کہتے کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور ِحیات میںقارونؔ نام کا ایک بے انتہا امیر شخص تھا ۔اُس کی دولت ،مال و زَر جن لاکروں،الماریوں یا صندوقوں میں ہوتا تھا، اُن کے تالوں کی چابیاں اتنی زیادہ اور اتنی وزنی تھیں کہ سترہ اونٹوں پر بار ہوتی تھیں ۔زکوٰۃ فرض ہونے پر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اُس کے پاس زکوٰۃ مانگنے یا ادا کرنے کی غرض سے گئے تو قارون ؔ غصہ ہوا اور کہنے لگا کہ اُس نے دولت اپنی عقل و دانش اور عزم و محنت سے پیدا کی ہے۔اُس میں کیسی اور کیونکر زکوٰۃ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔بہر حال پھر اُس سے قطع نظر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لالچ انسان کی فطرت میں موجود ہے مگر اُس لالچ کو اُس خواہش کو شیطان ہر صورت میں مہمیز دیتارہتاہے۔اسی لئے ایک عام انسان بھی ایک ہزار روپیہ پانے پر دوسرے ہزار کی خواہش کرتا ہے اور پھر یہ لالچ یا خواہش بڑھتی ہی رہتی ہے۔بڑھتی ہی رہتی ہے،حتیٰ کہ وہ لالچی کنجوس بن کر جمع شدہ پونجی کے واجبات بھی درخور اعتناء کردیتا ہے ۔قارونؔ حالانکہ ایک عام سا ذاتی نام تھا مگر اُس کے عمل سے وہ اس قدر بدنامِ جہاں ہوا کہ اب ہر کنجوس کو قارون ؔ کا نام ہی دیا جاتا ہے،باقی اللہ جس کو توفیق دے وہ شیطان کے جھانسے میں نہیں آتا ہے۔
ابھی چند روز قبل ایک محفل میں ایک بزرگ اپنے داماد کے بارے میں بتا رہے تھے کہ اُن کی آمدنی کتنی ہے ؟مالی پوزیشن کیا ہے ؟ اثاثہ کتنا ہے ؟وہ کھاتے کیا ہیں؟ اپنے شب و روز کیسے بتاتے ہیں ؟حالانکہ یہ ایک غیر دلچسپ تذکرہ ہے مگر ہر بات میں ایک بات ہوتی ہے ۔اس لئے یہ بات جب میں آپ کو سناؤں گا تو آپ کو دلچسپی خود بخود پیدا ہوگی۔وہ بزرگ بتا رہے تھے :شہر یعنی سول لائنز میں ہی ایک جگہ ایک بہت بڑی رقم کے عوض انہوں نے یعنی اُن کے داماد نے کچھ جگہ خریدی ،اُس پر بنی ہوئی پُرانی عمارت کو گروا دیا ،ملبہ اور ٹوٹی پھوٹی لکڑی کوکباڑی نے اَسی ہزار روپے کے عوض خرید لیا اور اب اُس جگہ ایک شاپنگ کمپلیکس بن رہا ہے ۔تین سلیب پڑچکی ہیں اور تین منزلیں بھی تیار ہیں جب کہ چوتھی سلیب پڑنے جارہی ہے ۔اُس کمپلیکس کے نیچے دوکانیں بھی ہوں گی جن کا سودا الگ سے ہوگا ۔ویسے ایڈوانس میں وہ دس لاکھ رروپیہ فی دوکان خواہش مند اصحاب سے لے چکے ہیں۔
جمائی صاحب کی ذاتی ملکیت میں شہر سے کچھ باہر بیس کنال کی زمین ہے جس کے ایک حصے میں ایک کارخانہ لگا ہے، جس کا تیار شدہ مال بازار میں اچھے داموں فروخت ہورہا ہے ۔دس کنال سے زیادہ اراضی پر ایک فارم ہاوس بھی بنا ہے جس میں پیدا شدہ ترکاری سے ایک خاصی رقم منافع کے طور پر حاصل ہوجاتی ہے ۔اُن کا ایک کارخانہ جموں میں بھی ہے ۔وہاں پر بھی تھوڑی سی زمین اور ایک مکان ہے ،یہاں خاص شہر سرینگر میں اُن کے تین عالی شان مکانات ہیںاور ساتھ میں کچھ دوکانیں بھی ہیں،جن سے معقول کرایہ وصول ہوجاتا ہے ۔جمائی راجہ ٹمبر کا بھی کاروبار کرتے ہیں جس میں اُن کو خاصا منافع ہوجاتا ہے ۔ ان کارخانوں ،مکانوں،دکانوں،فیکٹریوں کے بغیر بھی جو کام اُن کے ہاتھ لگتا ہے ،کرتے ہیں ۔بہت محنت کرتے ہیں ،اپنے آپ کو مکمل طور سے مصروف رکھا ہے ۔اُن کے شب و روز اور مشغولیات کا کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں ہے،آج پنجاب میں ہے تو کل دہلی میں،پرسوں سرینگر میں تو چوتھ لداخ میں۔اپنے لئے تو ایک گاڑی کی ضرورت ہے ہی۔اس کے علاوہ بچوں کے لئے بھی گاڑیاں رکھی ہیں۔ملازموں کے لئے وین کا بندوبست کر رکھا ہے ۔ غرض یہ کہ خدا کا دیا ہوا اُن کے پاس اتنا ہے کہ پیسوں یا آمدن کا اب کوئی حساب ہی نہیںہے۔چنانچہ مصروفیت حد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف تھکاوٹ ہوجاتی ہے بلکہ دماغ بھی منتشر رہتا ہے اور اس ٹینشن سے نیند نہیں آتی ۔جاگ جاگ کر راتیں کاٹ لیتے ہیں اور پھر انتہائی مجبوری کی حالت میں ادویات کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے بلکہ اکثر ڈاکٹروں سے بھی صلاح لیتے ہیں۔اس تھکاوٹ ،انتشار ،ادویات اور مختلف مصروفیات کی وجہ سے صحت کی گراوٹ ایک لازمی امر ہے ۔اب سوال میری طرف سے تھا۔
’’اچھا جناب! یہ تو بتایئے کہ جمائی راجہ اتنا کماتے ہیں ،لاکھوں ، کروڑوں کا کاروبار کرتے ہیں ،اربوں روپے کی پراپرٹی بنائی ہے تو ظاہر ہے کہ اُن کا کھانا پینا بھی عالی شان ہوتا ہوگا ۔نہ جانے رات کو دستر خوان پر کتنے لوگ ساتھ بیٹھ کر کھانے میں شریک ہوتے ہوں گے۔‘‘حاجی صاحب کا جواب تھا:’’اجی کہاں ؟اُن کے کھانے پینے میں بڑی گڑ بڑ ہے ۔دن میں تو کچھ بھی نہیں کھاتے ،عصر کے وقت نمکین چائے کا ایک کپ لیتے ہیں اور رات کو ساگ یا کسی اور سبزی کے ساتھ چاول(بھات) کے چند لقمے لیتے ہیں ۔بس یہی اُن کی خوراک ہے ۔‘‘
حاجی صاحب یعنی اُن کے سسر جی سے جمائی راجہ کی یہ صورت حال سن کر میں حیران رہ گیا اور سوچنے لگا کہ یہ صحیح ہے کہ ایک انسان خواہش کرتا ہے کہ وہ ایک خوشحال زندگی بسر کرے ،اچھا کھائے ،اچھا پہنے اور بعد ازاں کچھ اُس کے ورثاء کے لئے بھی پس انداز ہو،اُس کے بچے پڑھیں لکھیں ،انسان بنیں اور سماج میں اپنی حیثیت منوائیں مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ جمائی راجہ نے اتنے پیسے خرچ کرکے عالی شان بلڈنگ میں عالی شان پلنگ اور اُس پر بچھاکر نرم و ملائم بسترہ خرید لیا مگروہ نیند نہیں خرید سکے۔انہوں نے ایمان داری ، بے ایمانی ،سچ جھوٹ ،کھرا کھوٹا کرکے کروڑوں روپیہ کمایا مگر اس ڈھیر سارے روپے سے وہ بھوک نہیں خرید سکے۔انہوں نے موٹر گاڑی ،مکانات ، دوکانات ،شاپنگ کمپلیکس اور زمینیں خرید لیں مگر وہ ٹینشن یا انتشار کے لئے سکون نہیں خرید سکے۔انہوں نے ڈھیروں زَر و مال بنایا ،اراضی اور باغات تو پیدا کرلئے مگر وہ چائے کے ایک کپ کے ساتھ مرغوب و خوش ذائقہ ناشتہ نہ جوڑ سکے۔اس کے برعکس اگر جمائی راجہ خالی اوقات میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گپ شپ کرتے اور محنت و مشقت کرکے بلکہ مناسب و موزون کمائی کرکے صرف رات کو بھرپور نیند لے سکتے تھے اور بافراغت دو وقت کی روٹی کھا سکتے تھے تو اُن کی زندگی پُر مسرت ،کتنی شاندار ،کتنی مزے دار اور مطمئن و پُر سکون ہوتی۔بہر حال رب سے عقل سلیم کی دعا کے ساتھ اختتام کرتے ہیں اور ؎
میلے میں سب پتھر کے تاجر ہیں عزیزؔ
آپ کہاں آئینہ لے کر آئے ہیں
عزیز ؔ الہ آبادی
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995