شہباز رشید
جاہ و حشمت ،شان وشوکت ،چلت پھرت،ٹھاٹھ باٹھ ،نام ونموداور رعب داب کو آج کے دور میں شاید کامیابی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اسی لئے کبھی ایلن مسک کبھی بل گیٹس کبھی شاہ رخ خان کبھی اسکندر اور کبھی بش ،پُتن اور دوسرے سفاک حکمرانوں کا نام لے لےکر کامیابی کے موضوع پر زبان ولب اورقلم و دوات کی ورزش کرائی جاتی ہے ۔یہ کیا ماجرا ہے کہ جس کو جو سوجھے ،اُسےکامیابی قرار دیتا ہے اور جس کو جو محسوس ہو، اُسے ہیرو بنا دیتا ہے۔ہمارے آج کے معاشرے کی ستم ظریفی دیکھیں، بے حیا مرد و خواتین کو کامیاب ترین ہونے کے القابات سے نوازا جاتا ہے ۔اتنا سستا سودا اور اتنے کم داموں میں اس روئے زمین پر کامیابی کا فریرا بیچا جارہا ہے، کسی المیہ سے کم نہیں ! کیا کبھی کسی نے یہ سوچنے اور جاننے کی زحمت اٹھائی کہ کامیابی کے شرائط کیا ہونے چاہئیں یا کامیابی کن امور کا نام ہے یا یہ کہ کامیابی کے لوازمات کیا کیا ہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں کامیابی کے نام پر صرف تجارت ہوتی ہے، اس لفظ کو بیچا اور خریدا جاتا ہے جس طرح سے سونا چاندی کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔تجارت کی اس منڈی میں کامیابی ریڑی پر پڑی سبزیوں کی مانند سربازار ہر ایک کو بیچی جاتی ہے، جو اسے خریدنے کا استحقاق رکھتا ہو۔ہمارے جدید معاشرے کا المیہ یہ بھی ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کو حکومت کے ایوانوں کی کنجیاں دے کر عوام پر آزاد دَست درازی کرنے کی چھوٹ دی جاتی ہے، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہیں کوئی قاتل حکمران ہے اور کہیں شرابی، کہیں بے ایمان اور کہیں دیوث، کہیں نااہل اور کہیں بدبخت، کہیں چور اور کہیں ڈکیتی، کہیں لٹیرا اور کہیں بدذات، کہیں غدار اور کہیں احمق، کہیں بداخلاق اور کہیں جاہل، کہیں کذاب اور کہیں دغاباز، کہیں فاسق اور کہیں منافق ۔ہاں ہاں! یہی ہے حکومتوں کا احوال،یہی ہے پوری دنیا کا منظرنامہ اور یہی ہے عوام کی مکاریوں کا شاخسانہ ۔دنیا اپنے منطقی انجام کی طرف سرعت کے ساتھ رواں ہے، خدائی پکڑ کے قریب ہے اور ساری زمین برائی کے ان بوجھوں تلے دب رہی ہے، انسانیت سکڑرہی ہے اور حیوانیت پھیل رہی ہے۔جدھر دیکھو، جہاں جھانکو وہاں دنیا کی ہوس ڈیرہ لگائے ہے۔بے معنی گفتگو، لاطائل باتیں اور من گھڑت قوانین ِ دنیا معاشرے کا جزوِلاینفک بنتے جارہے ہیں ۔
حیرت ہےاستعجاب ہے ملت کے اس ہلکے پن پر، اقتدار کے لالچ پر، دنیا کو مٹھی میں لینے کی حوس پر اور خدائے واحد القہار سے بے خوف ہونے پر ۔ ملت کا یہ حال ہےکہ اللہ کے احکامات روندے جارہے ہیں اور شکرو نیاز کی مجالس بھی منعقد کی جارہی ہیں۔قرآن پس پشت چھوڑا جارہا ہے اور ختم قرآن کی محفلیں سجائی جارہی ہیں اور کنجوسی و بخیلی دلوں کو اغوا کرچکی ہے اور کھانے پینے کے دسترخوان بچھائے جارہے ہیں ۔کرسی کے لالچ میں دین کا نام مسلسل لیا جاتا ہے لیکن عمل کرنے کے لئے حب النفسی ، حب الوطنی اور حب الدنیا کا عملی مظاہرہ ہو رہا ہے۔
ترچھے نظریے پر استحکام کے خواب دیکھنا بیوقوفوں کی حرکات ہیں۔کیا کبھی ریت سے بنے پہاڑ برقرار رہے ہیں، کیا کبھی لوہے کے پَر پہن کر اُڑنا ممکن ہوا ہے اور کیا کبھی اونٹ کو سوئی کے سوراخ سے گذارنا ممکن ہوا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب سوائے نفی کے اور کچھ نہیں۔یہی نفی ملت کے ان فضول اقوال و افعال کا بھی ہے جو وہ دنیا کو بہتر بنانے کے لئے اختیار کئے ہوئی ہے۔ملت کا سیاستدان جھوٹ بول بول کر حقیقی لیڈر بننے کا مسخرہ کر رہا ہے، ملت کا بزنس مین سود لے لے کر ترقی کے گن گا رہا ہے ،ملت کا خواندہ طبقہ افسر شاہی کا مظاہرہ کررہا ہے اور ملت ِمرحومہ کا عام انسان وصفِ فرقانیت سے عاری رہ کر بے ڈھنگ چلے جارہا ہے۔نظارہ اس گلستان مرحومہ کا کچھ ایسا ہی کی دیکھ کے وحشت ہوتی ہے اور سوچ کے دہشت کہ کیوں باغ کی کلیاں کانٹوں سے اپنی حفاظت کرنا حق سمجھتے ہیں !کانٹوں سے دوستی آخرکار نقصان پر منتج ہو ہی جاتی ہے ۔ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے کیا خوب ترقی کی ہے ،بس یہ فیصلہ اس کے بڑے مکان اور بڑی گاڑی کو دیکھ کر ایسے کرتے ہیں جیسے ہم کامیابی اور ناکامی کی حتمی سرٹیفکیٹ دینے کے لئے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ حضرت انسان کی ترقی یہی ہے کیا کہ اس نے کسی دوسرے کا پیٹ چیر کے، لباس پھاڑ کے اور مال ہڑپ کرکے رنگ و روغن کی نمائش کی ہوگی۔اعلیٰ عمارتیں، بڑی گاڑیاں اور عیاشی کے مراکز کامیابی کے ہر گز معیارات نہیں،یہ تو بس انسانی خواہشات کی تکمیل ہے ۔کامیابی روح کی پاکیزگی، شخصیت کی اخلاقی اقبال و بلندی اور تامرون بالمعروف ونہی عن ا لمنکر کا نام ہے۔کامیابی مروت و شفقت، دردمندی و رحم دلی ،نظم وضبط، اعتدال و توازن، سلہ رحمی و معاملہ فہمی، ذکر و اذکار، زہد و تقویٰ، تعاون علی البر وتقویٰ، سخاوت و بخشش اور طہارت و پاکیزگی جیسے اوصاف سے متصف ہونے کا نام ہے ۔
[email protected]>