غلام قادر
ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی اقلیت ہیں، جن کی تعداد ملک کی کل آبادی کا تقریباً 15 فیصد ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ کمیونٹی تاریخی طور پر علم، سائنس، فلسفہ اور فنون لطیفہ میں نمایاں رہی ہے، موجودہ دور میں ہندوستانی مسلمان تعلیمی میدان، خصوصاً اعلیٰ تعلیم میںبہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف ان کی سماجی و معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ ملک کی ترقی میں بھی اور اس پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی تعلیمی ترقی کو مکمل طور پر حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو معیاری تعلیم فراہم کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتی وسائل محدود ہوتے ہیں اور ان میں بے شمار خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر مسلم تنظیموں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ اپنے بچوں کو جدید علوم اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں خود بھی اس مقصد کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے اور تعلیمی میدان میں خود کفیل ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیمی ادارے زیادہ تر نجی فنڈنگ پر چلتے ہیں۔ مغربی ممالک میں بہت سے بڑے تعلیمی ادارے جیسے ہارورڈ، آکسفورڈ، اسٹینفورڈ اور ایم آئی ٹی بنیادی طور پر نجی فنڈنگ پر چلتے ہیں، جہاں مخیر حضرات اور کارپوریٹ سیکٹر تعلیم کے لیے دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں میں یہ رجحان بہت کمزور ہے۔ ہماری جامعات اور اسکول زیادہ تر حکومتی امداد پر انحصار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مالی بحران اور پالیسیوں کے اتار چڑھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اسلامی تعلیمات بھی اسی بات کی تاکید کرتی ہیں کہ تعلیم کو صرف حکومت پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ افراد، تنظیموں اور معاشرے کو مل کر تعلیمی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ماضی میں بہت سے تعلیمی ادارے اور مدارس افراد اور تنظیموں کے تعاون سے چلتے رہے ہیں، لیکن آج کے دور میں یہ روایت کمزور پڑ گئی ہے۔ اگر ہم دوبارہ اسی جذبے کو زندہ کریں اور مسلم تنظیمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، تو ہم اپنے بچوں کے لیے ایک روشن تعلیمی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ (2006) اور دیگر تحقیقی جائزوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کے باعث مسلمان بچے اکثر تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ روایتی سوچ کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کرنا فائدہ مند نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں تعلیمی اداروں اور انفراسٹرکچر کی کمی ہے، جس کی وجہ سے طالب علموں کو معیاری تعلیم میسر نہیں آتی۔دنیا بھر میں کارپوریٹ سیکٹر مختلف تعلیمی اداروں کی مدد کرتا ہے، لیکن ہمارے یہاں یہ رجحان نسبتاً کمزور ہے۔ مسلم تنظیمیں اگر کاروباری طبقے کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ تعلیمی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں تو بہت سے اسکالرشپ پروگرام، ریسرچ سینٹرزاور تعلیمی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں۔
اگر ہر مسلمان اپنی آمدنی کا ایک معمولی حصہ بھی تعلیم کے لیے وقف کر دے تو مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک تنظیم ماہانہ بنیاد پر عوام سے چندہ اکٹھا کرے اور اسے شفاف طریقے سے تعلیمی مقاصد پر خرچ کرے، تو اس سے ہزاروں طلبہ مستفید ہو سکتے ہیں۔
مسلم تنظیمیں اگر عالمی سطح پر کام کرنے والی تعلیمی این جی اوز اور دیگر خیراتی اداروں کے ساتھ شراکت داری کریں تو انہیں فنڈنگ اور دیگر تعلیمی سہولیات حاصل ہو سکتی ہیں۔آج کے ڈیجیٹل دور میں آن لائن فنڈ ریزنگ ایک مؤثر طریقہ بن چکا ہے۔ اگر مسلم تنظیمیں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر فنڈ ریزنگ مہمات چلائیں تو انہیں دنیا بھر کے مخیر حضرات کی مدد حاصل ہو سکتی ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تعلیمی ادارے صرف حکومتی امداد پر انحصار کرتے ہیں تو وہ حکومتی پالیسیوں میں تبدیلیوں اور مالی بحرانوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ خود انحصاری سے تعلیمی نظام زیادہ مستحکم اور پائیدار ہو تا ہے جب تعلیم کے لیے فنڈنگ زیادہ اور مستحکم ہو تو تعلیمی ادارے اعلیٰ معیار کے اساتذہ اور جدید سہولیات مہیا کر سکتے ہیں، جس سے مسلم طلبہ کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔
تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے جو غربت کو کم کر سکتا ہے اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب مسلم تنظیمیں تعلیم میں سرمایہ کاری کریں گی تو وہ ایک ایسا ہنر مند طبقہ پیدا کر سکیں گی جو اپنی معاشی حالت کو بہتر بنا سکے۔اکثر مسلمانوں میں یہ بحث ہوتی ہے کہ جدید تعلیم اور مذہبی تعلیم میں توازن کیسے قائم کیا جائے۔ اگر مسلم تنظیمیں خود تعلیمی ادارے چلائیں تو وہ ایسے نصاب ترتیب دے سکتی ہیں جو دینی اور دنیاوی علوم میں ہم آہنگی پیدا کریں۔
مسلم تنظیموں کو اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے حکومت کے سہارے بیٹھنے کے بجائے خود بھی فنڈ اکٹھا کرنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم تعلیم میں خود کفیل ہوتی ہے، وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے خود انحصاری کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ آئندہ نسلیں بہتر تعلیمی مواقع حاصل کر سکیں اور عالمی سطح پر مسلمانوں کا وقار بحال ہو۔ اگر ہم آج اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہ لیں تو ہماری آئندہ نسلیں بھی تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جائیں گی-
(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)
<[email protected]