ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
محمد ناصر افکار کی کتاب ’’خود سے خدا تک‘‘ نفسیاتی اور روحانی بیداری کے پیچیدہ موضوع پر لکھی گئی ایک اہم اور گہری کتاب ہے۔ یہ کتاب قارئین کو خودی کی تلاش کے ساتھ ساتھ خدا کے قریب لے جانے کا ایک سفر طے کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ مصنف نے نفسیات اور روحانیت کو ایک ساتھ جوڑتے ہوئے انسانی روح اور ذہنی شعور کی گہرائیوں کو تلاش کیا ہے۔ یہ سفر ایک شخص کی اندرونی دنیا سے شروع ہو کر بالآخر خدا کی معرفت تک پہنچتا ہے۔
’’خود سے خدا تک‘‘ کی بنیادی تھیوری یہ ہے کہ انسان کی سب سے بڑی جدوجہد خود سے شروع ہوتی ہے۔ ہم زندگی کے ہر شعبے میں دوسروں کی توقعات، دنیاوی مسائل، اور خارجی مشکلات سے الجھتے ہیں، مگر اصل جنگ ہماری اپنی اندرونی دنیا میں ہوتی ہے۔ مصنف نفسیاتی بیداری کو زندگی کی پہلی ضرورت قرار دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جب تک ہم اپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم کبھی بھی مکمل سکون اور خوشی حاصل نہیں کر سکتے۔
محمد ناصر افکار کا کہنا ہے کہ خود شناسی کا سفر وہ پہلا قدم ہے جو انسان کو روحانی ارتقاء کی طرف لے جاتا ہے۔ جب ہم اپنی شخصیت، خواہشات، کمزوریوں اور طاقتوں کو گہرائی سے جانتے ہیں، تب ہی ہم اپنی روحانی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اپنی داخلی کمزوریوں اور تضادات کو پہچاننا اور ان کا سامنا کرنا ہی ہمیں خدا کی قربت کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں مصنف نے روحانی بیداری پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب ایک شخص اپنی نفسیاتی کشمکش پر قابو پا لیتا ہے اور اپنی ذات کے اندھیرے گوشوں کو روشنی میں لے آتا ہے، تو اسے روحانی سکون کی تلاش شروع کرنی چاہیے۔ “خود سے خدا تک” کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد خدا کی معرفت کو حاصل کرنا ہے، اور یہ معرفت خودی کی تلاش اور اس کے مسائل کو حل کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔
روحانی بیداری کا سفر ایک خاموش مگر طاقتور عمل ہے۔ اس کتاب میں محمد ناصر افکار نے روحانیت کو کسی پیچیدہ یا مشکل عمل کے بجائے ایک سادہ اور فطری طریقہ قرار دیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انسان کو خدا سے دوری اس کے نفس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جیسے ہی انسان اپنے نفس کی خامیوں اور کمزوریوں کو سمجھتا ہے، اسے اپنی اصل حقیقت کا ادراک ہوتا ہے اور وہ خدا کی قربت کو محسوس کرتا ہے۔
محمد ناصر افکار کا اندازِ بیان بہت ہی پرمغز اور دلچسپ ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو نہایت سادہ اور موثر طریقے سے پیش کیا ہے۔ کتاب کی زبان عام فہم ہے، جس میں گہرے موضوعات کو بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کے الفاظ دل میں اتر جانے والے ہیں اور قاری کو متاثر کرتے ہیں۔ کتاب کا ہر جملہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور قاری کو اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔
مصنف نے نفسیاتی اور روحانی موضوعات کو ایک ساتھ پیش کر کے ان دونوں کے درمیان ایک گہرا ربط پیدا کیا ہے۔ وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ انسان کی روحانی ترقی اور اس کی نفسیاتی صحت آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ جب تک انسان اپنی ذہنی کشمکش کو حل نہیں کرتا، وہ خدا کی قربت اور روحانی سکون حاصل نہیں کر سکتا۔
جدید دور کے مسائل کا حل
’’خود سے خدا تک‘‘ میں محمد ناصر افکار نے جدید دور کے انسان کے مسائل کو بھی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آج کا انسان جسے مادی ترقی اور سائنسی ایجادات نے اپنی طرف مائل کر رکھا ہے، وہ اپنے اندرونی سکون اور خدا کی قربت سے بہت دور ہو چکا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ آج کے انسان کو اپنی مادی کامیابیوں کے باوجود ایک اندرونی خلا محسوس ہوتا ہے، جسے وہ بھر نہیں پا رہا۔
مصنف نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ انسان کی روحانی کمزوری اس کی نفسیاتی بے سکونی سے جڑی ہوئی ہے۔ جب تک ہم اپنی اندرونی کشمکش، خواہشات، خوف اور مایوسیوں کو ختم نہیں کریں گے، تب تک ہم خدا کے قریب نہیں پہنچ سکتے۔ کتاب اس بات کا ایک عمدہ حوالہ ہے کہ روحانی ترقی کا آغاز خود کو بہتر بنانے سے ہوتا ہے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ روحانیت کوئی مشکل یا پیچیدہ راستہ نہیں ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے جو ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے، لیکن ہمیں اسے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ محمد ناصر افکار نے روحانیت کو ایک سادہ اور زندگی کا حصہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق روحانی بیداری کسی مخصوص مذہبی رسم یا طریقے کا محتاج نہیں، بلکہ یہ ہر انسان کے دل میں خدا کی تلاش کا فطری عمل ہے۔
مصنف یہ بات واضح کرتے ہیں کہ خدا کی طرف سفر کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب انسان خود کو سمجھتا ہے، اپنی روح کی فطرت کو پہچانتا ہے، اور دنیاوی خواہشات اور مشکلات کو پس پشت ڈال کر اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکتا ہے۔ روحانیت کا راستہ وہی انسان طے کر سکتا ہے جو اپنی نفسیاتی بیداری کو پا چکا ہو۔
محمد ناصر افکار نے اپنی کتاب میں ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں لکھا ہے۔ وہ خود بھی ایک ایسی زندگی گزار چکے ہیں جہاں انہیں اپنی ذات کی تلاش اور روحانی سفر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ان کے اپنے تجربات نے انہیں یہ سکھایا کہ انسان کو اپنی ذات اور خدا کے درمیان رشتہ سمجھنے کے لیے گہری سوچ اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کتاب اسی ذاتی تجربے اور سفر کا نچوڑ ہے۔
’’خود سے خدا تک‘‘ اپنے قاری کو گہری سوچ میں ڈالنے والی کتاب ہے۔ یہ کتاب انسان کو اپنی زندگی کے بنیادی مقصد کے بارے میں سوالات کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مصنف کا پیغام یہ ہے کہ دنیاوی کامیابیاں اور مادی ترقی اگرچہ اہم ہیں، لیکن اصل کامیابی وہ ہے جب انسان اپنی روح کی تسکین اور خدا کی قربت حاصل کر لے۔
کتاب کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ خدا کی طرف سفر خودی سے شروع ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی ذات کو سمجھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اپنی خامیوں کو قبول کرتے ہیں، تب ہی ہم خدا کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ایک روشنی کی کرن ہے جو اپنی زندگی میں خدا کی تلاش میں ہے اور نفسیاتی سکون کی خواہش رکھتا ہے۔
الغرض ’’خود سے خدا تک‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو انسان کو نہ صرف اپنی ذات کی تلاش کا سفر دکھاتی ہے، بلکہ اسے روحانیت کی گہرائیوں میں لے جاتی ہے۔ محمد ناصر افکار نے بہت ہی عمدگی سے انسان کی نفسیاتی اور روحانی ضروریات کو بیان کیا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی ذات کے اندھیروں کو دور کرنا ہوگا۔یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک لازمی مطالعہ ہے جو اپنی زندگی میں روحانی سکون اور خدا کی معرفت چاہتے ہیں۔ محمد ناصر افکار نے ایک ایسی رہنمائی فراہم کی ہے جو آج کے تیز رفتار، مادی دنیا میں انسانی روح کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔
(مبصر ایک معروف اسلامی اسکالر، سماجی کارکن اور ماہر تعلیم ہے)