگر کسی نے وہ کلمات ِ درود پڑھے جو احادیث سے ثابت تو نہیں مگر اُن کلمات میں کوئی بھی اعتراض کی چیز نہ ہو تو وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔مگر عقیدہ یہ رکھنا چاہئے کہ درود شریف فرشتوں کے ذریعہ بارگاہِ رسالت میں پیش ہوتا ہے۔جیساکہ حدیث ہے کہ اللہ کے کچھ فرشتے اسی کام کے لئے مقرر ہیں جو دنیا میں کہیں بھی درود پڑھا جائےوہ دربارِ نبوت میں پہنچاتے ہیں یا ارشاد ِ نبوی ہے ،جو شخص میری قبر پر درود شریف پڑھتا ہے،وہ میں خود سُنتا ہوں اور جو دور رہ کر پڑھتا ہے وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے۔
جنازہ کی پہلی تکبیر چھوٹ جائے تو کیا کریں
جواب ۔۲ : جنازہ میں چھوٹی ہوئی تکبیرات امام کے سلام کے بعد ادا کرے ،اس طرح جنازہ مکمل کرے مگر امام کےساتھ شامل پہلی تکبیر سے شروع کرے۔