والدین کو بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ،متاثرین کی بحالی کیلئے توجہ کی اپیل
جاوید اقبال
مینڈھر// مینڈھر کے کالا بن علاقے میں حالیہ بارشوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر زمین دھنسنے کے باعث ناقابلِ تصور تباہی ہوئی ہے، جس سے ساڑھے چار سو سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق زمین دھنسنے سے کم از کم ستّر مکانات یا تو مکمل طور پر زمین بوس ہوگئے ہیں یا پھر اتنے شدید متاثر ہوئے ہیں کہ اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک قبرستان اور مرکزی سڑک بھی زمین کے کھسکنے سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔اس المناک صورتحال نے درجنوں خاندانوں کو بے گھر کردیا ہے جبکہ پورے علاقے کی روزمرہ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ متاثرین کے مطابق، سب سے زیادہ مشکلات سکول جانے والے بچوں کو درپیش ہیں۔
یا تو وہ اپنے گھروں سے بے دخل ہوچکے ہیں یا پھر تعلیمی اداروں تک جانے والے راستے تباہ ہوگئے ہیں۔ نتیجتاً تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر رکی ہوئی ہیں، جس سے والدین کو خدشہ ہے کہ بچوں کا مستقبل شدید خطرے میں ہے۔اگرچہ انتظامیہ نے ابتدائی طور پر متاثرہ خاندانوں کو ایک ماہ کا راشن اور عارضی رہائش کے لئے ٹینٹ فراہم کئے ہیں، تاہم متاثرین کے مطابق یہ سہولتیں ناکافی ہیں۔ زمین دھنسنے کے نتیجے میں بیشتر زمین غیر محفوظ اور ناقابلِ استعمال ہوچکی ہے، جس کے باعث ٹینٹ نصب کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ بیشتر متاثرہ افراد کو قریبی رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لینی پڑ رہی ہے، لیکن یہ صورتحال مستقل حل نہیں کہی جاسکتی۔اہلِ علاقہ کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت بے حد کٹھن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ نہ تو صاف پانی کی باقاعدہ سپلائی میسر ہے اور نہ ہی طبی امداد کے مراکز تک رسائی ممکن ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو اب تک کوئی محفوظ اور متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی۔ مقامی لوگوں نے حکومت اور انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ انہیں کم از کم بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور تعلیمی نظام کو فوری طور پر بحال کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔کالا بن کے باشندوں نے اس بات پر بھی افسوس ظاہر کیا کہ بارشوں اور زمین کے کٹاؤ سے ہر سال عوام کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے لیکن کوئی دیرپا اور جامع منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو چاہیے کہ متاثرہ خاندانوں کے لئے مستقل بحالی کا ایک منظم منصوبہ تیار کرے، جس میں محفوظ رہائشی مقامات، ضروری بنیادی سہولیات اور بچوں کی تعلیم کے انتظامات شامل ہوں۔مقامی سماجی کارکنوں اور پنچایتی نمائندوں نے بھی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور نہ صرف متاثرین کی فوری بحالی کرے بلکہ مستقبل میں اس طرح کی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک جامع حکمتِ عملی بھی ترتیب دے۔