سوال :- رمضان شریف میں افضل عبادت کیا ہے ؟
نور الدین ۔سرینگر
افضل عبادات کے اہتمام کا مہینہ
جواب:-رمضان المبارک میں سب سے اہم عبادت روزہ ہے ۔ اس لئے اس کا اہتمام ضروری ہے ۔ دوسرے نمازوں کی پابندی خصوصاً جماعت کی نماز نہایت ضروری ہے ۔ تیسرے اُن نمازوں کا اہتمام جن کا درجہ رمضان میں بہت اُونچا ہوجاتاہے ۔ مثلاً تہجد، اشراق ، اوابین اور تحتہ المسجد وغیرہ ۔
چوتھے تراویح کا اہتمام ۔خصوصاً ایسی جگہ تراویح پڑھنا جہاں پورا قرآن کریم تروایح میں پڑھا جاتا ہے۔یہی وہ قیامِ رمضان ہے جس کی تاکید احادیث میںہے ۔ رمضان میں پورے عالم میں تراویح میں پورا قرآن پڑھنے کا ایک پُرنور اور بہار آفرین ماحول ہوتاہے ۔ چنانچہ دنیا کے کسی بھی شہر یا علاقہ میں جہاں مسلمان آباد ہیں تراویح کا جوش وخروش اور مساجد میںشوق وجذبہ سے قرآن سننے سنانے کا ماحول قابل رشک ہوتاہے ۔اس لئے پورا قرآن کریم جہاں تراویح میں پڑھا جائے اُس تراویح میں شرکت ہونی چاہئے ۔
پانچویں :قرآن کریم رمضان میں ہی نازل ہواہے ۔ اس لئے رمضان میں تلاوت قرآن کا خوب اہتمام کیا جائے او ر کم از کم ایک ختم اس ماہ مبارک میں لازم قراردیا جائے اور جو حافظ ہوں اُن کی تلاوت بھی زیادہ سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہو۔
چھٹے:دعائوںکاخوب اہتمام کیا جائے ۔خصوصاً گناہوں کی مغفرت ،دُنیا میں دین کے غالب آنے ، ایمانی ماحول کے عام ہونے ، اُمت مسلمہ کے تمام مسائل حل ہونے ،اُمت کو قرآن وصاحب قرآن سے مربوط ہونے اور اُمت کے ہر طبقہ کی اصلاح اور پورے عالم میں دعوتی ماحول پیدا ہونے کی خوب دعائیں کی جائیں ۔ اس کے ساتھ اپنی نجی ضروریات ومشکلات کے لئے دعاء کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-انسان بکثرت دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ۔اس پر تعجب بھی ہوتا، مایوسی بھی ہوتی ہے ، پریشانی بھی ہوتی اور بہت سارے لوگ تو اللہ سے نااُمید ہوکر دعا مانگنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات اور اسباب کیا ہوسکتے ہیں۔تفصیل سے بتائیے۔
اویس احمد۔جموں
دعائوں کی عدم قبولیت۔۔۔اہم اسباب
جواب:-ایمان والا جب بھی دعا کرتاہے تو اس کو دعا کے عبادت ہونے کی وجہ سے اُسے اجر وثواب ضرورملتاہے ۔ چاہے وہ مقصد حاصل ہویا نہ ہو اور اُس کی طلب کردہ چیز ملے یا نہ ملے ثواب بہرحال ملتا ہے ۔حدیث میں ہے دعا عبادت ہے اور ایک حدیث میں ہے دعا عبادت کا مغز ہے ۔
پھر دعا کے قبول ہونے کے معنیٰ یہ ہیں یا تو وہ چیز بندے کو مل جائے جو اُس نے طلب کی ہے یا اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ اس کی کسی پریشانی کوختم کردیتے ہیں یاکسی آنے والی مصیبت کوہٹا دیتے ہیں یا اُس دعا کا بہتر عوض آخرت میں عطا کریں گے ۔ دنیا میں قبول نہ ہونے والی دعائوں کا ذخیرہ جب آخرت میں بندہ دیکھے گا تو وہ تمنّا کرے گا کاش میری دنیا کی ساری دعائیں آخرت کے لئے ذخیرہ رکھی گئی ہوتیں تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ وہ وہاں زیادہ محتاج ہوگا۔کھلونے خریدنے پر رقم خرچ کرنے والے کی کچھ رقم اگر اتفاقاً بچ گئی ہو او روہ اس کے علاج کے کام آئے تو وہ یہی تمنّا کرے گا کاش وہ رقم بھی محفوظ ہوتی تو آج کام آتی ۔دنیا میں فوراً دعا قبول نہ ہونے کے کچھ اسباب یہ ہیں ۔ بندہ کی کمائی حرام ہو ، کھانا پینا، بدن کا لباس اور گھر کی اشیاء حرام دولت سے حاصل کردہ ہوں تو پھر دعائیں قبول نہیں ہوںگی ۔انسان معصیت کی زندگی گزارتا ہو یعنی اللہ کا فرض پورا نہ کرے اور اللہ کو ناراض کرنے والے کاموں سے نہ بچے ، پھر دعا کرے تو اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں ، وجہ بالکل ظاہرہے ۔
کبھی اللہ اس لئے دعا قبول نہیں کرتے کہ بندہ کو اس کے مطلوب کی چیز مل جائے تو وہ اللہ کے سامنے گڑگڑانا بلکنا ،تڑپنا اور بے قرار ہوکر مانگناچھوڑ دے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ عرصہ طویل تک بندے کو بلکنے ، تڑپنے اورگڑگڑانے کے لئے قبولیت دعا کو روک کر رکھتے ہیں پھرقبول کرتے ہیں ۔
کبھی اللہ تعالیٰ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرا بندہ مجھ سے اُکتا کر مایوس ہوکر مانگنا چھوڑ دے گا یا مسلسل مانگتا رہے گا ۔جب بندہ نہ تو اُکتاتا ہے ، نہ ہمت ہارتاہے ، نہ مایوس ہوتاہے اورنہ دل ملول ہوتاہے ۔ وہ اُمید قائم رکھتاہے بلکہ دل میں یقین بٹھا کر رکھتاہے تو پھر عرصہ کے بعد اُس کی دعا قبول ہوجاتی ہے ۔
کبھی بندہ ایسی چیز طلب کرتاہے جو اُس کے خیال میں اس کے لئے اچھی اور بہتر ہوتی ہے مگر اللہ کی منشاء میں وہ اس کے لئے بہتر نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اس کی دعا قبول نہیں فرماتے ۔ مثلاً کوئی عہدہ ، کوئی رشتہ ، کوئی منصب ۔ کوئی چیز جو بندے کے تصور میں اُس کے لئے بہتر مگر اللہ کے علم میں اس کے لئے نابہتر ہوگی تو وہ قبول نہ ہوگی ۔کبھی اللہ تعالیٰ بندہ کو کوئی اور چیز دینا طے کرچکے ہوتے ہیں مگر بندہ اُس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگتا ہے تو اس بندہ کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔عمومی طور پر یہی اسباب ہیں ۔ اہل علم نے ان کے علاوہ بھی کچھ اسباب بیان فرمائے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال -زید نے ۲۰۰۹ء میں کچھ زمین خرید لی اور دوسال میں زمین بیچ ڈالی او راس پر کچھ منافع بھی کمایا۔اب سوال یہ ہے کہ زید کی جواصل رقم ہے اُس پر اور جو کچھ منافع کمایا اُس پر کیا زکوٰۃ واجب ہے ۔ اگرزکوٰۃ واجب ہے تو اصل رقم اور منافع کی رقم کی زکوٰۃ کس طرح نکالی جائے گی ۔ جب کہ کہاجاتاہے زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ہے ۔
شوکت حسین…بٹہ مالو ،سرینگر
برائے فروخت اراضی پر زکوٰۃ لازم
جواب:-زمین خریدنے کے وقت اگر نیت یہ تھی کہ اس زمین پر فصل اُگائی جائے گی یا باغ لگایا جائے گا یا اس زمین پر مکان یا دوکان تعمیر کی جائے گی تو اس صورت میں اس زمین پر زکوٰۃ لازم نہ ہوگی اور اگر زمین خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ اس زمین کو فروخت کیا جائے گا تو اس صورت میں یہ زمین ایسے ہی ہے جیسے دوکان کا مالِ تجارت ہوتاہے ۔ اس صورت میں اس زمین کی قیمت پر بہرحال زکوٰۃ لازم ہوگی او رجس وقت زکوٰۃ اداکرنی ہواُس وقت اس زمین کی جو قیمت مناسب ہواُس پرزکوٰۃ لازم ہوگی۔ چاہے یہ قیمت کم ہویا زیادہ ۔اور چاہے سالہاسال تک یہ زمین فروخت نہ ہوسکے مگر چونکہ نیت فروخت کرنے کی ہے اس لئے ہرسال اُس کی قیمت پرزکوٰۃ اداکرنا ضروری ہے ۔ پھر جب زمین فروخت ہوجائے تو اس کی پوری قیمت فروخت پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ اداکرنا لازم ہے۔ یعنی ایک لاکھ میں اڑھائی ہزار روپے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-بہو ،ساس ، داماد ،سسر اگر غریب ہوں تو کیا ان کو زکوٰۃ ،عشر یا صدقہ فطر دے سکتے ہیں ؟
غلام عباس ۔ بانڈی پورہ کشمیر
اصول اور فروع کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
جواب:-زکوٰۃکی رقوم ساس ، سسر ، داماد ،بہو ،بہنوئی او ربرادرِ نسبتی کو دینا درست ہے بشرطیکہ وہ مستحق ہوں ۔ جیسے دادا ،دادی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے اسی طرح نانا نانی کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے ۔ اس لئے اصول اور فروع کو زکوٰۃدینا درست نہیں ہے اصول میں والدین اور والدین کے والدین آتے ہیں جبکہ فروع میں اولاد اور اولاد کی اولاد آتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :کچھ لوگ اپنے مقررہ وقت پر نماز ادا نہیں کرپاتے ہیں،کسی مصروفیات کی وجہ سے۔پھر وہ شام کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ نمازیں ادا کرتے ہیں ۔کیا یہ صحیح ہے؟اور میں نے یہ سُنا ہے کہ اگر کبھی کسی وجہ سے کوئی نماز اپنے وقت پہ ادا نہیں کرپائے تو کیا وہ نماز اگلے دن اُسی وقت پہ ادا کرسکتے ہیں؟
شوکت احمد ،بانڈی پورہ
نماز عمداً ترک کرنا تباہی کی وعید
جواب :نماز کی ادائیگی وقت ِ مقررہ پر لازم ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ نماز افضل ایمان پر وقت مقرر کے مطابق لازم ہے۔دنیا کا کوئی بھی کام نماز کے وقت نماز سے زیادہ اہم اور لازم نہیں۔حدیث میں ہے کہ جس شخص نے عمداً نماز ترک کردی ،وہ کفر کے قریب پہنچ گیا ۔وقت ہوجانے کے بعد اب نماز پڑھیں اور بعد میں نماز قضا پڑھیں تو قرآن کریم نے ایسے نمازیوں کے لئے بربادی اور تباہی کی وعید سُنائی ہے۔چنانچہ ارشاد ہے :(ترجمہ) ویَل یعنی بُربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو نمازوں میں سُستی اور تساہل برتتے ہیں ۔(الماعون ۔۴) اگر سوئے رہ گئے یا بھول گئے یا ایسے سخت مشکل حالات تھے کہ نماز نہ پڑھ سکے ،اور تمام کوشش کے باوجود نماز قضا ہوگئی تو پھر اس نماز کی قضا اولین فرصت میں کرنا لازم ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غزوہ خندق کے موقعہ پر نماز عصر قضا ہوگئی،آپؐ نے مغرب کے وقت پہلے یہ عصر کی قضا پڑھی،پھر مغرب پڑھی،اور ایک حدیث میں ہے کہ خندق کے موقعہ پر ظہر ،عصر ،مغرب قضا ہوگئیں،آپ ؐ نے عشا سے پہلے یہ تین نمازیں قضا پڑھیں۔اس لئے جو نماز وقت پر نہ پڑھی گئی اُس کو جتنا جلد ہوسکے پڑھیں،جلد سے جلد پڑھیں اُتنا بہتر اور جتنا دیر کریں اُتنا بُرا ہے۔
بخار ی شریف تیمم کے باب میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز فجر قضا ہونے اور دوپہر سے پہلے پہلے ادا کرنے کابیان موجود ہے۔لہٰذااولاً تو صاحب ایمان اس کی پوری کوشش کرے گا کہ نماز اپنے وقت مقررہ پر ادا کرے،اگر کوشش کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکا تو نماز قضا ہونے کا غم اور شر کا احساس ہوا ،پھررکاوٹ دور ہونے کے بعد سب سے پہلے فوت شدہ نماز کی ادائیگی کرے گا اور ساتھ ہی نماز کے قضا پڑھنے پر استغفار بھی کرے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔