پرویز احمد
سرینگر // وادی چناب کے پونچھ اور راجوری میں ’کالا آزار ‘(Leishmaniasis) کے معاملات میں اضافہ کے بعد بارہمولہ ضلع میں بھی اسکے پھیلنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔یہاں حکام نے اس بیماری کے پھیلائو کی حقیقت کا پتہ لگانے کیلئے کئی مشکوک افراد کے نمونے تشخیص کیلئے بھیج دیئے ہیں۔ بارہمولہ میں محکمہ صحت حکام کا کہنا ہے کہ اوڑی میں’ کالا آزار‘ کے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن یہاں مشکوک افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔CL کے سب سے پہلے کیس وادی کشمیر سے 2009 میں ضلع کپواڑہ کے ٹنگڈار علاقے سے رپورٹ ہوئے تھے۔ کالا آزار کی بیماری کو طبی اصطلاع میں (Leishamanaisis)کہا جاتا ہے ۔مختصر طور پر اس بیماری کو CL بھی کہا جاتا ہے۔یہ بیماری سیاہ مکھی(Sandflies) کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ سیاہ مکھی کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری زیادہ تر دوردراز پہاڑی علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں میں بڑی تیزی کیساتھ پھیلتی ہے اور ابتدائی طور پر انسان کے جلد پر لگنے والی بیماری کا پہلے 6ماہ تک کوئی پتہ نہیں چلتا۔
لیکن جب اس بیماری کا دورایہ بڑھ جاتا ہے تو سیاہ مکھی کے کاٹنے سے متاثر ہونے والے افراد بخار میں مبتلا ہو کر، تھکاوٹ اوروزن کم ہونے کے شکار ہوجاتے ہیں اور یہ بیماری، خون ، جلد اور دیگر مختلف جسمانی اعضاء کو متاثر کرتی ہے۔ 2021 کے تجزیئے کے مطابق سیاہ مکھی کے کاٹنے سے ہونے والی بیماریوں کی ایک وسیع رینج ہے، جس میں جلد کے چھوٹے السر سے لے کر عصبی اعضا، خاص طور پر بون میرو، جگر اور تلی میں مہلک نظامی انفیکشن تک کے طبی چیلنجز شامل ہیں۔یہ بیماری ایشیا، امریکہ اور یورپ سمیت 90 سے زیادہ ممالک میں پھیلی ہوئی ہے۔ انٹرنیشنل جرنل آف انفیکشن ڈیزیز (International journal of infection disease)کی جانب سے سال 2019میں جموں و کشمیر میں کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس بیماری کے معاملات میں گذشتہ 10سال کے دوران 60سے 70فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس کا اگر مقررہ وقت پر علاج و معالجہ نہیں کرایا گیا تو یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی ہے ۔ ایک دہائی کے دوران 1300مریضوں پر کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 20سال سے کمر عمر کے لوگوں میں 30.39فیصد، 21سے 40سال تک میں 38.31فیصد، 41سے 60سال میں 23.38فیصد، 61سے 80سال تک 7.77فیصد اور 80سال کے 0.15فیصد لوگ اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 89فیصد مریضوں کے چہرے کو یہ بیماری متاثر کرتی ہے جبکہ صرف 11فیصد مریضوں کے دیگر اعضاء بیماری سے متاثر ہوتے ہیں۔ مئی اور جون کے ابتدائی دنوں میں چناب اور راجوری میں’ کالا آزار ‘ CLبیماری کے معاملات میں اضافہ کے بعد اوڑی میں بھی اضافہ کی اطلاعات ہیں۔ پرنسپل جی ایم سی بارہمولہ ڈاکٹر روبی ریشی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ انہیںکالا آزار(CL) کے معاملات میں اضافہ کی کوئی اطلاع نہیں ہے لیکن اوڑی سے اس بیماری کے ہرماہ 3سے 4معاملات سامنے آتے ہیں جو ایک معمول کی بات ہے‘‘۔ جی ایم سی بارہمولہ کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر پرویز مسعودی نے بتایا کہ یہ معاملات اوڑی سے آتے ہیں لیکن ان میں اضافہ کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ جی ایم سے بارہمولہ میں جلد کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر پرویز نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ ہم ہر ماہ یہ معاملات دیکھتے ہیں اور اس بار بھی یہ معاملات سامنے آرہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ اس بار مشکوک معاملات میں اضافہ ہوا ہے اور شک کو دور کرنے کیلئے ہم نے تمام مشکوک افراد کے نمونوں کو تجزیئے کیلئے بھیج دیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اب نتائج آنے کے بعد ہی حقائق کا پتہ چلے گا اور رپورٹ آنے کے بعد ہی وجوہات پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں پچھلے ایک دہائی سے’ کالا آزار ‘ CLبیماری کے معاملات میں اضافہ ہورہا ہے اور متاثرین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ٹی بی، ایڈز اور دیگر بیماریوں کے خاتمے کیلئے چلائی گئی مہموں کی طرح ’کالا آزار‘ کے خاتمہ کیلئے بھی خصوصی مہم چلائے اور لوگوں کو اس بیماری سے بچانے کیلئے احتیاطی تدابیر اور ٹیکہ کاری کے بارے میں جانکاری فراہم کرنے کے علاوہ مذکورہ بیماری کے خلاف دفاعی حکمت عملی کے بارے میں مطلع کریں۔