سرینگر //سرکار کی انتھنک کوششوں کے بعد کشمیر کا سب سے منفرد اور مشہور ’’ کانی شال ‘‘بنانے کا ہنر فروغ پا رہا ہے۔ پچھلے 4 دہائیوں کے سے کشمیر کی گھریلو دستکاریاں دم توڑ رہی ہیں لیکن ’ کانی شال‘ بنانے کا کام سب سے زیادہ متاثر ہوا جو یہاں کی منفرد اور مثالی دستکاری مانی جاتی تھی۔70کی دہائی میں سرینگر اور ماگام و پٹن کے درمیانی علاقے میں کانی شال بنانے کے ہنر مندوں کی سب سے زیادہ تعداد تھی اور اس علاقے میں گھر گھر لوم لگائے گئے تھے۔چونکہ ’پشمینہ کانی شال‘ منفرد ہاتھ کی بنی ہوئی دستکاری کا شاہکارہوتا ہے، لہٰذا اسکے چرچے جموں و کشمیر سے باہر ہوتے تھے۔ 80کی دہانی کے بعد اس دستکاری سے جڑے لوگوں کی تعداد میں کمی آتی گئی اور پچھلے 30برسوں کے نامساعد حالات کی وجہ سے یہ منفرد دستکاری بھی غائب ہونے لگی۔ البتہ کچھ برسوں سے حکومتی اقدامات کی وجہ سے بنکروں کی تعداد بڑھ گئی ہے ، لیکن ماہر ہند مندوں کی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔’آئینہ اکبری‘ میں لکھا ہے کہ بادشاہ اکبر کشمیری شال بافی کا دل دادہ تھا اور اس کے پاس کانی شال کے چند نایاب نمونے بھی موجود تھے جو کانیہامہ میں بنائے گئے تھے۔اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر میں کانی شال بنانے کا ہنر کانیہامہ گائوں سے شروع ہوا ہے۔ سال 2010میں کانی شال کی جی آئی ٹیگنگ اورجون 2020میں حکومت کی جانب سے بڈگام کے کانی ہامہ گائوں کو ہینڈلوم گائوں کا درجہ دئے جانے کے بعد کا نی شال بنانے کی دستکاری میں دوبارہ جان آگئی ہے۔ کانی شال بنانے کیلئے لداخ کی نایاب چھنگ تھنگی بھیڑوں سے حاصل کئے گئے پشمینہ اون کو استعمال کیا جاتا ہے۔یہ بھیڑ زیادہ تر تبت میں پائے جاتے ہیں۔ان بھیڑوں سے حاصل کئے گئے پشمینہ اون کوکشمیر لایا جاتا ہے جہاں کشمیری خواتین چرکھے سے بھیڑوں کے بالوں کو کتائی کے ذریعے ایک باریک تار میں تبدیل کرتی ہیں ۔ بعد میں اسی باریک تار کو مختلف رنگ دیئے جاتے ہیں اور انہی مختلف رنگوں کی پشمینہ تاروں کو کانی شال بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔کانی ہامہ سے تعلق رکھنے والے دستکار فیاض احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ کانی شال بنانا ایک صبر آزمودہ کام ہے ،کیونکہ ایک شال بنانے میں 3سے 6ماہ تک لگتے ہیں‘‘۔فیاض احمد نے بتایا ’’سال 1980میں کانی شال بنانے والے دستکاروں کی تعداد ہزاروں میں تھی اور یہ کام کانی ہامہ کے علاوہ سرینگر کے عیدگاہ، کائوڈارہ ، جھیل ڈل اور دیگر جگہوں پر بھی ہوتا تھا لیکن کم کمائی کی وجہ سے دستکاروں نے اس کام کو چھوڑ دیا ۔ فیاض احمد نے بتایا ’’ 22مارچ 2010کو کانی شال کو جی آئی ٹیگ ملنے سے یہ دستکاری پھر سے بحال ہونے لگی اور لوگ دوبارہ اس کام کی طرف راغب ہونے لگے ۔ فیاض نے بتایا ’’ کانی شال بنانے والے دستکار کی کمائی اب روزانہ 100روپے سے بڑھکر 500روپے ہوگئی ہے لیکن سال 2019کے بعد پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے پھر سے یہ کام متاثر ہونے لگا ۔ فیاض نے بتایا ’’ حکومت نے جون 2020میں کانی ہامہ کو ایک ہینڈ لوم ولیج کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور اس کی وجہ سے نہ صرف کانی ہامہ کی ترقی ہوئی ہے بلکہ کانی شال بنانے کا کام بھی دوبارہ بحال ہوگیا ہے ۔کانی ہامہ کلسٹر کے سیکریٹری سجاد احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ جون 2020میں کانی ہامہ گائو ں کو ہینڈلوم ولیج کا درجہ دینے کے بعد حکومت نے گائوں کی ترقی کیلئے 10کروڑ روپے صرف کئے اورگائوں میں سڑکیں بھی بنوائی گئیں۔ سجاد نے کہا ’’دستکاروں کیلئے کامن فیسلٹی سینٹر قائم کیا گیا ہے جہاں دستکار اپنا سامان نمائش کیلئے رکھ سکتا ہے، اور اسکے لئے30بنکروں کو شیڈ بنانے کیلئے ایک لاکھ 25ہزار روپے فراہم کئے گئے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اسوقت وادی میں کانی شال بنانے والے کاریگروں کی تعداد 400سے 500کے درمیان ہے، جن میں 260کانی ہامہ میں ہی رہتے ہیں۔ سجاد نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کارخانہ داروں کو 3لاکھ جبکہ انفرادی طور پر کام کرنے والے بنکروں کو 1.50لاکھ روپے کا قرضہ فراہم کیا جاتا ہے، نیز کارخانہ داروں کو 35فیصد جبکہ انفرادی طور پر کام کرنے والے بنکروں کو 14فیصد سبسڈی دی جاتی ہے۔ہینڈی کرافٹس محکمہ میںکانی شال شعبہ انچارج قیصر انجم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سرینگر ، بڈگام اور بارہمولہ میں3سرکاری تربیتی مراکز قائم کئے گئے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ کانی شال بنانے کی صنعت زندہ رکھنے کیلئے ایک مرکز میں 15افراد کو 3سال تک تربیت دی جاتی ہے۔اس دوران انہیں ماہانہ 1500روپے بھی دیئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسکے بعد6ماہ تک انہیں پرائیویٹ کارخانوں میں اضافی تربیت دی جاتی ہے اوراس دوران انہیں ماہانہ 2000روپے بھی دیئے جاتے ہیں اور جو کاریگر انہیں تربیت دیتا ہے اسے فی امیدوار 2000 روپے ماہانہ دینے کا بندوبست ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تربیت کے دوران’واف‘ تیار کرنے کیلئے کارخانہ دار کو 6ماہ کیلئے 25ہزار بھی دیئے جاتے ہیں۔