سرینگر //کورونا وائرس کی روکتھا م کیلئے جاری لاک ڈائون کے دوران وادی کے 10اضلاع میں تاجر طبقہ کو ہوئے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے اعدادوشمار جمع کئے جارہے ہیں اور سرسری اندازے کے مطابق انہیں 5ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے ابھی تک دوچار ہونا پڑا ہے ۔تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر مرکزی اور یوٹی حکام تاجروں کیلئے کسی بڑے مالی پیکیج کا اعلان نہیں کرتی ،تو اس سیکٹر کے ساتھ جڑے ساڑھے 10لاکھ ملازمین کی نوکریاں چھن سکتی ہیں ،کیونکہ کشمیر وادی میں لاک ڈائون کے سبب مکمل بند رہنے سے تاجر روزانہ سوا سو کروڑ کے نقصان سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔ تاجروں کے مطابق سرکار نے ابھی تک اس سیکٹر کی طرف کوئی دھیا ن نہیں دیا ہے، اور نتیجے کے طور پر یہ سیکٹر ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ۔کشمیر اکنامک الائنس چیئرمین وٹریڈرس اینڈ مینوفیکچررس فیڈریشن صدر محمد یاسین خان نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’’آج سے 2 برس قبل اگر کبھی لاک ڈائون رہتا تھا تو اس سے ایک دن میں کشمیرکے کاروبار کو 100کروڑ کا نقصان ہوتا تھا ،لیکن اب ایک دن میں روزانہ کشمیر وادی میں سوا سوکروڑ روپے کا نقصان بزنس سیکٹر کو ہو رہا ہے ۔ یاسین خان کے مطابق ابھی تک کشمیر کے سروس سیکٹر اور بزنس سیکٹر کو 5ہزار کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے ، یہ صرف ابتدائی تخمینے ہیں ابھی مکمل طور پر اعداوشمار میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ لاک ڈائون ابھی جاری ہے۔خان کے مطابق لاک ڈائون کے بیچ بڑے سے لیکر چھوٹے تاجر کا کاروبار چوپٹ ہو چکا ہے اور جب تک نہ حکو متیں تجارت کو پھر سے شروع کرنے کیلئے کسی بڑے مالی پیکیج کا علان کرتیںتب تک نقصان کی برپائی ناممکن ہے اور یہ سیکٹر پھر سے کھڑا نہیں ہو سکتا ۔
یاسین خان نے کہا کہ حکومتوں کو اس مشکل گھڑی میں سامنے آنا چاہئے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے، تاکہ اس سیکٹر کے ساتھ جڑے لوگ پھر سے اپنی تجارت شروع کر سکیں ۔یاسین خان نے کہا کہ اس سیکٹر میں ساڑھے 10لاکھ ملازمین کام کرتے ہیں اور ان سبھی ملازمین کی دوبارہ بحالی کیلئے حکومت کو سامنے آنے کی ضرورت ہے۔یاسین خان نے کہا ، ہم نے اس سے قبل ملازمین کو تنخواہیں دی ہیں، آج بیشتر تاجر اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیںدے سکیں ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ایسے تاجروں کی تعداد بہت ہی کم ہے جنہوں نے بنکوں سے قرض لیکر تجارت شروع نہ کی ہو ،اب یہ تاجر بنکوں کے بھاری بوجھ تلے بھی دب گئے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں سیلز مینوں ، مزدوروں ، ویٹروں کی نوکریاں بھی چلی گئی ہیں ۔کے ٹی ایم کے محمد صادق بقال نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی تجارت پہلے سے ہی تباہی کے دہانے پر ہے ،لیکن کورونا وائرس کی وبا نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وادی کے 10اضلاع میں اس سیکٹر کو روزانہ کی بنیادوں پر تین سو کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری پوزیشن بھارت کی دوسری ریاستوں سے مختلف ہے۔یہاں 5اگست 2019سے مکمل لاک ڈائون ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر کی تجارت کو پھر سے پٹری پر لانے کیلئے ایک بڑے پیکیج کے طلبگار ہیں ۔انہوں نے کہا کہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ تاجروں کیلئے سرکار کی سوچ منفی ہے اور اگر سرکار کو کشمیر کے تاجروں کا کچھ خیال ہوتا ،تو اس جانب ضرور دھیان دیا جاتا ۔معروف سماجی کارکن اور سیول سوسائٹی ممبر شکیل قلند رنے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے لاک ڈائون کی وجہ سے آنے والے ایام میں تباہ کن صورتحال کی نشاندہی کی ہے۔قلند رنے کہا کہ اگر لاک ڈائون کھل بھی جاتا ہے، تو بھی بہت سے ملازمین اگلے کئی برسوں تک دوبارہ روزگار حاصل نہیں کر سکتے ،کیونکہ چھوٹی انٹرپرائز یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ ان کی ماہانہ تنخواہ واگزر کر سکیں کیونکہ ان کی حالت ناگفتہ بہہ ہے ،وہ اپنے آپ کو نہیں چلا سکتے تو ملازمین کو کیا چلائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ اس کا اثر بہت دیر تک محسوس کیا جا ئیگا ۔
انہوں نے کہا کہ لاک ڈائون کے باعث اس وقت تمام کاروبار متاثر ہے اور جب لاک ڈائون کھلے گا تو صرف ایک تہائی ملازمین ہی کام پر دوبارہ آسکتے ہیں، دو تہائی کیلئے کام پر آنا کافی مشکل ہو گا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جو میڈیکل ایڈوائزری آرہی ہے ان کے مطابق اگلے کئی برسوںتک آپ کو ماسک کا استعمال اور سماجی دوریاں رکھنا پڑیں گی، تو اس صورت میں تمام سیکٹر کا متاثر ہونا لازمی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کورنا نے نہ صرف کشمیر بلکہ پوری دینا میں معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔حال ہی میں کمشنر سکریٹری لیبر سوربھ بھگت نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران کہا تھا کہ انہوں نے ایک ایڈوازئری جاری کی تھی کہ کوئی بھی بزنس مین ایسے ملازمین کی تنخواہ نہیں کاٹے گا جو 15دن تک کام پر نہیں آیا ہو گا ۔