بلال فرقانی+اشرف چراغ
سرینگر+کپوارہ//نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر چودھری محمد رمضان اگرچہ7ویں مرتبہ ہندوارہ نشست سے انتخابی میدان میں کود گئے ہیں،تاہم انہیںاپنی اور پارٹی کی کھوئی ہوئی ساخت کو بحال کرنے کیلئے لوہے کے چنے چبانے پڑیں گے۔چودھری محمد رمضان کی جیت میں پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون اور عوامی اتحاد پارٹی کے امیدوار ایڈوکیت ماجد بانڈے ایک مضبوط دیوار کی مانند کھڑے ہیں۔ چودھری محمد رمضان1983سے اس نشست پر الیکشن لڑتے آئے ہیں اور5بار کامیابی درج کرکے وزیر بھی رہے،تاہم سابق ممبر اسمبلی سجاد غنی لون اور لون خاندان کی کپوارہ کی سیاست پر گرفت ان کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔2014میں سجاد غنی لون نے چودھری محمد رمضان کو5ہزار سے زیاد ووٹوں سے شکست دی تھی،تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ10برسوں میں جہلم سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ سجاد لون کپوارہ اور ہندوارہ دونوں نشستوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چودھری رمضان کی حمایت میں کانگریس بھی ہے،جس کے نتیجے میں انہیں اگرچہ کچھ فائدہ مل سکتا ہے تاہم سجاد لون نے بھی اس نشست پر دوبارہ جیت کیلئے تمام تر طاقت جھونک دی ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ حالیہ الیکشن کے دوران سجاد لون نے ہندوارہ سے سبقت حاصل کی تھی،اور اگر وہ اس کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوںگے تو چودھری محمد رمضان کو ایک بار پھر شکست فاش دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ دونوں امیدواروں کے پرے انجینئر رشید کی سربراہی والی عوامی اتحاد پارٹی نے معروف قانون دان ایڈوکیٹ ماجد بانڈے کو میدان میں اتارا ہے۔بانڈے کا سیاسی کیرئر اگرچہ طویل نہیں ہے تاہم وہ علاقے کے ایک معروف وکیل اور سماجی کارکن ہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر اس نشست پر انجینئر ریشد کی سونامی چلی تو نیشنل کانفرنس اور پیپلز کانفرنس کے امیدواروں کیلئے مشکلات کھڑی ہونگی۔اس نشست پر بی جے پی نے غلام محمد میر کو میدان میں اتارا ہے۔ نشست پر تکونی الیکشن کا امکان نظر آرہا ہے اور آخری مرحلے میں جب ووٹ ڈالے جائیں گے، تو اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا پتہ چل جائے گا۔ مجموعی طور پر اس نشست پر7امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے جن میں پی ڈی پی کے گوہر آزاد میر،آزاد امیدوار زاہدمشتاق شیخ اورشاہد حسین میرشامل ہے۔ ہندوارہ کے رائے دہندگان کس امیدوار کو اسمبلی میں اپنی آواز اٹھانے کیلئے روانہ کریں گے یہ تو8 اکتوبر کو ہی معلوم ہوگا۔اس نشست پر ماضی میں نیشنل کانفرنس کا دبدبہ رہا ہے۔اس نشست پر1962میں آزاد امیدوار عبدالغنی میر نے بازی ماری جبکہ1967میں کانگریس کی ٹکٹ پر عبدالغنی میر نے میدان مارا۔1972میں عبدالغنی میر نے جیت کی ہیٹرک لگاتے ہوئے آزاد امیدوار شریف الدین شارق کو21ہزار ووٹوں سے شکست دی۔1977میں پیپلز کانفرنس کے امیدوار خواجہ عبدالغنی لون نے نیشنل کانفرنس امیدوار شریف الدین شارق کو2319ووٹوں سے شکست دی تاہم1983میں نیشنل کانفرنس کے امیدوار چودھری محمد رمضان نے پیپلز کانفرنس کے عبدالغنی لون کو10ووٹوں سے شکست دی۔1987میں چودھری محمد رمضان نے ایک بار پھر عبدالغنی لون کو1300کے قریب ووٹوں سے ہرادیا جبکہ1996میں چودھری محمد رمضان نے نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر لگاتار جیت درج کرتے ہوئے کانگریس کے امیدوار علی محمد ڈار کو قریب8ہزار ووٹوں سے شکست دی۔2002میں آزاد امیدوار غلام محی الدین صوفی نے نیشنل کانفرنس کے محمد رمضان چودھری کو3ہزار ووٹوں سے شکست دی جبکہ2008میں ایک بار پھر چودھری محمد رمضان نے جیت درج کرتے ہوئے غلام محی الدین صوفی کو قریب11ہزار590ووٹوںسے ہرادیا۔2014میں پیپلز کانفرنس کی ٹکٹ پر سجاد غنی لون نے چودھری محمد رمضان کو5423ووٹوں سے شکست دی۔
کپوارہ نشست پر2سابق وزراء میدان میں | پی ڈی پی امیدوار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
بلال فرقانی+اشرف چراغ
سرینگر+کپوارہ// پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون کپوارہ نشست پر جیت درج کرنے کیلئے جہاں عرق ریزی میں مشغول ہے وہیں نیشنل کانفرنس کے امیدوار ناصر اسلام وانی اور پی ڈی پی امیدور میر فیاض کی موجودگی سے انکی جیت آسان نہیں ہوگی۔ ناصر اسلام وانی عمر عبداللہ کی سرکار میں وزیر رہنے کے علاوہ امیراکدل حلقہ انتخاب سے ممبر اسمبلی بھی رہے ہیں تاہم اس الیکشن میں انہوں نے اپنے آبائی علاقے کپوارہ سے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ناصر اسلام وانی کو جہاں اس نشست پر کانگریس کی حمایت بھی حاصل ہے ،وہیں گزشتہ50برسوں میں اس نشست پر نیشنل کانفرنس کا ہی قبضہ رہا ہے۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ناصر اسلم وانی کے داد اچونکہ سوگام لولاب حلقہ انتخاب میں قریب16برسوں تک ممبر اسمبلی رہے،اس لئے سرینگر سے کپوارہ نشست پر منتقلی ان کیلئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتی۔ پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون اس نشست پر از خود میدان میں آئے ہیں۔پارلیمنٹ الیکشن میں ہار کے بعد سجاد نے کوئی بھی خطرہ مول لینے کی کوشش نہیں کی اور وہ ہندوارہ اور کپوارہ نشستوں سے میدان میں اترے۔ضلع کپوارہ کی سیاست پر سجاد غنی لون اور پیپلز کانفرنس کا گہرا اثر ہے،اس لئے سجاد لون بھی اس نشست پر ایک مضبوط دعوے دار ہے۔ سجاد لون نے2014کے الیکشن میں ہندوارہ سے جیت درج کی تھی جس کے بعد وہ محبوبہ مفتی والی بھاجپا،پی ڈی پی سرکار میں وزیر بھی رہیں۔سجاد غنی لون کے والد بھی ضلع کپوارہ سے کئی بار اسمبلی کیلئے منتخب ہوئے اور وزیر بھی رہیں جبکہ بعد میں حریت کے سنیئر لیڈروں میں شمار ہوتے تھے۔ اس نشست پر پی ڈی پی سابق راجیہ سبھا ممبر میر فیاض کو میدان میں اتارا ہے۔میر فیاض بھی حالیہ پارلیمانی انتخابات میں شکست خوردہ امیدوار ہے تاہم2014کے الیکشن میں میر فیاض کو اس نشست پر پیپلز کانفرنس کے امیدوار بشیر احمد ڈار نے 151ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔ میر کو پی ڈی پی نے بعد میں راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا۔ فیاض احمد میر نے بعد میں پی ڈی پی سے کنارہ کشی اختیار کی اور پیپلز کانفرنس میں شمولیت اختیار کی۔انہوں نے گزشتہ برس پیپلز کانفرنس کو بھی خیر باد کیا اور امسال پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی۔کپوارہ نشست پر مجموعی طور پر8امیدوار میدان میں ہیں،جن میں بھیم سینا کے بشیر احمد ملک،نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی سلیمہ،سماج وادی پارٹی کی صاحبہ بیگم اور آزاد امیدوار پیرزادہ فردوس احمد اور غلام نبی خان پٹھان شامل ہیں۔1967میں کانگریس کی ٹکٹ پرایم ایس تانترے نے جیت درج کی،1972میں کانگریس کے غلام محمد شاہ نے آزاد امیدوار محمد سلطان تانترے کو8650کے قریب ووٹوں سے شکست دی، تاہم1977کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے امیدوار اسد اللہ شاہ کامیاب ہوئے،اور انہوں نے جنتا پارٹی کے امیدوار غلام نبی کو13ہزار800کے قریب ووٹوں سے ہرادیا۔1983کے الیکشن
میں نیشنل کانفرنس کے ہی امیدوار پیر عبدالغنی نے اس نشست پر پیپلز کانفرنس کے عبدالحق کو قریب7ہزار ووٹوں سے شکست دی جبکہ1987میںنیشنل کانفرنس امیدوار مشتاق احمد لون نے میدان مار اور پیپلز کانفرنس امیدوار1800 ووٹوں سے ہرادیا۔1996میں انہوں نے ایک بار پھر نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر جیت درج کی اور کانگریس امیدوار چودھری سلام الدین کو5600کے قریب ووٹوں سے ہرادیا۔2002میں نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر میر سیف اللہ نے آزاد امیدوار غلام قادر میر کو132ووٹوں سے بازی ماری جبکہ2008میں پی ڈی پی کے امیدوار میر سیف اللہ کو قریب5200ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔2014کے الیکشن میں پیپلز کانفرنس کے بشیر احمد میر نے پی ڈی پی امیدوار میر فیاض کو132ووٹوں سے ہرادیا۔