سوال: آج کل بہت سارے خوش قسمت مسلمان سفرِحج کے لئے روانہ ہورہے ہیں۔اس حوالے سے ہمارے دو سوال ہیں؟ ایک یہ کہ حج کے دوران یہ حاجی صاحبان نمازیں قصر ادا کریں گے یا پوری نمازیں پڑھیں گے۔دوسرا سوال یہ ہے کہ ان حاجی صاحبان پر دو قربانیاں لازم ہیں یا ایک قربانی،جو حج کے دوران ہوتی ہےوہی قربانی کافی ہے۔جو یہ ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر یہاں گھر میں کرتے ہیںوہ لازم ہے یا معاف ہے۔تفصیل سے جواب مطلوب ہے۔
ایک سائل
ایام حج کے دوران نمازِ قصر کی ادائیگی : مسئلہ کی توضیح
جواب: دونوں سوالوں کا جواب درج ذیل ہے۔سفرِ حج میں گھر سے لے کر مکہ مکرمہ یا مدینہ طیبہ پہنچنے تک پورے راستے میں نمازیں قصر ادا کرنی ہوں گی۔یعنی فرض نماز چار کے بجائے دو رکعت ۔مکہ شریف یا مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے جب وہ حرم ِ مدینہ یعنی مسجد نبوی میں امام کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں گے تو پوری پڑھیں گے ،اگر کبھی امام کی اقتدا ء کے بغیر اپنی نمازیں الگ پڑھنی پڑے تو قصر ادا کریں۔قیام ِمدینہ میں سنت و نوافل کا بھی خوب اہتمام کریں پھر مدینہ طیبہ سے مکہ شریف کے سفر میں قصر نمازیں پڑھیں گے۔مکہ مکرمہ پہنچ کر اگر اُن کو پندرہ دن کا قیام کرنا ہو اور ان پندرہ دنوں میں منیٰ عرفات جانےکا مرحلہ بھی ہو ،یعنی مکہ مکرمہ پہنچ کر حج کے ایام شامل کرکے واپس اپنے وطن روانہ ہونے تک پندرہ ایام کا قیام بن جاتا ہے تو اب یہ شخص مکہ مکرمہ میں مقیم بن گیا ،لہٰذا یہ شخص اب قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نمازیں ادا کرے گا ۔یہ مقیم شخص قیام مکہ کے دوران جب آٹھ ذی الحجہ کو احرام باندھ کر منیٰ عرفات جائے گا تو یہ شخص مقیم ہونے کی حالت میں چونکہ حج کررہا ہے، اس لئے منیٰ عر فات مزدلفہ میں قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نمازیں ادا کرے گا اور اگر مکہ آنے سے لے کر واپس وطن روانہ ہونے تک پندرہ دن سے کم وقت ہے تو یہ قصر کرے گا۔
حضرت نبی کریم علیہ السلام اور حضرت صدیق اکبرؓنیز حضرت فاروق اعظمؓ نے حج کے دوران قصر نمازیں پڑھیں ۔کیونکہ اُن کی مدت ِ اقامت پندرہ دن سے کم تھی۔لہٰذا جس حاجی کی مدت ِ اقامت پندرہ دن سے کم ہو،وہ بھی قصر کریںاور جن کی مدتِ اقامت پندرہ دن یا اُس سے زائد ہو وہ چونکہ مقیم ہیںاس لئے وہ پوری نمازیں ادا کریں۔چاروں ائمہ مجتہدین میں سے تین مسالک حنفی،شافعی اور حنبلی مسلک یہی ہےجبکہ امام مالک ؒ کا مسلک یہ ہے کہ حاجی کو ہر حال میں حج کے دوران قصر ہی کرنا ہے ۔لہٰذا جو مسلمان فقہ حنفی یا شافعی یا حنبلی مسلک پر عمل پیرا ہیں وہ مکہ مکرمہ میں مقیم بن جائیں تو منیٰ عرفات میں پوری نمازیں پڑھیں۔اگر کسی حنفی یا شافعی یا حنبلی فقہ کے پیروکار نے مقیم ہونے کے باوجود قصر نمازیں پڑھیں تو اُن کی نمازیں ادا نہیں ہونگی اور عرفات میں نمازیں پڑھنے کے باوجود اُس کی نمازادا ہونے سے رہ گئیں۔دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ حاجی صاحبان پر گھر کی قربانی بھی واجب ہے اور اُن کو اختیار ہے کہ وہ یہ قربانی مکہ مکرمہ میں کریں یا گھر میں ہی قربانی کا انتظام کریں۔
????????????????
سوال: اگر کسی شخص کو پیشاب کے قطرے مسلسل آتے ہوں یا اُسے لگاتار ریح خارج ہونے کا مرض ہو اور وضو کرنے کے بعد بھی یہ عذر جاری رہتا ہو تو وہ نماز کیسے ادا کرے گا ؟
شوکت احمد خان ،بمنہ سرینگر
اخراج ِگیس سے وضو ٹوٹنے کا عارضۂ مسلسل
ادائیگی نماز کے لئے شرعی ہدایات
جواب: جس شخص کو وضو ٹوٹنے کا عارضہ مسلسل جاری رہتا ہو، چاہے گیس خارج ہو یا مسلسل البول یعنی پیشاب کے قطرے تسلسل سے گرتے رہتے ہوں یا جسم کے کسی حصہ مثلاً دانت یا زخم سے لگاتار خون نکلتا رہتا ہو تو ایسے شخص کو شریعت اسلامیہ میں معذور کہا جاتا ہے۔شرعی معذور بننے کے لئے ضروری ہے کہ یہ عذر اتنی کثرت سے ہو کہ وہ وضو کرکے نماز ختم ہونے تک اپنا وضو نہ بچا سکے ۔اس شخص کے لئے شرعی رخصت یہ ہے کہ وہ نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد وضو کرے اور پھر نماز شروع کرے۔ اگر نماز کے دوران یہ عذر جاری رہے تو وہ معاف ہے اور اس وضو سے وہ اگلی نماز کے وقت تک جتنی چاہے نمازیں پڑھ سکتا ہے،تلاوت کرسکتا ہے اور قضا ء نماز یں بھی پڑھ سکتا ہے۔جونہی دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے تو اُس کے لئے دوسرا وضو کرنا لازم ہوگا ۔ہاں! اگر اس دوران کوئی ناقضِ وضو پیش آگیا تو اُسے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔مثلاً کوئی شخص خروج ریح کا معذور ہے تو نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد وضو کرے اور نمازیں پڑھے۔یہ وضو اگلی نماز تک باقی رہے گا لیکن اس دوران اُس نے پیشاب کیا تو اب نیا وضو کرنا ہوگا۔یہ معذور شخص امامت کا اہل نہیںہے۔اسی طرح پیشاب کے قطرے گرنے کا عذر ہو تو پھر مسجد میں آنے سے پہلے اُس کو اچھی طرح ڈائیپر(Diper)لگانا ضروری ہے تاکہ پیشاب کے قطرے مسجد میں نہ گرنے پائیں۔
????????????????
سوال : سوال یہ ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد وراثت اولاد میں تقسیم ہوتی ہے ۔اس تقسیم کے لئے شرعی اصول کیا ہے اور دوسرا سوال یہ ہے کہ باپ کی وراثت اولاد میں جس ترتیب کے مطابق تقسیم ہوتی ہے ،اگر ماں گذر جائے تو کیا ماں کی وراثت بھی اولاد میں اُسی طرح تقسیم ہوگی یا اُس میں کوئی دوسرا اصول ہے۔اگر کسی خاندان میں وراثت چاہے باپ کی ہو یا ماں کی ،اولاد میں تقسیم ہوئی ہو اور وہ شرعی اصولوں کے خلاف تقسیم ہوئی ہو تو اس کے لئے اب کیا حکم ہے۔کیا یہ تقسیم برقرار رکھی جائے یا اُس کو شرعی اصولوں کے مطابق دوبارہ تقسیم کیا جائے۔اس کی وضاحت کیجئے۔
محمد مستقیم ۔حضرت بل سرینگر
ماں اور باپ کی وراثت ۔تقسیم کا شرعی اصول
جواب : قرآن کریم نے والد کی تقسیم وراثت کے لئے جو اصول مقرر کیا ہے وہی ماں کی وراثت کے متعلق بھی ہے۔یعنی جیسے باپ کی وراثت اولاد میں تقسیم کی جائے اُسی طرح ماں کی وراثت بھی اولاد میں تقسیم کی جائے۔بیٹے کو جتنا حصہ باپ کی وراثت سے ملے گا ،اتنا ہی حصہ ماں کے ترکہ سے بھی ملے گا ۔یہی مسئلہ بیٹی کے حق میں بھی ہے۔مثلاً باپ کی وفات پر اگر ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہو تو بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔
اگر کسی خاندان میں شرعی ضوابط کے خلاف تقسیم وراثت ہوئی ہو تو کسی وارث کو یقیناً کم ملا ہوگا اور کسی کو زیادہ ملا ہوگا یا کسی وارث کو محروم کردیا گیا ہوگا اور کسی کو اُس کے حق سے زیادہ دیا گیا ہوگا۔جب یہ تقسیم کا عمل انجام دیا گیا ہے ،اُس وقت کیا کیا کہا گیا ہےاور کم حصہ ٔ وراثت لینے والے نے یہ کیوں اور کیسے قبول کیا ہے۔اس کی تفصیلات جب سامنے آئیں گے اُس کے بعد ہی یہ کہا جاسکے گا کہ سابقہ تقسیم برقرار رکھی جائے یا ختم کردی جائے۔
????????????????
سوال: میری ایک کزن خاتون کو طلاق ہوگئی ہے۔کورٹ سے اُس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے کہ اُس کو دوسری شادی کرنے تک طلاق دینے والے شوہر سے خرچہ ملتا رہے گا اور شوہر وہ خرچ دے رہا ہے۔اب اُن کا سوال یہ ہے کہ کیا اُس کا یہ خرچہ لینا شریعت کی رُو سے درست ہے؟ اگر یہ درست نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اُس کا خرچہ کس کے ذمہ ہے۔
ڪیاسمین۔از پلومہ
مطلقہ خاتون کے لئے ایامِ عدت تک نفقہ لینا جائز
جواب : جب کسی عورت کو طلاق ہوجائے تو اُس خاتون کو مطلقہ کہا جاتا ہےاور اُس کو ملنے ولا خرچہ نفقہ مطلقہ کہلاتا ہے۔اسلام کے ضابطۂ نفقہ کے مطابق نفقہ مطلقہ ٔصرف عدت کے عرصہ تک لازم ہوتا ہے۔عدت یا تو تین حیض کی مدت ہے اور اگر خاتون حاملہ ہو تو صرف وضع حمل تک یہ نفقہ لازم رہتا ہے اور اگر عورت نہ تو حیض والی ہو اور نہ حمل والی ہو تو پھر یہ نفقہ تین ماہ تک رہتا ہے۔جوں ہی یہ عدت، چاہےتین ماہ ہوںیا تین حیض ہوں یا وضع حمل ہو ،پوری ہوجائے تو اب وہ طلاق دینے والا مرد اس مطلقہ کے لئے مکمل طور پر اجنبی بن جاتا ہے۔اس لئے اس اجنبی سے خرچہ لینا شرعاً ہرگز درست نہیں۔اگر کسی برادری کے فیصلے یا کسی کورٹ کے فیصلے میں اُس فیصلہ کی بنا پر وہ طلاق دینے والا خرچہ دے رہا ہے تو بھی شرعاً عورت کے لئے یہ نفقہ لینا جائز نہیں۔اس عورت کو عدت کے بعد دوسرا نکاح کرنا چاہئے اور اگر وہ کسی وجہ سے دوسرا نکاح نہ کرے تو اس عورت کے نفقہ کی ذمہ داری اس خاتون کے باپ ،بھائیوں ،چاچائوں اور بھتیجوں پر ہے۔اسلام کا قانونِ نفقہ اس سلسلے میں واضح ہے اور مسلم پرسنل لا مجموعہ قوانین میں یہ تفصیل موجود ہے۔قرآن و حدیث کے مطابق یہی حکم ہے۔