سوال:-میں ایک نوجوان ہوں ۔ جدید تعلیم سے وابستہ ہوں ۔آج کل سبھی نوجوان انٹرنیٹ سے جڑ ے ہوئے ہیں ۔اس بارے میں آپ سے گذارش ہے کہ کیا ہم کسی اسلامی ویب سائٹس سے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔اس بارے میں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور جو ضروری باتیں ہوںگی وہ ضرور بتائیں ۔
کامران سجاد
انٹرنیٹ حد سے زیادہ مفید ،بے انتہا خطرناک
اسلامی معلومات کیلئے مستند سائٹس کا انتخاب کرناضروری
جواب:-انٹرنیٹ ہرقسم کی معلومات حاصل کرنے کی ایک پوری کائنات کاخزانہ ہے ۔ یہ بے انتہا مفید بھی ہے اور حد سے زیادہ خطرناک بھی ۔اس مفید ترین ذریعہ سے معلومات کا بڑے سے بڑا ذخیرہ بھی حاصل کیاجاسکتاہے اور اس کے ذریعہ انسان اُن خرابیوں اورخباثتوں کا شکار بھی ہوسکتاہے جن کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ گندی اور فحش ویب سائٹس کا حال توجیساہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔بظاہر اس کی اچھی ویب سائٹسوں کا حال بھی بہت خراب ہے ۔الا ماشاء اللہ۔مثلاً مذہبی ویب سائٹس دیکھئے ۔ غیر اسلامی مذاہب کے تعارف وتبلیغ کے لئے ہزاروں بلکہ لاکھوں سے زیادہ ویب سائٹس سرگرم ہیں ان میں تو ہماتی اور خرافاتی باتوں کو طرح طرح سے پُرکشش بناکر پیش کیا جاتاہے تاکہ ان ویب سائٹس سے استفادہ کرنے والا لاعلم نوجوان اس سے متاثر ہوسکے ۔ اسلام کے نام پر بہت کم ویب سائٹس ہیں اور وہ بھی زیادہ تر ایسے افراد کے ذریعے جو خود اسلام سے نہ صحیح طور پر واقف ہیں نہ اسلامی ذہنیت سے آراستہ ۔ نہ اسلام کے بنیادی افکار وتصورات کے متعلق اُن کی ذہنی حالت درست ہے ۔ اس لئے وہ صحیح ترجمانی کر ہی نہیں سکتے ۔ کہیں وہ مغربی تصورات سے متاثر، کہیں وہ اپنے علاقائی یا گروہی اثرات لئے ہوئے ہیں ۔یاتجدد پسندی کے نتیجے میں پیداہونے والے خیالات کو وہ اسلام بناکرپیش کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دینِ حق کی ترجمانی غلط ہاتھوں سے ہوتی ہے اور طرح طرح سے تحریف کردہ تعلیمات پیش کی جاتی ہیں ۔
اسی طرح کچھ لوگ اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر اسلام کی ایسی ترجمانی کرتے ہیں جس سے اسلام سے نفرت پیداہوجائے یا اُس کے متعلق شکوک پیدا ہوجائیں یا استفادہ کرنے والے کنفیوژن کا شکار ہوجائیں ۔ چنانچہ یہودی ، مرزائی او راس قسم کے دوسرے طبقات جس انداز اور ترتیب سے اسلام کے کسی بھی نام سے کوئی ویب سائٹس یا چینل چلائیں اُن میں یہی صورتحال ہوتی ہے ۔
اس لئے جب کسی اسلامی ویب سائٹس سے رسائی حاصل کرنا ہوتو پہلے اچھی طرح یہ تحقیق کریں کہ یہ کس کی لانچ کی ہوئی ہے یا کسی مستند شخص سے پہلے اس کی تصدیق کرالیں کہ کیایہ ویب سائٹ قابل استفادہ ہے ؟اسی طرح کسی بھی فتویٰ ڈاٹ کام سے ہرگز فتوے حاصل نہ کریں جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس پر جواب دینے والا مستند ہے یا نہیں ۔ آج بے شمار لوگوں نے اسلام کی تشریح ، اس کے احکام بیان کرنے، اُس پرلیکچر دینے ،اُس پر تبصرے کرنے اور اس پر اپنی رائے بطورحکم شرعی بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جن کا اسلامی علم مستند ومعتبر نہیں ہے۔اس لئے نیم حکیم چاہے وہ کتنی اچھی زبان واسلوب اور کتنے ہی ماڈرن انداز میں سامنے آئے ہیںوہ جان کے لئے خطرہ ہوتا ہے۔نیم حکیم خطرہ جان ،اسی طرح نیم مولوی خطرۂ دین۔ آج کل نیم سکالر اور دانشورخطرہ دین وایمان ہیں ۔دراصل وہ اسلام کے اسکالر ہوتے ہی نہیں بنے ہوئے ہیں ۔
فحش ویب سائٹس سے دور رہنا لازم ہے ۔اس طرح انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرنا وقت ضائع کرناتو ہے ۔ بسااوقات یہ بہت ساری خرابیوں میں مبتلا ہونے کا سبب بھی بنتاہے ۔ اسی طرح اگر چیٹ کرکے دوسرے کو دھوکا دیا جائے تو حرام ہے۔ اگرکسی بھی ویب سائٹ پر کسی سے چیٹنگ ہو تو اسلام کا تعارف ، اوراس کی حقانیت کے متعلق بس وہی باتیں کہیں جو مستند ہوں یا کسی مستند ومعتبر سائٹ کا پتہ بتائیں ۔ ذاتی ونجی زندگی یا تفریحات ومنکرات کوزیر گفتگو لانا دراصل اپنے آپ کوزہردیناہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-ہم بہت سارے دوست عمومی تعلیم سے وابستہ ہیں او رساتھ ہی دینی علوم کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ ہم کن کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہماری دینی فکر درست بھی اور پختہ بھی ہو ۔
ند یم احمد — جموں
پختہ دینی فکر کیلئے حصولِ علم کی ضرورت
جواب:-دینی علم دراصل بہت سارے علوم کا مجموعہ ہے اور جب تک باقاعدہ اُن تمام علوم کو کسی مستند ادارے میں حاصل نہ کیا جائے اُس وقت تک مکمل رسوخ واعتماد حاصل نہیں ہوپاتا ۔تاہم دینی فکر کو پختہ کرنے اور اسے تمام طرح کے افراط وتفریط سے محفوظ رکھ کر مضبوط بنانے کے لئے ایسے افراد جو عصری علوم سے وابستہ ہو ، درج ذیل کتابیں یک گونہ ضرور فائدہ ہوں گی ۔
تفسیر میں آسان ترجمہ قرآن اُردو وانگریزی از مولانا محمد تقی عثمانی ۔ پھر تفسیر معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع ؒ (اردو انگریزی علوم القرآن از مولانا تقی عثمانی ، معارف الحدیث (اردو انگریزی) از مولانا منظور نعمانی ۔ الادب المفرد از امام بخاریؒ،ریاض الصالحین (اردو وانگریزی ) از امام نوریؒ۔ محاضرات حدیث از ڈاکٹر محمود احمد ۔عقائد میں عقیدۃ الطحاویؒ اور عقائداسلام از مولانا محمدادریس کاندھلویؒ۔
سیرت طیبہ میں سیرت النبی ؐاز علامہ شبلی ؒ وعلامہ سید سلمان ندوی اور الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن نیز رحمتہ اللعالمینؐ۔ تاریخ اسلا م میں مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی تاریخ اور تاریخ ملت حیات الصحابہ از مولانا محمد یوسف کاندھلوی ۔
مواعظ میں ، اصلاحی خطبات ، خطبات فقیر، خطباب حکیم الاسلام ، مواعظ فقیہ الامت نیز پیر ذوالفقار احمد کی تمام کتابیں ۔
متفرقات میں اختلافات امت اور صراط مستقیم ، سنت نبوی اور جدید سائنس ، مغربی میڈیا ، جہانِ دیدہ ،آپ کے مسائل اور ان کا حل ۔ ثبوت حاضرہیں ۔
فتاویٰ محمودیہ اور مولانا محمد رفعت قاسمی کی تمام کتابیں۔ان کے بعد کسی مستند عالم سے رہنمائی لی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کو نذر کہتے ہیں ۔ نذر رکھنے کا شرعی طریقہ کیاہے ؟ کیا نذرکی رقم یا چیز مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کودی جاسکتی ہے ۔ اگر نذر کوئی جانور ہو تو اس گوشت کو کن لوگوں میں بانٹاجائے ۔
ابوعقیل … سوپور
نذراداکرنے کا شرعی طریقہ
جواب:-نذرکاشرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے کسی مشکل مرحلے کے لئے یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس طرح زبان سے نیت کی جائے ۔
اگر میرا یہ معاملہ حل ہوگیا ، یا میری یہ ضرورت پوری ہوگئی یا ہمارا فلاںبیمار تندرست ہوگیا تو میں اللہ کی راہ میں اتنی رقم صدقہ کروں گا۔ یا جانور قربان کروں گا ۔ یا یہ مجھ پر لازم ہے ۔ پھر جب وہ معاملہ حل ہوجائے یا وہ مشکل حل ہوجائے گی ۔تواتنی رقم صرف غریبوں میں تقسیم کی جائے ۔ یہ رقم مسجد میں خرچ کرنا درست نہیں ہے ، ہاں جس مدرسہ میں غریب بچوں پر کھانے پینے میں یہ رقم خرچ ہوسکتی ہواُس مدرسہ میں نذر کی یہ رقم دینا درست ہے جیسے زکوٰۃ وصدقہ فطر کی رقم اُن مدارس میں دینا درست ہے ۔اگر قربانی کی نذر مانی تو اس جانور کا گوشت سارے کاساراغرباء میں تقسیم کرنا ضروری ہے ۔
نذرکے لئے ضروری ہے کہ جس کام کو انسان اپنے اوپر لازم کرے اُس کی کوئی قسم شریعت سے پہلے ہی لازم کی ہو ۔
مثلاً نماز، روز ہ، صدقہ ، حج ، قربانی ، خیرات انہی کاموں کو جب کوئی شخص اپنے اوپر لازم کرے گا تو وہ شرعی نذر بن جائے گی۔اگر کسی ایسے کام کو اپنے اوپر لازم کیا گیا جو شریعت نے بھی لازم نہ کیا ہوتو وہ نذر نہیں بنے گی۔ اس لئے وہ عبادت نہ ہوگی اور نذر عبادت کے قبیل سے ہے چاہے بدنی عبادت ہویا مالی عبادت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-بہو ،ساس ، داماد ،سسر اگر غریب ہوں تو کیا ان کو زکوٰۃ ،عشر یا صدقہ فطر دے سکتے ہیں ؟
غلام عباس، بانڈی پورہ ، کشمیر
اصول اور فروع کو زکوٰۃ دینا درست نہیں
جواب-زکوٰۃکی رقوم ساس ، سسر ، داماد ،بہو ،بہنوئی او ربرادرِ نسبتی کو دینا درست ہے بشرطیکہ وہ مستحق ہوں ۔ جیسے دادا ،دادی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے اسی طرح نانا نانی کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں ہے ۔ اس لئے اصول اور فروع کو زکوٰۃدینا درست نہیں ہے اصول میں والدین اور والدین کے والدین آتے ہیں جبکہ فروع میں اولاد اور اولاد کی اولاد آتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-نیم آستین والے قمیص میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں اور آ ج کل کے نوجوانوں میں کڑھے پہننے کا فیشن ہے ، کیا اسے پہنے ہوئے نماز پڑھنادرست ہے ؟
ایک سائیل
شرعی لباس میں نماز پڑھنا افضل
جواب:- افضل اور شرعی طور پرپسندیدہ یہ ہے کہ شرعی لباس میں نماز ادا کی جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ہر سجدہ کے وقت اچھی زیب وزینت کرو ۔ (سورہ الاعراف )۔ظاہرہے یہاں شرعی زیب وزینت ہی مراد ہے۔ شرعی لباس یہ ہے کہ پوری آستین والی قمیص جو رانوں تک ستر کرنے والی ہو اور ایسا پاجامہ یا پتلون جو ٹخنوں سے اوپر اور رانوں اور سر ینو کے مقام پر ڈھیلی ڈھالی ہو تاکہ ستر کے حصے کا حجم ظاہرنہ ہو اور سرپر عمامہ یا ٹوپی ہو ۔بس اس طرح کے لباس میں نماز پڑھناشریعت کا مطلوب ہے۔ مجبوری میں جب نصف آستین میں نماز پڑھی گئی تو وہ ادا ہوجاتی ہے اور جب کوئی ایسی حالت میں ہوکہ یا تو نماز چھوڑ دینی پڑے یا نصف آستین والی شرٹ میں نماز پڑھنی پڑے تو ایسی حالت میں اُسی شرٹ میں نماز پڑھیں مگر نماز ترک نہ کی جائے ۔
ہاتھوں پر کڑا یا دھاگا باندھنا اہل کفر کا شعار ہے ۔اس سے سختی سے پرہیز کرنا لازم ہے اس لئے کہ اس سے ایمان کو خطرہ ہوتا ہے۔اہل کفر کا کوئی شعار مثلاً قشقہ کھینچنا ،ماتھے پر ٹیکہ کرنا،صلیب لٹکانا ، زنار باندھنا ،ہاتھوں میں کڑے ڈالنایا کلائی میں لال یا سیاہ رنگ کے دھاگے باندھنا یا منکوں یعنی لکڑی کے دانوں کے ربن باندھنا یہ سب مختلف غیر مسلم اقوام کے مذہبی شعار ہیں ۔ مسلمانوں کو ان سے ایسے دور رہناضروری ہے جیسے کسی زہریلی چیز سے انسان دور رہتاہے ۔ زہرجان کے لئے خطرہ ہے او رکفر کا شعار اختیار کرنا ایمان کے لئے خطرہ ہے ۔
خضاب کا استعمال اور ادائیگیٔ سنت
سوال :- داڑھی او رسر کے بال سفید ہونے کی صورت میں اگر کوئی شخص سفید بال چھپانے اور زینت کی غرض سے بازار میں ملنے والے لال رنگ کا استعمال کرے ۔ کیا یہ جائز ہے اورکیا اس پر مہندی کے خضاب کی سنت کا ثواب ملے گا ؟
حافظ رفیق احمد وانی …قاضی پورہ
جواب:-مردوں کے لئے سر اور داڑھی کے سفید بالوں میں مہندی کا خضاب لگانا بلاشبہ سنت ہے ۔ اگر کسی شخص نے مہندی کے بجائے لال رنگ یا مہندی جیسا رنگ بطورخضاب استعمال کیا تو یہ بھی جائز ہے لیکن کیا اس سے سنت کی ادائیگی ہوجائے گی ، یہ یقینی نہیں ہے ۔ایک حدیث میں زعفران کا رنگ لگانے سے منع کیا گیا ہے۔
ملاحظہ ہو داڑھی اور انبیاء کی سنتیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔