بلال فرقانی
سرینگر//وادی میںموسم سرما کی آمد کے سا تھ ہی لو گوں نے سردیوں سے بچنے کیلئے تمام روایتی تدا بیر کو اپنا نا شروع کر دیا ہے جس میں’کا نگڑی‘کا روایتی اور تا ریخی استعمال بھی شامل ہے۔ کوئلوںاور کانگڑیوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے صارفین کو سیاہ و لال کر دیا ہے جبکہ متبادل راستوں کی تلاش بھی کی جا رہی ہے۔ کشمیرمیں سردی کی شدت سے بچنے کیلئے گرمی حاصل کرنے کے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں۔کانگڑی کشمیریوں کیلئے سردی سے بچائو کا بہترین اور پسندیدہ ذریعہ مانا جاتا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملکہ چلہ کلان کہلائی جانے والی کانگڑی کا وجود خطرے میں ہے کیونکہ جدید گیس ہیٹروں سے یہ اپنی افادیت کھو رہی ہے۔کانگڑی کا استعمال سردیوں کے دوران وادی میں صدیوں سے کیا جاتا ہے تاہم دور جدید میں گرمی کو میسر کرنے والے آلات نے اب اس کی اہمیت کو کافی حد تک زک پہنچایا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران شہر اور قصبہ جات میں جدید گیس ہیٹروں کی کثرت پائی جاتی ہے جبکہ ان دکانوں میں خریداروں کا کافی تعداد گیس ہیٹروں کو خریدنے کیلئے موجود رہتے ہیں۔ وادی میں جہاں گیس،بجلی اور تیل خاکی سے چلنے والے ہیٹروں کی خرید وفروخت جوبن پر ہے وہیں شہری علاقوں میں کانگڑیوں کو طاق پر سجایا گیا ہے۔ جدید ہیٹروں کو بیرون ریاستوں کے علاوہ وسطی ایشاء اور جاپان اوردیگر ملکوں سے برآمد کیا جا رہاہے جبکہ فی الوقت اس کا استعمال زیادہ قیمت ہونے کے باجود بھی بڑی زوروں پرہے۔کانگڑی کی افادیت کم ہونے میں کئی ایک وجوہات کا رفرما سمجھے جاتے ہیں ،جہاں کانگڑیوں میں درکارکوئلوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا وہیں کانگڑیوں کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔شہر اور قصبہ جات میں3برس قبل جہاں عام کانگڑیوں کی قیمت70روپے سے100روپے تھی وہیں انکی قیمت اب250روپے سے لیکر500روپے تک جا پہنچی ہے۔ سرینگر کی ایک خاتون نے کانگڑیوں کی افادیت ختم ہونے سے متعلق بتایا کہ گیس ہٹر چلانے اور استعمال کرنے میں آسان ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں کانگڑیوں میں کوئلہ بھرنے سے ہاتھ خراب ہیں وہی صبح سویرے تیار کرنا بھی بڑا مشکل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اب جب گرمیوں کیلئے جدید آلات بازاروں میں موجود ہے تو کانگڑیوں کو استعمال کرنے کی ضرورت بھی کم ہوئی ہے۔ گیس ہیٹر فروخت کرنے والے ایک دکاندار فردوس احمد بابا نے کہا کہ چند سال قبل محال ہی گیس اور بجلی سے چلنے والے ہیٹروں کی خریداری ہوتی تھی تاہم اب عام لوگ بھی اس کو استعمال کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے یہ جدید ہیٹر ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رواں موسم کے دوران انہوں نے2بار بیرون ریاستوں سے ان ہیٹروں کو منگوایا ہے اور یہ کہ امسال ہیٹروں کی خریداری زوروں پر ہے ہیں ۔ہیٹروں کی خریداری سے کانگڑی فروشوں کا کاروبار بھی بُری طرح متاثر ہوا اور انہیں کھانے کے لالے پڑ رہے ہیں۔کانگڑیوں کی مرمت کرنے والے بھی سخت پریشان ہے کیونکہ لوگوں کی طرف سے کانگڑیوں کو مرمت کرنے کا سلسلہ بھی دم توڑ بیٹھا ہے۔پلوامہ کے ایک کاری گر عبدالاحد راتھر نے بتایا’’ایک مزدور دن میں 2یا 4گانگڑیاں بنا سکتا ہے اور اس کے لئے درکار میٹریل کی قیمت کافی بڑھ چکی ہے اور اس وجہ سے کانگڑیوں کے دام بھی بڑھ گئے ہیں ۔چرار شریف سے تعلق رکھنے والے ایک کانگڑی فروش نے کہا کہ ان کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ وادی میں کانگڑیوں کی روایت اب ختم ہونے کے دہلیز پر پہنچ چکی ہے۔بانڈی پورہ کے ایک اور کانگڑی فروش نے کہا کہ جہاں وہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی روزانہ اوسطاً 10سے15کانگڑیاں فروخت کرتے تھے وہیں اب مشکل سے5کانگڑیاں فروخت ہوتی ہے۔